کشمیر کو چیپٹر7 کے تحت لانے کی ضرورت

معاشی دباؤ اور اندرونی سلامتی جیسے درپیش چیلنجز کے ساتھ قومی معاملات سے متعلق سرد مہری، غفلت یا نظر انداز کرنا آزادی اور سلامتی کے سراسر منافی ہو سکتا ہے۔ترجیحات میں سر فہرست یہ معاملہ بھی ہے۔ لاتعداد مسائل کے باوجود پاکستان مسلہ کشمیر کے حل کے لئے سفارتی مہم تیز کرنے کی جانب توجہ دے سکتا ہے۔ وزارت خارجہ، دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی مشنز یہ کام کر سکتے ہیں۔یہ مشنز کشمیر کو اپنی ترجیحات میں رکھنے کی حکمت عملی طے کرتے ہیں۔کشمیر ڈیسک کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان مسلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کو بار بار بات چیت کے پیغامات دیئے گئے ہیں۔ مگر وہ جارحیت پر قائم ہے۔ وہ کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ شمالی ائر لینڈ اور مشرقی تیمور ماڈلز کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ اس سلسلے میں ایک معذرت کہ غیر شعوری تکنیکی خرابی سے یہ کہا گیا کہ شمالی ائر لینڈ نے انڈونیشیا سے آزادی حاصل کی جب کہ مشرقی تیمور نے انڈونیشیا سے آزادی حاصل کی۔ جب کہ ائر لینڈ فارمولے پر بھارت میں کانگریس بھی غور کرتی رہی ہے۔ اس کے لیڈر اور سابق سینئر سفارتکار سلمان خورشید نے بھی اس فارمولے کو زیر گور لانے کی تجویز دی ۔ جس کی بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کھل کر حمایت کی۔ وہ آئی آر اے امن معاہدہ کے طرز پر بات چیت کی وکالت کر رہے تھے۔ایک وقت تھا کہ بی جے پی نے اس حد تک کہا کہ جنوبی ایشیا کی یونین قائم کی جائے۔ جس میں سرحدین سافٹ کر دی جائیں۔مگر نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کی انتہا کر دی۔ جنوبی ایشیا کی یونین یورپین یونین کے طرز پر قائم کی جا سکتی تھی۔ مگر یہ معاملہ سیاست اور نفرتوں کی نذر ہو گیا ۔ یشونت سنہا نے کہا کہ مواقع کو ضائع کیا گیا، فیصلوں میں غلطی ہوئی اور ہم 1947میں اختیار کئے گئے سسٹم کا شکار ہو کر رہ گئے۔
 
اگر حکومت سرگرمی سے مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے نئے انداز میں مہم چلانا چاہتی ہے تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی کبھی سرگرمی دکھاتی تھی۔ میاں نواز شریف کی پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر نریندر مودی کے ساتھ براہ راست ڈپلومیسی چل رہی تھی۔ پرویز مشرف نے بھی واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ بات چیت جاری رکھی اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ کشمیر حل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے مسلے کے صرف نٹ اور بولٹ کسنے کی بات کی۔ وہ دعوی کر رہے تھے کہ کسی معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب شہیدہزار سال تک جنگ کی بات کر رہے تھے۔ پھر ان کی بیٹی محترمہ بینظیر صاحبہ شہید نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ محترمہ نے دہلی میں میڈیا کو بتایا تھا کہ کہ مسلہ کشمیر کا حل مستقبل پر چھوڑ دیا جائے گا۔ آصف علی زرادری حکومت نے بھی یہی لائن اختیار کی کہ پاک بھارت دوستی کریں اور کشمیر کا حل مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ مسلہ کشمیر کو منجمد کرنے کی صدائین کئی بار سنائی دی ہیں۔ مگر کشمیر میں تحریک آزادی اور لازوال قربانیوں کے بعد ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

کشمیریوں نے بھی سمجھا کہ وہ بار بار تحریک آزادی کو کیسے منظم کر سکیں گے۔ جو ہونا ہے آج ہی ہو۔ تا ہم یہ بھی ایک رائے رہی کہ اگر آج کی حکومت یا حالات نا موافق ہیں تو بلا شک تحریک کو آئیندہ نسل پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر تحریک آزادی کے حالات نے اس کی اجازت نہ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلہ کشمیر کا حل فوجی نہیں۔ بندوق سے تباہی پھیلتی ہے۔ تا ہم حل تک پہنچنے کے لئے بندوق کو مجاہدین نے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ کسی حل کے لئے تمام فریق سیز فائر بھی کرتے رہے جو غیر مشروط تھا۔ اس سیز فائر کی نگرانی اقوام متحدہ براہ راست کر سکتی تھی۔ مگر بھارت نے یک طرفہ قتل عام جاری رکھا۔یو این فوجی مبصرین سرینگر، مظفر آباد، راولپنڈی اور کشمیر کے دونوں علاقوں میں موجود ہیں۔ وہ جنگ بندی لکیر کی نگرانی کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کی بھی نگرانی کر سکتے ہیں۔ بات چیت پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف دو طرفہ نہ ہو، دو طرفہ بات چیت کا 71سال میں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ مذاکرات سہ فریقی ہوں۔ پاک بھارت اور کشمیری اس میں ایک میز پر شامل ہوں۔ یا اقوام متحدہ کا نامزد مشن یا ایلچی پاکستان، بھارت، کشمیریوں سے بات چیت کرے ، انٹرا کشمیر بات چیت ہو، پاک بھارت حکومتوں میں بات چیت ہو، ،چین اور یو این بھی بات چیت میں شامل ہو۔ تیسرا فریق پاک ، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان بات چیت کی کوارڈی نیشن اور معاونت کرا سکتا ہے۔

کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 7کے تحت لانا ضرورہ ہو گا۔ اس چیپٹر کے آرٹیکل 39تا 51میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے یا کسی ملک کی وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے تو سلامتی کونسل از خود نوٹس لے کر اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ جب کہ کشمیر کو چیپٹر 6کے تحت رکھا گیا ہے۔ جس کے آرٹیکل 33تا 38تک تنازعات کے حل کے لئے باہمی بات چیت پر زور دیا گیا ہے۔ کسی ایک ملک کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان لاکھ بار مذاکرات پکارتا رہے ، بھارت کی اگر مرضی نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر آج کے حالات میں جب پاک بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں تو مسلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ کا بھی خطرہ موجود ہے۔ اس خطرہ کو حکومت دنیا میں اجاگر کر سکتی ہے۔ اس سے عالمی امن خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل از خود کارروائی کا حق محفوظ رکھے۔ سب سے پہلے مسلہ کشمیر کو چیپٹر 7کے تحت لانے کے لئے کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں لائی جائے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555267 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More