کبھی جن راہوں میں اے بے وفا تو
ساتھ ہوتا تھا
ترا دیوانہ اب ان راہوں سے تنہا گزرتا ہے
عید پرسکون گزری، شب و روز ہنگامہ خیز رہے، حکومت وقت کے کہنے پر تنخواہیں
قبل از عید ادا کردی گئی تھیں، سو جیبیں بھی بھاری نظر آئیں پانچواں روز
آتے آتے جو بچا تھا، سوچا کتابوں کے اتوار بازار میں لٹا آئیں، یہ خیال بھی
پیش نظر تھا اس مرتبہ شاید ہی کتب فروش بازار کا رخ کریں لیکن صاحب یہ طبقہ
ایسی عیاشی کا سوچ بھی کہاں سکتا ہے، سو ‘کورم‘ پورا نظر آیا!
ایک شام قبل نجمہ عثمان صاحبہ کے اعزاز میں چھ بجے سے رات نو بجے تک جاری
رہنے والی تقریب کا احوال لکھتے لکھتے شب کے تین ہوئے تھے لیکن اتوار بازار
کا چسکہ، کیا کیجیے !
رات تین بجے گلشن اقبال میں غروب ہوئے تو علی الصبح صدر میں واقع اتوار
بازار میں طلوع ہونا لازمی ٹھہرا طبیعت مضمحل تھی اور رہی سہی کثر موسم نے
تمام کی
مجال ہے کہ ایک پودا بھی اپنی جگہ سے ہل جائے، جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ
میں گزارے ہوئے دن اور وہاں کا ساکت و جامد موسم یاد آگیا۔۔۔۔
فضا میں بلا کا حبس تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ لو کی دعا مانگی جائے!
کراچی کا موسم کچھ ایسا ہی رہتا ہے، مشتاق یوسفی جو بات کہہ رہے ہیں، وہ
ہمیشہ کراچی کے موسم پر صادق آتی ہی رہے گی، فرماتے ہیں کہ "کراچی کا موسم
ایسا ہے کہ جو کپڑا بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہونے لگتا ہے"
خیال تھا کہ اس مرتبہ اتوار بازار میں "نیا مال" شاید ہی نظر آئے لیکن ایک
پہچان کا کتب فروش آہستہ سے کان میں سرگوشی کرگیا: ‘ بائی صاب! دس منٹ میں
آ جانا‘ -- یہ ایک پشتو بولنے والا شخص ہے، شاید شہر کراچی کا واحد ٹھیٹھ
پشتو بولنے والا شخص جو اردو کی کتابیں فروخت کرتا ہے، مردم شناس ہے لیکن
ایسا بھی نہیں کہ گاہک کی وضع قطع دیکھ کر دام کھرے کرتا ہو، جو دیجیے
خامشی سے رکھ لیتا ہے، دام کم ہوں تو آہستگی سے احتجاج جسے گاہک سنی ان سنی
کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔ ہاں! اس کو جاتا دیکھ کر نسوار کی پچکاری پھینکنا
اس کا حق بھی ہے اور بے ضرر سا رد عمل بھی!
ہم اس کے پاس پہنچے ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اس کے خفیہ پیغام کا عقدہ کھلا اور
ساتھ ہی چار عدد پٹ سن کے مظبوط بورے بھی!
صاحبو! بوتل کھلنے کی بھی کیا خوشی ہوتی ہوگی جو آج "بورا" کھلنے پر گاہکوں
کے چہروں پر دیکھی۔
ایک عرصے بعد شہر کراچی میں ‘بورا‘ کھلنے پر اس میں صرف اور صرف پرانی
کتابیں ہی برآمد ہوتی دیکھیں اور وہ بھی صحیح سلامت، سالم، مکمل حالت میں!
شکنجے ٹوٹ گئے ، زخم بدحواس ہوئے
ستم کی حد ہے کہ اہلِ ستم اداس ہوئے
کتابیں خوب عمدہ حالت میں تھیں ، تعارف پیش خدمت ہے:
|
تلاش حیات ۔وحید الدین قریشی |
01- تلاش حیات گم گشتہ
وحید الدین قریشی
خودنوشت
صفحات: 302
سن اشاعت: 1991
مقام اشاعت: کراچی
قریشی صاحب کے اجداد کا تعلق سہارنپور سے تھا جہاں سے وہ ہجرت کرکے وسط
ہندوستان کے ایک خطہ زمین بنام مالوہ کے قصبے بھانپور میں جا بسے تھے ، پھر
وہاں سے کراچی کا رخ کیا!
وحید الدین قریشی صاحب نے اس کتاب میں اپنی اہلیہ کا نوحہ لکھا ہے جن کی
وفات (1989) کے بعد انہیں ایسا گہرا صدمہ پہنچا کہ یہ کتاب وجود میں آئی،
اپنی ایک تصویر کا عنوان رکھتے ہیں " اے مرگ ناگہاں، تجھے کیا انتظار ہے"
-- مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان
میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو
بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر
بھی بیان کیا گیا ہے!
اہلیہ سے عشقیہ خط و کتابت بھی جاری رہی، سو کتاب میں شامل ہے
صاحبو! کسی ستم ظریف کا کہنا ہے کہ "بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے
جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو"
لیکن قریشی صاحب کی روداد کے ایک ایک لفظ سے ان کی اپنی اہلیہ کے ساتھ جس
نوعیت کی شدید جذباتی وابستگی ظاہر ہوتی ہے، اس کے احترام میں قاری کا دل
بھی گداز ہوجاتا ہے چاہے قاری کی اپنی اہلیہ کتنی ہی خونخوار کیوں نہ ہو!
یہ تو وہی جانتا ہے جس کا عمر بھر کا ساتھ چھوٹ گیا ہو، عموما یہی دیکھا
گیا ہے کہ کسی ایک کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے غم میں گھلتا ہوا
ساتھی بھی دنیا چھوڑ گیا۔ ان دنوں پٹنہ کے کلیم احمد عاجز کی دلچسپ خودنوشت
"جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی " زیر مطالعہ ہے۔ ایک عجب پر اثر واقعہ اس کتاب
میں پڑھا، کلیم صاحب کے پڑوس میں سید کبیر الدین رہتے تھے، چھوٹا ناگپور کے
محکمہ جنگلات میں داروغہ تھے، بہت خاموش آدمی، لوگوں سے ملنا جلنا بہت ہی
کم، جب گھر آتے تو گھر پر ہی رہتے، کبھی زور سے نہ بولتے، ان کی بیوی کلیم
صاحب کی چچی تھیں۔ وہ بھی کم سخنی اور کم آمیزی میں اپنے شوہر کا جواب تھیں۔
میں بیوی میں بہت پیار تھا۔
پھر یوں ہوا کہ کلیم صاحب کی چچی بیمار پڑیں، چچا ملازمت پر تھے، چند ہی
روز میں حالت بگڑ گئی، خبر بھی نہ جاسکی اور وہ چل بسیں۔
تین چار روز بعد کبیر صاحب آئے، کلیم احمد عاجز کو اچھی طرح یاد تھا کہ ان
کے چچا یکنگر کے اسٹیشن سے سائکل پر آئے تھے، گھر کے دروازے تک سائکل تھامے
چلتے آئے، کسی کی بات کا، مزاج پرسی کا کوئی جواب نہیں دیا، ساتھ میں کوئی
سامان نہ تھا، مع سائکل گھر کے اندر داخل ہوئے، کلیم صاحب کی بہنیں، چچا کی
لڑکیاں گھر میں تھیں، ان کے دروازے میں داخل ہوتے ہی ایک بار سب چیخ کر رو
پڑیں، کبیر چچا ایسے مہین ریشمی انسان جن کی آواز بھی کم سنی جاتی تھی،
اتنے زور سے ڈپٹ پڑے کہ سب کو سکتہ ہوگیا۔ سائکل سائبان تلے کھڑی کی، جس
حال میں، جس لباس میں تھے اسی کمرے میں داخل ہوئے جس میں ان کی بیوی رہتی
تھیں، دو بار گھوم کر کمرے کا جائزہ لیا، پھر اس پلنگ کے پاس آئے جس پر چچی
سوتی تھیں، دیر تک سرہانے خاموش کھڑے رہے، پھر بیٹھ گئے اور چند ہی منٹ بعد
پلنگ پر لیٹ رہے ۔۔۔۔۔ تمام دن کسی سے کچھ نہ بولے، قریب آنے والوں کو
آہستگی سے چمکار کر واپس بھیجتے رہے
اگلے روز اسی پلنگ سے ان کا بھی جنازہ اٹھا!
رہے نام اللہ کا!
|
علی گڑھ کی تربیت گاہ اول ۔ محمد عشرت حسین |
02- علی گڑھ کی تربیت گاہ
مصنف: محمد عشرت حسین
صفحات: 159
ناشر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائش ایسوسی ایشن، کراچی
سن شاعت: اکتوبر 1996
|
داستان کمال ۔سید کمال |
03- داستان کمال (فلمی اداکار سید کمال)
خودنوشت
تحریر: سید کمال
سن اشاعت: 1998
مقام اشاعت: کراچی
صفحات: 167
مصنف نے یکم جولائی 2005 کو اپنے دستخط سے یہ نسخہ کسی امان اللہ خاں کی
خدمت میں خلوص کے ساتھ پیش کیا تھا۔۔۔۔
آج مورخہ 4 ستمبر 2011 کے روز مصنف کے خلوص کی قیمت لگی، مبلغ 50 روپے!
|
دلی جو ایک شہر تھا ۔ ملا واحدی |
04- دلی جو ایک شہر تھا-یادگار لوگ، ناقابل فراموش باتیں
مصنف: ملا واحدی
ناشر: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
سن اشاعت: 2003
صفحات: 196
|
سو وہ بھی ہے آدمی |
05- سو وہ بھی ہے آدمی
اخباری کالمز کا مجوعہ
مصائب و آلام میں گھرے عام انسانوں کی داستانیں
سن اشاعت: 2002
ناشر: منشورات، لاہور
|
مجھولی کا آدم خور تیندوا |
6-مجھولی کا آدم خور تیندوا
شکاریات
طابع: ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی
ناشر: مکتبہ اردو ڈائجسٹ، لاہور
سن اشاعت: 1991
صفحات: 318 |