دفتر جانے کے لیے تیار ہونے لگا باہر موسم کے تیور دیکھ
کر مجھے فلیٹ سے باہر جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ چنا نچہ میں نےفلیٹ پر ہی اپنے
ہاتھوں سے چائے تیار کر کے پی اور وقت گزارنے کی خاطر ایک رسالہ اٹھا کر اس
کی ورق گردانی شروع کر دی ۔ ابھی مجھے رسالے کے مطالعے میں کچھ ہی دیر ہوئی
تھی کہ باہر کسی نے مجھے میرا نام لے کر پکارا۔ قبل اس کے میں دروازے تک
پہنچتا آواز دینے والے نے دروازے کو باقاعدہ پیٹنا شروع کر دیا۔ قدرتی طور
پر مجھے اس کی یہ حرکت نا گوار گزری ۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ
کھول دیا ۔ دروازہ کھولنے پر مجھے کوئی نظر نہ آیا میں نے باہر چاروں طرف
دیکھا کہ کون ہے جس کو اتنی جلدی تھی ۔ میں غصے سے واپس پلٹا اور منہ میں
بُر براتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آ گیا ۔ اور بستر میں لیٹ گیا ابھی مجھے
لیٹے مشکل ہی سے ایک منٹ بھی نہ ہوئے تھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اور بھی
میرے ساتھ اس کمرےمیں بلکہ بستر میں موجود ہے میں نے آنکھیں پھاڑے چاروں
طرف دیکھ رہا تھا کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا
جیسے کوئی ہے میرے بائیں جانب ضرور کوئی ہے لیکن کون یہ بات میری سمجھ میں
نہیں آ رہی تھی ۔مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی نسوانی چیز میرے بستر
پر موجود ہے میں نے بہت ہاتھ مارے مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی ۔ البتہ
مجھے اس کا لمس محسوس ہو رہا تھا میں نے جلد ہی اس کے نشیب و فراز سے
اندازہ کر لیا کہ وہ ایک نازک اندام لڑکی ہے مگر یہ کس طرح ممکن ہے ؟ یہ
میرا وہم ہے ۔میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں ۔ میں حیران و ششدر تھا ۔
میں واقعی اپنے بستر پرلیٹا تھا صبح کا وقت تھا اور یہ خواب نہ تھا وہ لڑکی
اب بھی میرے بائیں جانب بستر پر لیٹی ہوئی تھی میرا ذہن بری طرح چکر ا کر
رہ گیا۔ جو کچھ میں نے محسوس کیا تھا وہ یقیناً ایک مضحکہ خیز بات تھی ۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ میرے بستر پر کوئی لڑکی لیٹ سکے ۔ پھر وہ
کیا شے تھی جس نے مجھے پریشان کر رکھا تھا ؟چند لمحے ساکت لیٹادل ہی دل میں
پیچ و تاب کھاتا رہا اور پھر جھلا کر ہاتھ مارنے لگا۔ وہ شے میرے بستر پر
قبضہ جمائے ہوئے تھی ، میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ میں نے اس
کو اپنا وہم سمجھ کر ٹالنا چاہا لیکن یہ کوشش بھی رائیگاں گئی ۔ بھلا میں
اپنے شعور اور احساس کو کیسے جھٹلا سکتا تھا جو مجھے رہ رہ کر یہ باور
کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میرے ساتھ ایک حور ، نازک اندام اور حسین و
جمیل لڑکی محو بستر ہے ۔
میں نے اسی میں ہی بہتری چاہی کہ میں دفتر چلا جاؤں شاید رات جو کچھ میرے
ساتھ ہوا تھا اُسی کا اثر ہے ۔ میں نے دستی گھڑی پر نظر ڈالی تو وہاں نو
بجنے میں دس منٹ باقی تھے ۔ چنانچہ میں جلدی سے اُٹھا منہ پر پانی کے
چھینٹے مارے اور جلدی جلدی لباس تبدیل کیا اور دفتر کی طرف چل دیا ۔ نو
بجنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اس لئے مجھے یقین تھا کہ میں ٹھیک وقت پر
دفتر پہنچ جاؤں گا ۔ سارے راستے اُس حور پری کے بارے میں سوچتا رہا ۔ جب
کوئی بات سمجھ میں نہ آئی تو دل کو سمجھانے کی کوشش کی جو ہو گا دیکھا جائے
گا اور جلدی جلدی قدم بڑھاتا دفتر پہنچ گیا ۔ اپنی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے
میں نے حاضر ی لگائی اور اپنا کام شروع کرنے کی غرض سے جیب سے قلم نکال کر
کھولا ہی تھا کہ رضوان خان جو پاس کے کمرے سے برآمد ہوا تھا مجھے دیکھ کر
چونکتے ہوئے پوچھا ۔ اقبال ۔۔۔۔کب آئے تم ؟۔۔۔۔
بس ابھی آکر بیٹھا ہی ہوں ۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
حاضری تو نہیں لگائی تم نے ۔۔۔۔۔۔لگا چکا ہوں ۔۔۔کیوں ؟
یہ برا ہوا۔ رضوان نے جواب دیا ۔ اگر تم نے رجسٹر پر دستخط نہ کیے ہوتے تو
میں تم کو یہی مشورہ دیتا کہ ابھی دفتر سے چھٹی کی درخواست دے کر واپس چلے
جاؤ۔
کیوں ؟ میں نے تعجب سے پوچھا ۔ آخر بات کیا ہے ۔
بات یہ ہے میرے پیارے اقبال حسین ۔۔۔۔صاحب ایک گھنٹے سے تم کو پوچھ رہے ہیں
۔ آج ان کا موڈ بھی کچھ زیادہ ہی خراب معلوم ہوتا ہے
تو کیا ہوا ۔۔۔میں بے پروائی سے بولا ۔میں تو اپنے وقت پر پہنچا ہوں ۔
وقت پر ۔۔۔۔رضوان خان نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ۔ کہیں سستا نشہ تو نہیں
شروع کر دیا تم نے۔۔۔ اس وقت پورے دس بج رہے ہیں ۔
میں نے چونک کر اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالی تو وہاں بدستور نو بجنے میں دس
منٹ باقی تھے ۔ دستی گھڑی سے نظر ہٹا کر میں آفس کلاک پر نظر ڈالی تو وہاں
ٹھیک دس بج رہے تھے ۔ میں بڑی سنجیدگی سے اس بات پرغور کرنے لگا کہ آخر
مجھے دیر کیوں ہو گئی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں فلیٹ سے نکلا تھا اُس
وقت نو بجنے میں دس منٹ باقی تھے تو پھر مجھے یہ ایک گھنٹے کی دیر کیسے ہو
گئی ؟
میں اپنے آپ کو درست کرتا ہوا صاحب کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔ اندر داخل ہو
کر میں نے صاحب کے چہرے پر نظر ڈالی تو میرا خون جیسے خشک ہو کر رہ گیا اس
کے چہرے پر مجھے وہ تمام خطر ناک علامتیں نظر آ گئیں جو مجھ جیسے کلرک کے
لیے موت کا پیغام ثابت ہوتی ہیں ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا ۔
تم ۔۔۔۔صاحب نے مجھے نظر اُٹھا کر قہر آلود نظروں سے گھورا اور پھر کچھ
توقف کے بعد غصے سے بولے۔۔۔تم کس وقت دفتر میں آئے ہو ؟
سس۔۔۔سر۔۔۔میں نے ہکلا کر جواب دیا آج وقت پر آفس نہ آسکا جس کے لیے معافی
چاہتا ہوں ۔
معافی ۔۔۔۔کس چیز کی معافی ۔۔۔تم نے روز کا لیٹ آنا معمول بنا لیا ہے
۔۔۔۔صاحب نے مجھے غصیلی نظروں سے گھورا اور پھر ایک دم ہی اپنا آخری فیصلہ
سنا دیا ۔ اقبال حسین تم نوکری سے فارغ ہو اگلے ماہ آ کر اپنی تنخواہ لے
جانا ۔ میرا ذہن پہلے ہی الجھا ہوا تھا ۔ صاحب نے ملازمت سے برخاست کرنے کا
حکم سنایا تو میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے ۔ کلرکی کے لیے مجھے اس
نئے شہر میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے ۔چنانچہ میں نے رحم طلب نظروں سے اسے
دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔۔۔سر ۔۔۔آج معاف کر دیں ۔ آئندہ کبھی دیر نہیں ہو گی ۔
صاحب نے ہونٹ سیکڑ کر نفرت بھرے لہجے میں مجھے دھتکارا ۔۔۔۔تم جا سکتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ میں مزید کوئی اور درخواست کروں ۔ جس لب و
لہجے میں اس نے میری معذرت کا جواب دیا وہ انتہائی تحقیر آمیز تھا ۔ میں
تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آیا اور لمبے لمبے قدم اُٹھاتا دفتر سے باہر
نکلا اور کھلی سڑک پر چلنے لگا ۔ فلیٹ پر پہنچ کر بستر پر آ کر بیٹھ گیا ۔
اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔ سوچ رہا تھا کیا کروں ۔۔۔۔۔نوکری
گئی اب یہ فلیٹ بھی چھوڑنا پڑے گا ۔۔۔۔ملازمت جانے کے صدمے اور حالات کی
ستم ظریقی نے مجھے اس درجے مفلوج کر دیا تھا کہ کسی بات کا فیصلہ کرنے سے
قاصر تھا ۔ اچانک میرے عقب سے ایک پراسرار آواز سنائی دی کیا ارادے ہیں
اقبال صاحب ۔۔۔۔کیا سوچ رہے ہو ۔ میں حیرت سے بستر پر سے اچھلا اور پیچھے
مڑ کر دیکھا کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا مگر آواز آ رہی تھی ۔
کیا ارادے ہیں اقبال صاحب کیا سوچ رہے ہو؟ ۔۔۔۔۔اس کی بے تکلف سرگوشی ابھری
۔۔۔۔۔۔
جہنم میں جانے کا سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔میں نے یوں جواب دیا جیسے سچ مچ میں کسی
ذی روح سے مخاطب ہوں ۔ صبح سے اب تک جو کچھ مجھ پر گزری اس کی تمام ذمہ
داری اسی شے پر عائد ہوتی تھی ۔ جس نے مجھ سے بات شروع کی تھی ۔ اور میں
چاہنے کے باوجود اس کو نہیں جان سکا تھا ۔ادھر ملازمت جانے کے خیال سے میرا
ذہن چکرا سا گیا تھا ۔
کمرے میں ایک دفعہ پھر اُس کی سرگوشی ابھری ۔۔۔۔سنو تم اس فلیٹ اور اس شہر
کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاؤ گے اس بار اس کا لہجہ قدرے خشک اور تحکمانہ
تھا ۔۔۔۔۔
آگے کیا ہوا ۔۔۔۔جانیے گا قسط نمبر 4 میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|