آج صبح سے فضا میں خنکی محسوس ہورہی ہے موسم بدل رہا ہے
۔کرن نے سوکھے پتوں پر چلتے ہوئے کہا۔
کیا بات ہے ،کچھ پریشان ہو ؟ صائمہ نے پوچھا۔
طالبات کی حاضری متاثر تھی تو پروفیسر نے جماعت میں موجود طالبات کو "امام
احمد بن حنبل کی استقامت" پر مضمون لکھنے کا کام دیا ہے،کرن نے کہا ۔
ہوں، ویسے یہ ایک تاریخی موضوع ہے،امام احمد بن حنبل کا۔ صائمہ نے سبز گھاس
پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔
لیکن مجھے تو کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے،صرف نام ہی سنا ہوا ہے۔کرن
بولی ۔
کرن ،امام احمد بن حنبل بلند پایہ عالم اور محدث تھے، اگر آج ہم مسلمان ہیں
تو اس کے پیچھے علماء کرام کی مشقت ہے جنھوں نے قرآن و سنت کے احکامات کو
ہم تک پہنچایا اور سب فتنوں کا مقابلہ کیا۔صائمہ نے معلومات فراہم کرتے
ہوئے کہا ۔
فتنوں کا مقابلہ ؟ کون سے فتنوں کا ؟ کرن کچھ الجھن کی کیفیت میں لگ رہی
تھی۔
دیکھو بھئ، ہر دور میں کوئی نہ کوئی فتنہ عالم_انسانیت کو گمراہ کرنے کے
لئے اٹھتا رہا ہے۔ امام احمد بن حنبل کے زمانے کے حکمران مامون الرشید نے
حکم جاری کیا کہ آج سے سب عوام، قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں کہیں
گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کہیں گے ۔۔۔۔۔
کک، کیا ؟کرن نے صائمہ کی بات کاٹ دی۔قرآن پاک تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے
،اسے مخلوق کہنا تو شرک کرنے کے مترادف ہے۔
جب حکمران گمراہ ہو جائیں تو پوری قوم کو گمراہ کردیتے ہیں ،اس لئے ایسے
شخص کو مسلمانوں کا حکمران ہونا چاہئے جو اسلام کے عقائد کا مکمل علم رکھتا
ہو اور پریکٹسنگ مسلم ہو،صائمہ نے بڑے رسان سے حقیقت بیان کی۔
لیکن امام صاحب نے اس فتنے کا مقابلہ کیسے کیا ؟ کرن نے سوال پوچھا۔
حکمران کا حکم تھا کہ جو میرے فرمان کو نہ مانے ،اس کی گردن اڑا دی جائے
۔بہت سے علماۓ کرام شہید کردئیے گئے ۔جب گردنیں اتاری جارہی تھیں ،امام
صاحب نے شان_استغناء سے فرمایا کہ جاؤ، جاکر حاکم سے کہہ دو کہ احمد کہتا
ہے ،قرآن اللہ کا کلام ہے ، مخلوق نہیں ہے !
اوہو ،کرن کے منہ سے نکلا ، پھر کیا ہوا ؟
اقتدار کبھی سدا نہیں رہتا ۔حکمران فوت ہوگیا ،اس کا بھائی معتصم کرسی پہ
بیٹھا ،اس نے حکم دیا کہ امام احمد بن حنبل کو ساٹھ کوڑے لگائے جائیں
۔صائمہ نے سوچ میں ڈوبی ہوئی کیفیت میں کہا۔
جس دن کوڑے مارے جانے تھے ، امام صاحب کو زنجیروں سے باندھ کے لایا گیا
،ایک شخص آواز لگاتا بھیڑ سے نکل کے آیا اور امام صاحب سے کہنے لگا
احمد ،مجھے جانتے ہو، میں بغداد کا مشہور چور ابو الہیثم ہوں، میں نے آج تک
ان کے بارہ سو کوڑے کھائے ہیں لیکن یہ مجھ سے چوری نہیں چھڑواسکے ، آپ کہیں
کوڑوں کے ڈر سے حق چھوڑ مت بیٹھناورنہ امت برباد ہوجاۓ گی !
اس کے بعد امام احمد بن حنبل کو ایسے شدید کوڑے مارے گئے کہ اگر ہاتھی کو
مارے جاتے تو وہ بھی مر جاتا ،امام صاحب غش کھا کے گر پڑتے،پھر کوڑے
کھاتے۔ایک وزیر نےامام صاحب سے کہا آپ میرے کان میں کہہ دیں کہ قرآن اللہ
کی مخلوق ہے ،میں بادشاہ سے آپ کی سفارش کروں گا۔امام صاحب نے کہا ،تم کہہ
دو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ،میں روز_قیامت ،اللہ کے حضور تمہاری سفارش
کروں گا۔ قید خانے میں سختیاں جھیلتے تیسرا برس تھا ،آخر تنگ آکر حکومت نے
خود ہی امام صاحب کو رہا کردیا !
اگرچہ بت ہیں ،جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ،لا الہ الااللہ!
|