ماسٹر غلام قادر بٹ : ایک عظیم داعی اور ماہر تعلیم

ماسٹر غلام قادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ

اس دنیا میں جوبھی آیاہے اسے ایک روز اس دنیا کو خیر آباد کہنا ہی پڑتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر نفس کو موت کامزہ چکھنا ہے اور اس جہانِ فانی کو چھوڑ کرجہانِ لافانی کی طرف کوچ کرنا ہے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم ؑ سے چلا آرہا ہے اور آخری انسان کی پیدائش تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آج تک نہ جانے کتنے ہی لوگ اس دنیا میں آئے اور پھر رخصت ہوئے، کتنے ہی لوگ تاریخ کے گم شدہ اوراق میں کھو گئے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی محض عمر گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں عظیم کارناموں کے لئے چن لیتا ہے ان کی زندگی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ان کے معاملات،کردار،گفتار، اخلاق، غرض زندگی کا ہر پہلو قابل تقلید ہوتاہے۔ان کا شیوہ خدا پرستی، ان کا مزاج انسان دوستی اوران کی فکر آخرت پسندی پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ مقصدِ حیات کی آبیاری میں صَرف ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ شخصیات کہلاتے ہیں۔
انہی اوصاف حمیدہ سے متصف ایک شخصیت جن کا نام ماسٹرغلام قادر بٹ تھا جو سرینگر کے مرکزی علاقہ بتہ مالوکے رہنے والے تھے۔ آپ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر کے مشہور و معروف اسکول (Biscoe School) سے حاصل کی اور وہاں اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی میں تعلیم کا رجحان بہت کم تھا اور حکومت وقت کی طرف سے جبراً بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مہم چلائی گئی۔ اُس دور میں مسلمانوں کے بہ نسبت ہندؤں (پنڈت حضرات) میں تعلیمی رحجان زیادہ پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے بڑے بڑے عہدوں اور اونچے منصبوں پر یہی پنڈت حضرات نظر آتے تھے۔ ماسٹر جی نے بھی اسی ماحول میں نشو نما پائی جہاں لوگ تعلیم کے ساتھ کم اور کسب معاش و تجارت کے ساتھ زیادہ دلچسپی رکھتے تھے لیکن ماسٹر جی کی لگن، عزم و استقلال او ر محنت شاقہ نے انہیں پوری بستی میں بالعموم اور بسکو اسکول میں بالخصوص سب کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔ آپ کو انگریزی زبان پر کمال درجے کا عبور حاصل تھا اور یہ زبان آپ کے گفتار میں اس قدر رچ بس گئی تھی کہ کشمیری میں گفتگوں کرتے ہوئے بھی آپ بیشتر الفاظ انگریزی کے ادا کرتے تھے۔ آپ کی انگریزی زبان پر ناقابل بیان دسترس سننے والے کو دھنگ کر دیتی تھی۔ آپ کے علم، حلم، ادب اور ذہانت کی چھاپ اس قدر بسکو اسکول پر پڑی کہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی انہوں نے آپ کابحیثیت استاد اپنے یہاں تقرر کیا اور پھر آخری سانس تک آپ نے اس فرض منصبی کو حسن و خوبی سے سر انجام دیا۔ آپ اپنی پاکبازی، بے باکی، حق گوئی، محنت، ڈسپلن اور نظم و ضبط کے لئے پورے اسکول میں مشہور تھے۔ آپ کے زیر سایہ ہزاروں ایسے طلباء و طالبات نے کسب فیض حاصل کیا جو آج معاشرے میں قابل رشک منصبوں پر فائز ہیں۔ آپ کی اسی لگن، محنت اور قابلیت کے بنا پر آپ کومقام ِاستاد سے ترقی دے کر بسکو اسکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔ اسکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مساٹر جی نے تعلیم کا سفر جاری رکھا اور اپنے شہید بیٹے (شمس القادر) کے نام سے ایک ہائی اسکول قائم کیا جہاں وہ غریب طلباء اور طالبات کو معیاری تعلیم سے آراستہ کراتے تھے راقم کو بھی ماسٹر جی کے زیر سایہ اس اسکول میں بحیثیت استاد پڑھانے کا موقع نصیب ہوا۔ ماسٹر جی کی شیرین زبان، نرم لہجہ، نرالہ انداز اور حکمت و دانائی سے لبریزکلام انسان کو موہ لیتی تھی۔آپ ایک نبض شناس معلم تھے جو بچوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے، آپ کے آفس میں چھوٹے بچوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جن کی دل افزائی کے لئے آپ مختلف کہانیاں، چھوٹی نظمیں اور چٹکلے سنایا کرتے تھے۔ آپ کی جیب میں ہمیشہ مٹھائیاں رہتی جنہیں آپ چھوٹے بچوں میں تقسیم کرتے۔ آپ کا مطالعہ بے حد وسیع تھا اور آپ کا معمول یہ تھا کہ جو کچھ آپ پڑھتے اسے ایک ڈائری میں نوٹ کرتے جاتے۔ اس ڈائری میں آپ جنرل نالیج، کرنٹ افیرس، سائنسی معلومات و دیگرعلوم درج کرتے اور پھراسی ڈائری کو آپ ہر روز صبح کی اسمبلی میں بچوں کے سامنے سہل اور سلیس انداز میں پیش کرکے پھر اسی کے مطابق بچوں سے سوال کرتے۔ آدھے گھنٹے کی یہ اسمبلی بچوں کے علم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے علم میں بھی غیر معمولی اضافہ کرتی تھی۔بسکواسکول میں سروس کے دوران آپ رضاکارانہ طور پر مختلف اسکولوں میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ راقم کو چونکہ موصوف کے ساتھ کافی قربت تھی اور کئی سیاحتی مقامات پر ان کے ساتھ جانے کا موقع بھی ملا۔ دوران سفر آپ اکثر راستہ پر گاڑی کو روکتے اور وہاں موجود اسکولوں کا دورہ کرتے اور طلباء و اساتذہ سے تعلیم کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات کا تبادلہ کرتے۔ آپ ہمیشہ بچوں کوحصول تعلیم کے لئے ابھارتے تھے اور ہمیشہ اپنے سے چھوٹے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔

ماسٹر جی ماہر تعلیمات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مقرر، مبلغ اور داعی اسلام بھی تھے۔ عالم شباب میں ہی آپ تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے اور آخری سانس تک اس کے نصب العین (اقامت دین)کی آبیاری کے لئے سعی و جہد کرتے رہیں۔اس تحریک کو شعوراً قبول کرتے ہی آپ اس عظیم کارواں میں شامل ہوئے جو عوام میں اسلام بیداری، دینی شعور، قرآن فہمی اور خدمت خلق جیسے بنیادی کاموں میں مصروف عمل تھے۔اس کام کی سر انجامی کے لئے دینی اجتماعات منعقد کئے جاتے، بچوں کے لئے درسگاہیں قائم کی جاتی، تعلیم بالغاں کے لئے مختلف کلاسس منعقد کی جاتی اورخدمت خلق کے لئے عوامی سطح پر بیت المال کا نظام قائم کیا جاتا، ماسٹر جی ان تمام امورات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی تمام تر صلاحتیں اس کام میں صرف کی۔

نویں کی دہائی میں جہاں پوری وادی مکمل طور پر خون سے رنگ دی گئی وہیں تحریک اسلامی کے افرادوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کی گئی، کئی افراد شہید کئے گئے، گھروں کا لوٹا گیا، باغوں اور زراعت کو نظر ِ آتش کیا گیا اور ان کا کافیہ اس قدر تنگ کیا گیا کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ماسٹر جی کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا، انہیں بھی اس دور میں شدید آزمائیشوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا لیکن صبر و تحمل کے اس پیکر نے ہمیشہ استقلال اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ آپ کا نوجوان بیٹا شمس القادر جو کہ ابھی جوانی کی دہلیز بھی نہ چڑا تھا تحریک اسلامی کی راہ میں شہید ہوگیا۔ عزیمت کی اس راہ میں آپ مارا گیا، پیٹا گیا، آپ پر لاٹھیاں برسائی گئی اورکئی بار آپ کو رونق زنداں بھی بننا پڑااور ایسے حالات کا بھی آپ کا سامنا ہوا جہاں موت آپ کو چھو کر نکل گئی۔

آپ ایک موّحد، متقی اور متوکل مسلمان تھے جس نے غلبہ اسلام کے لئے اپنی جان، مال، وقت، صلاحتیں یہاں تک کہ اپنے پیارے اولاد تک کو قربان کر دیا۔ آپ اُس توحید کے قائل تھے جس میں صرف مُردوں سے مانگنا ہی شرک نہیں بلکہ زندہ طاغوت کے سامنے جھکنا بھی شرک عظیم سمجھا جاتا ہے۔ آپ دین اسلام کا وسیع ترین نظریہ رکھتے تھے، آپ کی ذات مسلکی منافرت، فرقہ واریت اور گروہ بندی سے بالکل پاک تھی۔ آپ نے شعوری طور پر اُس نظریہ کو قبول کیا تھا جس کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ ہی کانظام ہے۔ اسی نظریہ کی آبیاری کرتے کرتے ماسٹر جی ۸ جنوری 2023 اس جہاں فانی سے رحلت کر گئے۔۔اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔


 

Shaikh Sarfaraz
About the Author: Shaikh Sarfaraz Shaikh Sarfaraz is young poet, writer, orator and a teacher by profesion . He is in the field of teaching since 15 years. He has written numerous urd.. View More