تم ہمیشہ دیر سے ہی آنا، ہر جگہ لیٹ پہنچنے والوں سے متعلق ایسا انکشاف کہ ہر کوئی انہیں مظلوم سمجھنے لگا

image
 
اردو ادب کے مایہ ناز شاعر منیر نیازی کی ایک نظم کافی مشہور ہے جس میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ۔۔۔۔۔ منیر نیازی نے یہ نظم اگرچہ اپنے بارے میں لکھی تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسے افراد ہمارے اردگرد موجود ہیں جو کہ ہر کام کرنے میں دیر کر دیتے ہیں-
 
کسی جگہ پہنچنا ہو، کسی سے ملنا ہو کسی انٹرویو کے لیے یا امتحان کے لیے جانا ہو یا کسی ٹرین کو پکڑنا ہو یہ لوگ ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔ معاشرہ ایسے افراد کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ ایسے افراد کو بد تمیز اور غیر اخلاقی بھی قرار دیتا ہے-
 
ہمیشہ دیر کرنا عادت نہیں بلکہ بیماری
اس حوالے سے انسانی رویوں کی ماہر صومیہ زمان کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ ہر کام دیر سے کرتے ہیں وہ درحقیقت ایسے نہیں ہوتے کہ انہیں دوسروں کی پرواہ نہیں ہوتی ہے یا وہ ایسا جان بوجھ کر کرتے ہیں-
 
image
 
بلکہ ایسے افراد کو سائنسی زبان میں ٹائم بائنڈر کہا جاتا ہے ایسے افراد کو کسی کام کو کرنے کے لیے خود کو تیار کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے- یہ لوگ کسی ایک کام کو چھوڑ کر دوسرے کام کو فوری طور پر اختیار نہیں کرسکتے ہیں اور انہیں اس کے لیے خود کو تیار کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور اس کے لیے انہیں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی مشقت کرنی پڑتی ہے- یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کسی بھی کام کو کرنے میں تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں-
 
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ افراد میں یہ مسئلہ ان کے جین کا حصہ ہوتا ہے اور یہ صرف ایک نسل تک محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ آنے والی نسل میں بھی منتقل ہوتا ہے-
 
مگر بعض اوقات حالات اس سے الٹ بھی ہو سکتے ہیں یعنی اگر والدین ہر کام دیر سے کرنے کے عادی ہوں تو ان کے بچے وقت کے بہت پابند اور ڈسپلن بھی ہو سکتے ہیں- جس کا سبب ان کے لاشعور میں بیٹھا بے عزتی کا وہ خوف بھی ہوتا ہے جس کا سامنا ان کو اپنے والدین کی وجہ سے بار بار کرنا پڑتا ہے-
 
image
 
ہمیشہ دیر کرنے والوں کا علاج
اس حوالے سے انسانی رویوں کی ماہر صومیہ کا یہ کہنا تھا کہ دیر سے آنے والے ان افراد کی اس عادت کو ختم کرنے میں اس کے قریبی لوگ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور صرف تنقید کرنے کے بجائے ان سے اس حوالے سے بات کرنا ضروری ہے- ان سے ان کے مسائل کے حوالے سے بات چیت کر کے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کو وقت پر کام کرنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے اور ان کو اس بیماری سے نکالا جا سکتا ہے- کیونکہ اگر وقت پر اس عادت کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ آنے والے وقت میں اے ڈی ایچ ڈی جیسے خطرناک نفسیاتی عارضے کا سبب بھی بن سکتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: