ملک کی سب سے زیادہ قوم پرست اور سارے ہندوؤں کی نمائندہ
تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آرایس ایس)کے
سربراہ موہن بھاگوت وقفہ وقفہ سے بہکے بہکے انداز میں اپنے بیانات دیتے
رہتے ہیں اور اُن کے ذریعے کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا کر دیتے ہیں۔ گزشتہ
ہفتہ تنظیم کے ہی ایک اخبار میں انٹرویو میں ہندوستانی مسلمانوں کو نصحیت
دیتے ہوئے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی بھی دے دی ہے ،انہوں نے ایک تانا شاہ
کی طرح مسلمانوں کےکے تعلق سے سخت لہجہ میں کہا ہے کہ ”ہندوستانی مسلمانوں
کو یہاں رہنے کی مکمل اجازت ہے، لیکن انہیں اپنے "افضل" ہونے کے احساس کو
ختم کرنا ہو گا ۔
ویسے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گاکہ گزشتہ سات -آٹھ سال میں ملک کا
منظرنامہ بدلنے کے لیے زمین آسمان ایک کردیئے گئے ہیں۔اب سنگھ اور اُس کی
ہمنوا تنظیموں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان ایک
جمہوری ملک ہے۔ ہمارے آئین نے ہر شہری کو آزادی سے رہنے کے حقوق دیئے ہیں۔
اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور ہر کسی کو اپنی بات
کہنے کا حق حاصل ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے میں بھلا موہن بھاگوت نے صرف مسلمانوں کو کیوں
تاکید کی ہے،آیا،اس طرح کا بیان دے کر وہ ملک کی فضا کو مکدر کرنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔اکثریتی فرقے کوان چند برسوں میں یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے
کہ وہ خطرے میں ہے ،اس کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے زمین تنگ
کی جارہی ہے۔حالانکہ بڑے ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی
سچائی نظر نہیں آئے گی ۔
موہن بھاگوت اس بیان میں مسلمانوں کو کھری کھوٹی سنانے کے بعد ایکدم یہ
کہنے لگ جاتے ہیں کہ ملک میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن انہیں ہم
افضل ہیں، کا احساس چھوڑ نا ہوگا،جبکہ یہاں مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں
ہے۔واضح رہے کہ بھاگوت نے یہ باتیں آرایس ایس کے ترجمان پنجنیہ اور
آرگنائزر کو انٹرویومیں کہی گئی ہیں،مسلمانوں کو خود کو 'افضل'نہ سمجھنے یا
ظاہر کرنے کی نصیحت کے بعد وہ خود ہی بہک جاتے ہیں اور پھر خود ہی ہندوازم
کی برتری پیش کرنے لگ جاتے ہیں،اور اس ضمن میں کہنے لگتے ہیں کہ" ہندوتوا
ہماری پہچان، قومیت ہے اور سب کو اپنا سمجھنے اور ساتھ لے کر چلنے کا رجحان
ہے۔ اسی لیے یہاں تمام مذاہب پروان چڑھے ہیں۔ "
بھاگوت صرف ہندوؤں کے گن گاتے رہے کہ " ہندو برادری ہی وہ واحدقوم ہے جو
جارحانہ نہیں ہے۔ لہذا عدم جارحیت، عدم تشدد، جمہوریت، سیکولر ازم، ان سب
کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ اب کسی کے پاس ہماری سیاسی آزادی میں خلل ڈالنے کی
طاقت نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندور ہے گا ، ہندوکہیں جائے گا نہیں، یہ اب ثابت
ہو گیا ہے۔ ہندواب بیدار ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے
اندر کی جنگ جیتنی ہے اور ہمارے پاس جو ملک ہے اسے پیش کرنا ہے۔ترقی کی
راہیں ہموار کرنے کی ضرورت ہے ۔
موہن بھاگوت نے ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے کافی باتیں کہیں ہیں ،وہ
زیادہ تر تنقیدی تھیں ۔ ان کا ایک بیان یہ تھا کہ" ہندوستانی مسلمانوں کو
یہاں رہنے کی پوری اجازت ہے لیکن انہیں اپنے افضل ہونے کے احساس کو ختم
کرنا ہوگا۔ "اس بیان سے نفرت اور انتشار پیدا کرنے کی بو آرہی ہے۔حالانکہ
اس بیان پر سوشل میڈیا پرہلچل نظر آتی ہے ،وہیں بھاگوت کو نشانہ بنایا
جارہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے بھی انہیں نصیحت کی جارہی ہے۔
اس تعلق سے ایم آئی ایم سر براہ اسد الدین اویسی نے شدید رد عمل ظاہر کیا
ہے۔اُن کے اس بیان سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو
رہنے کے لئے موہن بھاگوت سے اجازت یا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان
پر یہ بات واضح رہے کہ یہ ملک اتنا ہی مسلمانوں کا ہے جتنا دیگر کسی بی جے
پی والے یا آرایس ایس سربراہ کا ہے۔ ملک کے دستور نے انہیں اسکا حق دیا
ہے،یہ سچائی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مسلمان یہاں برتری کا مطالبہ نہیں کر رہا
ہے بلکہ وہ صرف برابری کا حق چاہتا ہے اور مساوی حق مانگنا آئینی طور پر
بالکل درست ہے، لیکن بھاگوت نے جس طرح کاانداز اپنایا ہے کہ اس سے محسوس ہو
رہا ہے کہ وہ مسلمانوں سمیت تمام پسماندہ برادریوں کواپنادست نگر بنا کر
رکھنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھاگوت کو کسی بھی ذات یا برادری کوکوئی مشورہ
دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کی تنظیم جس طرح کی سیاست کو فروغ دے رہی ہے
اس سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ اسی لئے وقت کی سخت ترین ضرورت یہ ہے کہ پہلے
انسانیت کو برقرار رکھا جائے۔
بھاگوت کا بیان دراصل ڈھکے چھپے الفاظ میں ایک مخصوص فرقہ کو دھمکیاں ہی
دینا ہے کہ ”ہندوستان میں ہندو اپنے مذہب اور تہذیب کو محفوظ رکھنے کے لئے
جنگ کی حالت میں ہیں۔ اس لئے ان کا ہتھیار اٹھانا بالکل فطری ہے۔ اس پر
بلاوجہ کی سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔ اس طرح بھاگوت نے مسلمانوں کو نصحیت یا
مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے ہتھیار اٹھانے کو بھی جواز فراہم کرنے
کی کوشش کی ہے۔ ان کی مذکورہ باتیں ایک طرح سے ملک کے آئین کو چیلنج کرتا
ہے۔
وہ یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان ہند و تو ا کو ماننے والوں کا
ملک ہے جوکہ حقیقت نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں راشٹریہ کسان مورچہ کے لیڈر راکیش ملکیت کا سنسنی خیز بیان
اور سنگین الزام دعوت فکر دیتاہے کہ آر ایس ایس کے تربیتی مراکز میں فرضی
مسلمان، ہندو اور سکھ پیدا کئے جا رہے ہیں جنہیں مختلف مذاہب کی کمیٹیوں
میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اس منصو بے کے ذریعے عوام کے نظریات
بدلنے کا کام کرتی ہے۔ یہ فرضی افراد عوامی رائے عامہ پر بھی اثر انداز
ہوتے ہیں۔ حکومت کی مدح میں بیانات دیتے ہیں اور مطلق العنانیت کو راہ دیتے
ہیں،انہیں آئندہ نصف صدی سے ایک صدی میں ملک کی تاریخ کو پوری طرح سے تبدیل
کرنا ہے اور وہ یہ کام مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کی مدد سے کر رہی
ہے۔کیونکہ آرایس ایس آئین اور قانون کو نہیں مانتی ہے، انہیں ہر حال میں
اقتدار مطلوب ہے۔
دراصل سوال یہ ہے کہ بھاگوت اس طرح کا بیان دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے
ہیں۔اگر انٹرویو کاجائزہ لیاجائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض سوال وجواب کے
درمیان نکلی بات کانتیجہ نہیں لگتا ہے بلکہ صاف نظر آرہا ہے کہ امسال ملک
کی 10سے 11ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ آئندہ سال 2024 کے عام
انتخابات کو ذہن میں رکھ کر بیان دیا گیا ہے،ایک منصوبہ کے تحت یہ سب
کہلوایا گیا ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ بھاگوت کایہ ایک اور متنازع
بیان سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہی ہے۔ |