آزاد کشمیر میں جشن بہاراں کا انقلابی فیصلہ
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہرمسعود وانی
وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے آزاد کشمیر میں جشن بہاراں منانے کافیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں 24رکنی اعلی سطحی بورڈ قائم کیا ہے۔جشن بہاراں بورڈ کے چیئرمین وزیر اعظم خود ہیں جبکہ ممبران میں وزیر خزانہ عبدالماجد خان، چند دیگر وزرائ، وزیر اعظم کے چند معاون خصوصی وغیرہ ،کئی محکموں کے سیکرٹری و دیگر افراد شامل ہیں۔وزیر اعظم تنویر الیاس نے جشن بہاراں کو بھر پور طور پر منانے کے حوالے سے ایک سرکاری اجلاس بھی منعقد کیا ہے ۔جشن فارسی کا لفظ ہے۔جشن کا مطلب ہے کہ کسی حوالے سے، کسی موقع کو بہت دھوم دھام ، جوش و خروش اور خوشی سے منانا ، جسے سب لوگ مل کر منائیں۔ خوشی کی محفل، مجلس، عیش ، مسرت و شاد مانی، خوشی سے کسی موقع کو منانا۔سخت سردی کے چند ماہ کے بعد مارچ کے مہینے سے بہار کا موسم شروع ہوتا ہے ، موسم کی خنکی ختم ہوتی جاتی ہے، خوشگوار اور پر لطف ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور پودوں پہ نئی کونپلیں اور پھول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
روم کی قدیم ریاست میں ایک مرتبہ شدید قحط پڑ گیا۔ حکمران نے دوسرے ملکوں سے خوراک منگوائی لیکن بحری راستوں سے اسے پہنچنے میں کئی ماہ کا وقت درکار تھا۔ اس صورتحال میں عوامی بغاوت کا خطرہ تھا۔ اہل روم کھیل تماشوں کے بہت شوقین تھے۔حکمران نے درباریوں کے مشورے پر چھ ماہ کے لئے سٹیڈیم میں مختلف کھیلوں کے مقابلے شروع کر دیئے جس میں جانوروں اور انسانوں کی لڑائیوں کے مقابلے بھی شامل تھے۔اہل روم ایسے خونی مقابلوں کے کھیل بہت دلچسپی سے دیکھتے تھے۔قحط زد ہ لوگ روزانہ ایسے تماشے دیکھنے سٹیڈیم میں آتے اور وہاں بادشاہ کی طرف سے روٹیاں بھی تقسیم کی جاتیں۔ اسی طرح کئی ماہ گزر گئے ، خوراک سے لدے بحری جہاز بھی پہنچ گئے اور یوں قحط کی وجہ سے عوامی بغاوت کا خطرہ بھی ٹل گیا۔
جشن منانا کوئی بری بات نہیں ہے تاہم جشن، چاہے وہ کسی بھی حوالے سے ہو، اچھے، خوشگوار ماحول سے ہی مشروط ہوتا ہے۔تاہم اگر کسی قحط زدہ افریقی ملک میں کوئی حکمران جشن منانے کا اعلان کر دے ، امریکہ میں نائب الیون کی طرح کے انسانی ہلاکتوں کے واقعہ کے بعد امریکی صدر کی طرف سے جشن کا اعلان کیا جائے، فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فوجی جارحیت سے روزانہ ہلاکتوں کی صورتحال میں فلسطینی انتظامیہ جشن کا اعلان کر دے یا دیوالیہ ہونے والے کسی ملک کا حکمران جشن منانے کا فیصلہ کرے توایسا عمل ناپسندیدہ ہی کہلائے گا۔ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بالخصوص گزشتہ 34سال سے کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی فوج کی قتل و غارت گری کی کاروائیوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کئے گئے ہیں، عصمت دری،گرفتاریوں، تشدد کے لاتعداد واقعات ۔گزشتہ تقریبا ساڑھے تین سال پہلے5اگست2019کو ہندوستان نے جس طرح مزید چند لاکھ فورسز کو کشمیریوں کے سروں پہ مسلط کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم اور ہندوستان میں مدغم کرنے کا اقدام کیا، اس سے المناک مصائب،ظلم و جبر کے شکار کشمیری گہرے صدمے سے دوچار ہوئے۔
آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر تمام ریاست جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی نمائندگی کے طور پر وجود میں آئی۔ معاہدہ کراچی اور ایکٹ1974کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کو ایک مقامی اتھارٹی کی صورت تبدیل کیا گیا لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر کا پرچم، اسمبلی، صدر ، وزیر اعظم کے عہدے، اپنی عدلیہ اور انتظامیہ کی صورت آزاد کشمیر کا وجود ایک ریاست کی طرح قائم ہے۔مختصر یہ کہ آزاد کشمیر حکومت کشمیر کاز کے حوالے سے حاصل سٹیٹس تو خوب انجوائے کر رہی ہے لیکن کشمیر کاز سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طورپر فراموش کر تے ہوئے لاتعلقی کے ماحول میں اپنی الگ ہی دنیا سجانے کی طرف راغب ہے۔دوسری طرف مملکت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین حالات سے دوچار ہے۔حاکمیت کی کشمکش،دہشت گردی، اقتصادی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام نے ملک ہی نہیں بلکہ عوام کا بھی کچومر نکال دیا ہے ۔ اس صورتحال کے آزاد کشمیر کے عوام پر بھی مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمارے حالیہ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس اس بات پہ فخر رکھتے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں آ کربڑے بڑے آزمودہ کار سیاستدانوں کو اپنی سیاست سے بے بس کر دیا۔وزیر اعظم تنویر الیاس نے وہ مقولہ سچ ثابت کر دیا کہ '' وہ آیا، اس نے دیکھا اور اس نے فتح کر لیا''۔سردار تنویر الیاس سیاست میں آئے اور آتے ساتھ ہی اپنی پارٹی تحریک انصاف آزاد کشمیر میں سب سے اہم ہونے کی حیثیت اختیار کر لی،الیکشن میں تمام آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے راستے ہموار کئے،آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی تحریک انصاف کی صدارت حاصل کی،اپنی پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے چند ہی ماہ بعد اپنی پارٹی کے وزیر اعظم کو کرپشن کے الزامات کے ساتھ نکال باہر کیا اور اپنی ناقابل چیلنج صلاحیت کے بل بوتے آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کا تاج اپنے سر پہ سجا لیا۔اسے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی سادگی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ اظہار خیال کرتے ہیں تو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا ان کے پاس کسی معرفت والے پیر کی طرح ایک ایسی طاقت ہے کہ جس سے من کی ہر مراد پوری کی جاسکتی ہے۔
اگر آزاد کشمیر کے اس جشن بہاراں کو رائج الوقت سیاسی حوالے سے دیکھیں توبھی جشن منانے کے حالات نہیں ہیں۔تحریک انصاف اپنے سربراہ عمران خان کے جوش و جذبے کے باوجود رنج وا لم اور صدمے کے دور سے گزر رہی ہے۔وفاقی حکومت سے نکالے جانے کا عظیم نقصان کیا کم تھا کہ وفاقی حکومت میں آنے کے لئے، الیکشن کرانے کی کوشش میں پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اپنی ہی صوبائی حکومتوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے توڑنا پڑا۔اس سے بھی نئے الیکشن کی امید بر نہیں آئی تو عمران خان صاحب نے فروری میں دوبارہ سڑکوں پرآنے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ عمران خان صاحب کی توجہ ابھی اس جانب مبذول نہیں ہوئی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی ہی حکومتیں قائم ہیں اور ان خطوں کی اسمبلیوں کو بھی توڑ کر تحریک آزادی کشمیر کے نقصان کے حوالے سے وفاقی حکومت پر ایک الگ قسم کا دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔
اگر آزاد کشمیر کے اس جشن بہاراں کو شایان شان طور پر منانے کے لئے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ڈھول اور جھومر ڈانس اور صوبہ کے پی کے سے خٹک ڈانس پارٹیوں کے علاوہ ' ڈی جے' کا بھی اہتمام ہو جائے تو جشن بہاراں کو چار چاند لگ جائیں گے۔ہمیں یقین ہیں کہ آزاد کشمیر کے جشن بہاراں شاندار طور پر منانے کے انتظامات ایسے وسیع پیمانے پر ہوں گے اور ایسے لوازمارت کا اہتمام ہو گا کہ عوام و خواص، سرکاری ملازمین، سول سوسائٹی، سیاست دان اور صحافی سمیت سب خوش ہو جائیں گے اور حکومت کے اس اقدام کو تاریخ ساز فیصلہ قرارد ینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی
اطہر مسعود وانی 03335176429
|