جناح پارک ، کلائمبنگ وال، سیکورٹی اور ماحولیاتی رسک


کم و بیش گیارہ سال قبل یعنی اٹھارہ اپریل 2011کو عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخواہ کے سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور نے جناح پارک میں بلند ترین قومی جھنڈا لہرانے کی افتتاح کیا تھا جس پر کم و بیش 2.6 ملین روپے کی لاگت آئی تھی 185 فٹ لمبے قومی جھنڈے کے لہرانے کا مقصددہشت گردی کے اس دور میں یہ بتانا تھا کہ اس صوبے کے عوام بھی پاکستانی ہے اور وہ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اس افتتاح کے چار ماہ بعد یعنی بائیس اگست 2011 میں جناح پارک میں 18.6 ملین روپے کی لاگت سے ڈانس کرنے والے فواروں کی تنصیب کا افتتاح کیا اس وقت بشیربلور بھی اسی وقت سینئر وزیر تھے انہوں نے اس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ڈیجیٹیل فاﺅنڈیشن میں لگنے والے ٹیکنالوجی سپین ، فرانس ، جاپان اور جرمنی سے درآمد کی گئی اور اس سسٹم کو کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے..

ڈیجیٹل فاﺅنڈیشن جس پر اس صوبے کے بھوکے ننگے عوام کے کروڑوں روپے لگ گئے کم و بیش تین ماہ بعد ہی خراب ہوگئے ، اسوقت یہی بہانہ بنایا گیا کہ اس کیلئے بجلی مکمل نہیں آرہی اورڈانسنگ ڈیجیٹل فاﺅنڈیشن کام نہیں کررہے اور آٹھ ماہ بعد یہی ڈیجٹیل فاﺅنڈیشن غائب ہوگئے ، جس کے بعد آہستہ آہستہ ڈیجیٹل فاﺅنڈیشن کے فوارے اور پائپ بھی غائب ہونا شروع ہوگئے ، اسی وقت بھی یہی جناح پارک کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے زیر انتظام تھا اور کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی انتظامیہ نے ا س معاملے پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی. ایک سو پچاسی فٹ لمبا قومی جھنڈا اس وقت موجود ہے ،یہ الگ بات کہ اس میں کبھی کھبار جھنڈا غائب ہو جاتا ہے اور یہ اس وقت بھی کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی ملکیت میں ہے.

شیرشاہ روڈجسے اب جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے قلعہ بالاحصار کے سامنے واقع ہے اسے ماضی میں کننگھم پارک بھی کہا جاتا تھا یہ تاریخی پارک ہے جس میں 1947میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان میں شامل ہونے سے متعلق ریفرنڈم کروایا تھا ، اسی باعث اس پارک کو تاریخی اہمیت حاصل ہے ، بعدازاں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما باچا خان کی میت یہاں پر رکھی گئی تھی جس میں اس وقت بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی سمیت اعلی حکام نے بھی شرکت کی تھی.چونکہ یہ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کا شہر کیساتھ آخری پارک ہے اسی کے ساتھ صوبائی اسمبلی بھی اس کے نزدیک واقع ہے اسی باعث نہ صرف دیگر علاقوں سے آنیوالے افراد اس پارک میں سستانے کیلئے آتے ہیں بلکہ اب مختلف ڈیپارٹمنٹس کے ملازمین اپنے احتجاج کیلئے بھی اسی پارک کو استعمال کررہے ہیں.گذشتہ کئی سالوں سے کینٹ بورڈ اس پارک کو ٹھیکیداری نظام کے تحت چلا رہا .ہے

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں آنے کے بعد بی آر ٹی کے قیام کیلئے اس تاریخی پارک جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کننگھم پارک سے جناح پارک بن گیا تھا کا زیادہ تر حصہ کاٹ دیا گیا اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے شکار پشاور شہر میں شہر کے وسط میں واقع اس پارک کے بیشتر پرانے درخت کاٹ دئیے گئے او ر یہ سب کچھ عوامی فلاح و بہبود کے نام پر کیا گیا .اور کئی دہائیوں پرانے درخت مکمل طور پر کاٹ دئیے گئے حالانکہ چارسدہ ، پشاور اور نوشہرہ سے آنیوالے بیشتر گاڑیاں یہی پر رکتی ہیں اور یہاں پر ماحولیاتی آلودگی شام کے وقت قلعہ بالاحصار کے قریب سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود...

اب پی ٹی آئی کی حکومت میں کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس پارک میں کلائمبنگ وال بنانے کیساتھ ساتھ مصنوعی پہاڑ بنایا جائے اور اسی کے ساتھ سکیٹنگ کورٹ ، بچوں کے کھیلنے کیلئے جگہ سمیت واکنگ ٹریک بنایا جائے جس پر کم و بیش چار کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اور اس منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے پرانی تاریخی عمارت کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ اب کئی دہائیوں پرانے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ بھی شروع ہو جائیگا جس کے بعد کلائمبنگ وال بھی بنایا جائیگا اور سکیٹنگ کورٹ بھی بنایا جائیگا جہاں پر بقول کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی انتظامیہ کے بچے کھیل سکیں گے .

سوال یہ ہے کہ کلائمبنگ وال کی ضرورت ہی کیا ہے کیا کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی انتظامیہ کو اپنے ہی لیز کردہ زمین پر بنائے گئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایک کروڑ بارہ لاکھ روپے کی کلائمبنگ وال کا پتہ نہیں ، جو گذشتہ ایک سال سے خالی پڑا ہے اور کوئی کھلاڑی اس طرف نہیں آرہا ، نہ ہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس کیلئے کوچ لے رہا ہے اور نہ ہی کوئی کھلاڑی بارہ ہزار روپے والے جوتے خرید سکتا ہے اس لئے اب یہ کلائمبنگ وال سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے ہی پڑا ہے. حالانکہ کنٹونمنٹ بورڈ پشاورکی حدود میں بڑے پوش لوگ موجود ہیں لیکن یہاں پر کوئی نہیں آرہا ، ایسے میں پشاور شہر جہاں پر سفید پوش طبقہ موجود ہے ان حالات میں کلائمبنگ وال کیلئے کیسے آئیگا- اسی طرح سکیٹنگ کورٹ کی صورتحال بھی ہے جب سپورٹس ڈائریکٹریٹ جیسا بھاری بھر محکمے سکیٹنگ کیلئے الگ جگہ نہیں بنا سکا نہ ہی اس کے کھلاڑی کہیں پر موجود ہیں ایسے میں تاریخی اہمیت کے حامل جناح پارک کی پرانے درختوں کو کاٹ کر یہاں پر کلائمبنگ وال ، سیکیٹنگ کورٹ بنانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے.

کیا کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے دفاتر میں بیٹھے حکام عوامی ٹیکسوں کے ساڑھے چار کروڑ کو اڑانا چاہتے ہیں جس کی ریکوری بھی مشکل ہے اسی طرح ایسی صورتحال میں جب صوبہ خیبر پختونخواہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی زد میں ہے اور بھتہ خوری سمیت سیکورٹی اداروں پر حملوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں ایسے میں شہر کے وسط میں ایسے پارک جس کے سامنے قلعہ بالاحصار ہے جہاں پر فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر ہے جبکہ اسی پارک کے پچھلے سائڈ پر ٹریفک پولیس کا ہیڈ کوارٹر ہے اور اس کے ذریعے پورے پشاورشہر کی سیکورٹی سمیت ٹریفک کو کنٹرول کیا جاتا ہے وہاں پر ساٹھ فٹ لمبے کلائمبنگ وال کی تعمیرکہیں دہشت گردوں کےلئے راستہ آسان کرنے کی کوشش تو نہیں ، کیونکہ ساٹھ فٹ لمبے کلائمبنگ وال جس کی کوئی ضرورت نہیں وہاں سے باآسانی سے قلعہ بالاحصار سمیت ٹریفک ہیڈ کوارٹر سمیت صوبائی اسمبلی ، ریڈیو پاکستان ، پشاور ہائیکورٹ کی عمارت سمیت شہر کو آسانی سے ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے کیا کنٹونمنٹ بورڈ پشاور میں بیٹھے افراد کے پاس سوچنے کی صلاحیت ہے بھی یا نہیں.

اسی طرح صوبائی محکمہ ماحولیات جنہوں نے قبل ازیں جناح پارک کے درختوں کی کٹائی کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تھا کیونکہ بی آر ٹی کی تعمیر سے قبل آرائش کے نام پر چھ ما ہ قبل درخت سڑکوں پر لگائے گئے اور پھر باقاعدہ منصوبے کے تحت انہیں ہٹایا گیا ، اور ثبوت نہ کوئی نہیں رہا ، موجودہ سیکرٹری ماحولیات عابد مجید نے ماحولیات کے حوالے سے نئی پالیسی گذشتہ دنوں شیئر کی تھی جس کے تحت پارک ، گھروں میں درختوں لگانے سمیت پارک اور حکومتی اداروں میںدرخت لگانے کا اعلان کیا تھا کیا صوبائی دارالحکومت پشاور کے وسط میں واقع جناح پارک میں ہونیوالی اس "تخریب"کا انہیں پتہ ہے یا نہیں ، کہ ایک طرف ماحولیات کی بہتری کیلئے ایسے اقدامات پر مبنی پالیسی بنائی جارہی ہیں اور دوسری طرف اسی حکومت میں پرانے درختوں کو کاٹ کر عوامی ٹیکسوں سے جمع کئے گئے کروڑوں روپے "ریکریشن" کے نام پر اڑائے جارہے ہیں.

کیاکنٹونمنٹ بورڈ نے اس معاملے میں محکمہ ماحولیات کو اعتماد میں لیا ہے یا پھر انہوں نے اس حوالے سے شہریوں کی کنسلٹیشن بھی کی ہے ، کیا انہیں یہ نظرنہیں آرہا ہے کہ جی ٹی روڈ پر درختوں اور سبزے پر مشتمل صرف یہی ایک پارک ہے جو ماحولیات کو بہتر بنانے میں کسی حد تک مددگار ہے . اگر خدانخواستہ درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح پشاور میں بھی سموگ پیدا ہوگی اور انتظامیہ کو صحت کے مسائل سے بچنے کیلئے سکولوں کو بند کرنا پڑے گا. اور کروڑوں روپے جو اب جناح پارک میں کلائمبنگ وال ، سکیٹنگ کورٹ و دیگر چیزوں پر لگ رہی ہیں یہ بھی فضول میں لگ جائیں گے اور اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا. اگر کنٹونمنٹ بورڈ پشاور میں بیٹھے "ناخدا" ٹھیکیداروں کو خوش کرنے اور اپنے کمیشن کے بجائے شہر اور شہریوں کا سوچیں تو کم ا ز کم اس طرح کی صورتحال پشاور میں پیدا نہ ہوں.
#kikxnow #digitalcreator #enviroment #climbingwall #jinnahpark #peshwar #sports #pakistan #canttboard #cantomentboard
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420133 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More