افلاس کے ہاتھوں عید کا خراب
ہونا تو دیکھتے آئے ہیں مگر ذہنی افلاس کے ہاتھوں رمضان المبارک کا ڈھنگ سے
نہ گزر پانا بھی دیکھ لیا۔ پیٹ کی بھوک پر قابو پالیا مگر ذہن کو خوراک
دیتے رہے۔ ”یاروں“ نے بھرپور کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اہل ایمان کو ماہِ
مبارک میں بھی شدید خوف کی حالت میں رکھیں اور اِس میں وہ بہت حد تک کامیاب
بھی رہے۔ اللہ کی جو مرضی ہے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہماری خود ساختہ ”بے بسی“
یہ ہے کہ ہم ہر سیاسی تاجر سے سودا خریدنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ جو چرب زبان
ہے وہ دین سکھا رہا ہے اور جس میں علم و حلم ہے وہ گوشہ نشین ہوکر اپنی عزت
بچانے کی فکر میں غلطاں ہے! جس کی زبان میں جتنا زہر ہے وہ اُتنا ہی مقبول،
بلکہ مرکز نگاہ ہے۔ اللہ کے حکام کے مطابق دھیمے لہجے میں ڈھنگ کی بات کرنے
والا احمق گردانا جاتا ہے۔ تقویٰ ایک طرف رہ گیا ہے اور چمک دمک آگے بڑھ
گئی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ دینی امور پر کوئی تقریر سُننی ہو تو ہم چاہتے
ہیں کہ مقرر شعلہ بیان ہو، خواہ شعلہ بیانی کی چنداں ضرورت نہ ہو! رسول
اللہ ﷺ سے عقیدت اور وابستگی کا اظہار بھی ہم اپنی ہی دُھن میں رہتے ہوئے
کرتے ہیں۔ نعت سُننے بیٹھتے ہیں تو الفاظ اور عقیدت سے زیادہ ”دُھن“ اور
نعت خواں کے وارڈ روب پر توجہ رہتی ہے! اللہ سے معافی مانگنا پڑے تو چاہتے
ہیں کہ کسی ٹی وی چینل کے اینکر سے براہ راست بات کرتے ہوئے مانگیں تاکہ
دنیا گواہ رہے! دینی عقائد کا رشتہ گلیمر سے جوڑنے کی ایسی انوکھی روش کم
ہی ممالک میں پائی جاتی ہے! یہ ریا کاری، یہ منافقت کس درجے کی ہے، اللہ ہی
جانتا ہے۔ اور وہی یہ بات بھی جانتا ہے کہ یہ روحانی بیماری ہمیں ذلت کے
گڑھے میں کہاں تک گراتی جائے گی!
ماہِ صیام کے دوران حالت یہ تھی کہ دن دن بھر معدے میں کچھ نہ انڈیلا گیا
تاہم ذہن کو خوراک دی جاتی رہی۔ سُکون کی ساعتیں طبیعت پر گراں گزرتی ہیں۔
کچھ ”ایسا ویسا“ ہو جائے تو ذہن کو خوراک مل جاتی ہے! عبادت کی گھڑیاں اور
مناجات کے پہر اُن کے رحم و کرم پر رہے جو آگ لگانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
مگر صاحب! اِس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم آگ لگوانے اور اُس میں بھسم
ہونے کے لیے تیار بھی تو رہے! اللہ کی یاد کے دن بھی شکوہ و فریاد کے دِنوں
میں تبدیل کردیئے گئے۔ اور کسی کو نتائج کی پروا بھی نہیں۔
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!
مرزا تنقید بیگ واقعی شریف آدمی ہیں۔ دھوکا دینا اُنہیں آتا نہیں اِس لیے
اکثر اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لیے فرماتے ہیں کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے
وہ دراصل اللہ کی طرف سے آزمائش ہے! ہم اُن کی سادہ لوحی پر ”زیر لب کے
نیچے“ مسکرانے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں! ہم نے کئی بار اپنے ہی پاؤں پر
کلہاڑی ماری ہے یعنی مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آزمائش والی بات بھی
دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کے مصداق ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اپنی نیت اور اعمال نہیں جانتا؟ اور ہم
میں سے کتنے ہیں جو آزمائے جانے کے قابل ہیں؟ عافیت اِس میں ہے کہ جو کچھ
بھی ہم پر گزر رہی ہے اُسے گناہوں کی سزا سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ سوال
صرف یقین کا ہے۔ اگر ہم یقین نہ کرنے کی ٹھان لیں تو اللہ کے وعدوں پر بھی
یقین نہ آئے گا۔ اور عملاً تو ایسا ہی ہے۔
مرزا کا استدلال ہے کہ ایک دن اللہ مظلوموں کی ضرور سُنے گا۔ ہم بھی اِس
بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فریاد رنگ لائے گی۔ مگر صاحب! محض فریاد سے کیا
ہوتا ہے؟ اگر غلط روش کے باعث کسی کو ہم پر ستم ڈھانے کا موقع مل رہا ہو تو
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنی روش تبدیل کریں تاکہ ظلم اور جبر کی ایک
راہ تو بند ہو؟
اب کے رمضان بھی ویسا ہی گزرا جیسا گزرتا رہا ہے۔ جنہیں اللہ کی رحمت
سمیٹنی تھی اُنہوں نے رحمت سمیٹی اور جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ صرف مال
بنائیں گے اُنہوں نے مال بنایا۔ جس پرنالے کو جہاں بہنا اچھا لگتا ہے وہ
وہیں بہتا رہا۔ ایک کا مال دو بلکہ تین یا چار میں فروخت کرکے دُنیوی منافع
بٹورنے اور آخرت کا خسارہ سمیٹنے والوں کی ہمارے ہاں کب کمی رہی ہے؟ اِس
بار بھی ملک بھر میں رحمتوں اور برکتوں کے کھلے بازار میں خریداری کرنے کے
بجائے لوگ معمولی منفعت کی منڈی سجائے بیٹھے رہے۔ جو اہل ایمان ہونے کے
دعویدار ہیں وہ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ فریاد کرنے والے دُہائیاں دے
دے کر تھک گئے مگر انسانی خون کے پیاسوں کو رحم نہ آیا۔ انسانیت کا گراف
گرتا رہا اور بے حسی کا پارہ چڑھتا رہا۔
رہی سہی کسر تاجر برادری نے پوری کردی۔ رمضان المبارک کے دوران بازار کئی
دن بند رہے۔ حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کے پاس جو کچھ رہ گیا تھا وہ
مختلف اشیاءکے دام بڑھاکر چھین لیا گیا۔ جو تھوڑا بہت بھی اختیار رکھتے ہیں
وہ تو کسی نہ کسی طرح اپنا خسارہ پورا کرلیتے ہیں۔ عام آدمی کہاں جائے، کس
طور اپنی محنت کی کمائی کو لُٹنے سے محفوظ رکھے؟ فریاد کرے تو کس سے کرے؟
کوئی توقع رکھے تو کس سے؟ اگر وہ مایوس ہو تو حیرت کیسی؟ عید کی مبارک
ساعتیں سر پر ہیں اور صورت حال میں کہیں بھی کوئی امید افزاء بات دکھائی
نہیں دیتی۔ عوام کی اشک شوئی کے لیے یا پھر اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے
کے لیے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف نیم دِلانہ ”آپریشن“ کیا
جارہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اب لوگوں کو
اِس طور بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ میڈیا کا آئینہ سب کچھ اُسی رنگ میں
پیش کردیتا ہے جس رنگ میں ہو رہا ہوتا ہے! جن میں اللہ کی رحمت کے خزینے
تلاش کئے جاتے ہیں، رمضان المبارک کے آخری عشرے کی وہ مبارک راتیں ہم نے
ایک دوسرے کی دہشت گردی کا شکار ہونے یا پھر دہشت گردوں کے خلاف نام نہاد
کیا جانے والا نام نہاد ”آپریشن“ دیکھنے میں گزار دیں! کیا مقدر اِسی کو
کہتے ہیں؟ اور اِس پر بھی خوش گمانی یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہو رہے گا!
عید الفطر کی مبارک ساعتیں پھر ہمارا مقدر بنی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہم اِن
ساعتوں کا حق ادا کرنے سے قاصر ہی رہے ہیں۔ صدق دل سے توبہ کرنے اور اپنی
ہر غلط کی معافی مانگ کر ربّ کائنات سے رحمت کا طلب گار ہونے کا محل ہے۔
اگر کسی سے گلے ملنا ہے تو دِل سے دِل بھی ملائیے۔ کسی سے خلوص کا اظہار
کرنا ہے تو بدگمانی کے دھول دِل و نظر سے جھاڑ کر پوری ایمانداری سے محبت
جتائیے۔ عید کا حقیقی رنگ اور تقاضا تو یہی ہے۔ اور اِس معاملے میں ریا
کاری نہیں چلے گی کیونکہ وہ دِلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ |