پھر دیکھ کس طرح برستی ہے رحمت کی خدا کی
تو اس کے سامنے اک بار سر جھُکا کے تو دیکھ
حضرت براء ابن عازبؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’تم اس
شخص کی خوشی کے بارے میں کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی جنگل میں اپنی نکیل
رسی گھسیٹتی ہوئی نکل جائے جہاں نہ کھانا ہو نہ پانی اور اس کا کھانا اور
پانی اس اونٹنی پر رکھا ہو اور وہ شخص اونٹنی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے،
پھر وہ ا ونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل (رسی) درخت
کے تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ انٹنی اسی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے
ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! اس شخص کو بہت زیادہ خوشی ہو گی۔ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا سنو! جتنی خوشی اس شخص کو(ایسے سخت حالات میں مایوس ہونے کے بعد)
سواری مل جانے سے ہوتی ہے اﷲ کی قسم اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس
سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے
حضرت حسن بصری رحمتہ اﷲ علیہ کا زمانہ ہے۔ آپ کی ایک شاگردہ جو باقاعدہ آپ
کا درس سننے آتی تھی۔ نہایت عبادت گزار تھی۔ اس بے چاری کا جوانی میں خاوند
چل بسا۔ اس نے دل میں سوچا! ایک بیٹا ہے اگر میں دوسرا نکاح کرلوں گی تو
مجھے دوسرا خاوند تو مل جائے گا‘ لیکن میرے بچے کی زندگی برباد ہوجائے گی۔
اب بچہ جوان ہونے کے قریب ہے۔ ’’یہی میرا سہارا سہی‘‘ لہٰذا اس عظیم ماں نے
یہی سوچ کر اپنے جذبات کی قربانی دی۔وہ ماں گھر میں بچے کا پورا خیال رکھتی
لیکن جب وہ بچہ گھر سے باہر نکل جاتا تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی۔اب اس بچے
کے پاس مال کی کمی نہ تھی۔ اٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی یہ جوانی دیوانی
مستانی ہوجاتی ہے۔چنانچہ وہ بچہ بری صحبت میں گرفتار ہوگیا۔ شباب اور شراب
کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ماں برابر سمجھاتی لیکن بچے پر کچھ اثر نہ ہوتا‘
چکنا گھڑا بن گیا۔وہ اس کو حضرت حسن بصر ی رحمتہ اﷲ علیہ کے پاس لے کر آتی‘
حضرت حسن بصر ی رحمتہ اﷲ علیہ بھی اس کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے لیکن اس بچے
کا نیکی کی طرف رجحان ہی نہیں تھا۔ حضرت حسن بصر ی رحمتہ اﷲ علیہ کے دل میں
بھی یہ بات آئی کہ شاید اس کا دل پتھر بن گیا ہے۔مہر لگ گئی ہے۔ بہرحال ماں
تو ماں ہوتی ہے۔ ماں اسے پیار سے سمجھاتی رہی۔ میرے بیٹے نیک بن جاو‘تمہاری
زندگی اچھی ہوجائے گی۔کئی سال برے کاموں میں لگ کر اس نے اپنی دولت کے ساتھ
اپنی صحت بھی تباہ کرلی اور اس کے جسم میں لاعلاج بیماریاں پیدا
ہوگئیں‘معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ اٹھنے کی بھی سکت نہ رہی اور بستر پر
پڑگیا۔ اب اس کو آخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا‘ ماں نے پھر سمجھایا۔’’بیٹا!
تو نے اپنی زندگی توخراب کرلی‘ اب آخرت بنالے اور توبہ کرلے‘اﷲ بڑا غفور
الرحیم ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کومعاف کر دیگا‘‘۔جب ماں نے سمجھایا اس کے
دل پر کچھ اثر ہوا۔کہنے لگا!’’ماں میں کیسے توبہ کروں؟ میں نے بہت بڑے بڑے
گناہ کیے ہیں‘‘۔ماں نے کہا’’بیٹا! حضرت حسن بصر ی رحمتہ اﷲ علیہ سے پوچھ
لیتے ہیں‘‘۔بیٹے نے کہا ’’ماں اگر میں فوت ہوجاوں تو میرا جنازہ حضرت حسن
بصری رحمتہ اﷲ علیہ پڑھائیں‘‘۔ماں حضرت حسن بصر ی رحمتہ اﷲ علیہ کے پاس گئی۔
حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تھے اور تھکے ہوئے تھے اور درس بھی دینا تھا۔ اس
لیے قیلولہ کیلئے لیٹنا چاہتے تھے۔ ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا‘ پوچھا کون؟
عرض کیا ’’حضرت میں آپ کی شاگردہ ہوں۔ میرا بچہ اب آخری حالت میں ہے وہ
توبہ کرنا چاہتا ہے لہٰذا آپ گھر تشریف لے چلیں‘‘۔حضرت نے سوچا یہ پھر
دھوکا دے رہا ہے اور میرا وقت ضائع کرے گا اور اپنا بھی کرے گا۔ سالوں
گزرگئے اب تک کوئی بات اثر نہ کرسکی اب کیا کرے گی۔ کہنے لگے!’’میں اپنا
وقت ضائع کیوں کروں؟ میں نہیں آتا‘‘۔ ماں نے کہا’’حضرت جی! اس نے تو یہ بھی
کہا کہ اگر میرا انتقال ہوجائے تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری پڑھائیں‘‘۔
حضرت نے کہا ’’میں اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھاوں گا۔ اس نے تو کبھی نماز
ہی نہیں پڑھی‘‘۔ اب وہ شاگردہ تھی چپ کرگئی‘ روتی ہوئی گھر آگئی۔بیٹے نے
پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ ماں نے کہا’’ایک طرف تیری یہ حالت ہے، دوسری طرف حضرت
نے انکار کردیا‘‘۔ اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی اور
کہا’’ماں میری ایک وصیت سن لیجئے ماں نے پوچھا ’’بیٹا وہ کیا؟‘‘کہا’’امی
میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے تو سب سے پہلے اپنا دوپٹہ میرے
گلے میں ڈالنا‘ میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹنا‘ جس طرح مرے ہوئے
کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے۔ ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیوں؟ کہا امی اس لیے کہ
دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا
نافرمان ہوتا ہے اس کا انجام یہ ہوا کرتا ہے۔میری پیاری ماں مجھے قبرستان
میں دفن نہ کرنا‘‘۔ماں نے کہا وہ کیوں؟ ’’کہا ماں مجھے اسی صحن میں دفن
کردینا ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مردوں کو تکلیف
پہنچے۔جس وقت نوجوان نے ٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی تو پروردگار کو اس
کی یہ بات اچھی لگی‘ روح قبض ہوگئی‘ابھی روح نکلی ہی تھی ماں آنکھیں بند
کررہی تھی تو دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون؟ جواب آیا حسن بصری ہوں۔ کہا
حضرت آپ کیسے؟ فرمایا جب میں نے تمہیں جواب دے دیا اور سوگیا۔ خواب میں اﷲ
رب العزت کا کا حکم ہوا‘ پروردگار نے فرمایا حسن بصری تو میرا کیسا ولی ہے؟
میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اﷲ نے تیرے
بیٹے کی توبہ قبول کرلی ہے۔ تیرے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حسن بصری
کھڑا ہے۔اے اﷲ! تو کتنا کریم ہے کہ مرنے سے چند لمحہ پہلے اگر کوئی بندہ
شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے گناہوں کو معاف کردیتا ہےٌ ّ (منقول
بحوالہ کِِتابُ المُعجزات جِلد نمبر ۲)حضرت عمر رضی اﷲ تعالہ عنہ کے دور
خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی
کے بغیر۔اس زمانے میں یہ بھی بہت معیوب سمجھا جاتا تھاجب اس کی عمر 80 سال
ہو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیااب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھاگھر میں
فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیاآخر
تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اﷲ کو پکاراکہ یا اﷲ! اب
تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ہے۔میرے گھر والے
پریشان ہیں۔یا اﷲ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا۔تو تو سن۔تو تو سن۔میں تنگ دست
ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں۔حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ
خواب میں آواز آئی عمر! اٹھو بھاگو دوڑو۔۔میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار
رہا ہے۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے۔کیا
دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیچھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔اس نے
جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے۔حضرت عمر نے کہا‘‘
رکو کہاں جا رہے ہو؟ میرے پاس آؤ۔میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں‘‘۔وہ بولا
آپ کو کس نے بھیجا ہے؟؟۔حضرت عمرؓ نے کہا جس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس
نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ہے یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور
اﷲ کو پکارا۔یا اﷲ!ساری زندگی تیری نا فرمانی کی، تجھے بھلائے رکھا۔یاد بھی
کیا تو روٹی کے لئے اور تو نے اس پر بھی ’’لبیک‘‘ کہا اور میری مدد کے لیے
اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا۔ میں تیرا مجرم ہوں۔یا اﷲ مجھے معاف کر دے۔
یا اﷲ مجھے معاف کر دے۔ یہ کہتے ہوے وہ مر گیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کا نمازِ
جنازہ پڑھایا۔اور اس کے گھر والوں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر
دیا(حیات الصحابہ) ایک نوجوان نہایت بدکار تھا لیکن جب وہ کسی گناہ کا
ارتکاب کرتا اسکو کاپی میں نوٹ کر لیتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک
نہایت غریب عورت اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے وہ اپنے بچوں کی پریشانی
برداشت نہ کر سکی تو اس نے اپنی پڑوسن سے ایک عمدہ ریشم کا جوڑا ادھار لے
لیا۔وہ اسے پہن کر نکلی تو اس نوجوان نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔ جب
اسکے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ عورت روتے ہوئے تڑپنے لگی اور کہا میں
فاحشہ یا زانیہ نہیں ہوں۔میں بچوں کی پریشانی کی وجہ سے اس طرح نکلی ہوں۔
جب تم نے مجھے بلایا تو خیر کی امید ہوئی۔اس نوجوان نے اسے کافی درہم دئیے
اور رونے لگا اور گھر آ کر اپنی والدہ کو پورا واقعہ سنایا۔ اسکی والدہ
اسکو ہمیشہ معصیت‘‘برائی’’سے روکتی اور منع کرتی تھی آج یہ سن کر بہت خوش
ہوئی اور کہا بیٹا تو نے زندگی میں یہی ایک نیکی کی ہے۔ اسکو بھی اپنی کاپی
میں نوٹ کر لے،بیٹے نے کہا کاپی میں اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے والدہ نے کہا
کاپی کے حاشیہ پر نوٹ کر لے۔چناچہ حاشیہ پر نوٹ کر لیا اور نہایت غمگین ہو
کر سو گیا۔جب بیدار ہوتا ہے تو دیکھا پوری کاپی سفید اور صاف کاغذوں کی ہے
کوئی چیز لکھی ہوئی باقی نہیں رہی صرف حاشیہ پر جو آج کا واقعہ نوٹ کیا تھا
وہی باقی تھااور کاپی کے اوپر کے حصہ میں ایک آیت لکھی ہوئی تھی ’’بیشک
نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں‘‘۔اس کے بعد اس نے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی
اور اسی پر قائم رہا
|