فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں ملازمت کی داستان

میں نے دو مرتبہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں ملازمت کی ۔پہلی 1978ء میں اور دوسری 1994ء میں
پہِلی مرتبہ بھی عبدالرؤف صاحب نے مجھے ریلیونگ لیٹر لیکر دیا دوسری بار بھی عبدالرؤف صاحب میرے ضمانتی تھے
فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کا مقصد بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کو کنٹرول کرنا تھا
سلیم چشتی ڈائریکٹر کیمونی کیشنز بھی تھے اور بہترین ڈرامہ رائٹر بھی، وہی میرے باس تھے
محمدا سحاق کے توسط سے ذریعے میں لاہور چھاؤنی کے ریلوے کوارٹروں میں فلمیں دکھانے کا اہتمام کرتا
(پہلی قسط۔ پہلی ملازمت 1978ء کی روداد)

زندگی اتنی تیزی سے گزر رہی ہے کہ گزرتے وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان -3اے ٹمپل روڈ پر بطور اردو سیٹنو گرافر ملازمت کرتا تھا ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتا دوں کہ 1975ء میں لوکل گورنمنٹ کے ماتحت ادارے تعلیم بالغاں سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ "خدمت "میں بطور اردو سٹینوگرافر ملازم ہوا ۔وہاں ملازمت کی داستان بہت طویل ہے ،اس لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پندرہ روزہ "خدمت" کے ایڈیٹر قابل احترام جناب اشرف قدسی صاحب تھے ۔وہاں مجھے ساتویں گریڈ میں ملازم رکھا گیا ۔اس طرح کل الاؤنسز ملاکر میری تنخواہ 380روپے بنتی تھی ۔چونکہ اس وقت مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی ۔اس لیے صبر شکر کرکے گزارہ ہو جاتا تھا ۔میں ریلوے کوارٹرز لاہور کینٹ سے مال روڈ پر سائیکل چلاتا ہوا 90ریواز گارڈن جا پہنچتا ۔اشرف قدسی صاحب کا مرتبہ بظاہر تو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے برابر تھا لیکن بڑے جذباتی اور فیصلہ کرکے اس پر ڈٹ جانے والے اچھے انسان تھے ۔میں نے تین سال وہاں ملازمت کی ۔تو ایک دن اخبار میں سہراب سائیکل کے ہیڈآفس میں اردو سیٹنو گرافر کی آسامی کا اشتہار دیکھا۔دل نے چاہا کہ کیوں نہ قسمت آزمائی کی جائے ۔میں مقررہ دن انٹرویو اور ٹیسٹ دینے کے لیے سہراب سائیکل کے ہیڈآفس بالمقابل نیلا گنبد جا پہنچا ۔کچھ اور نوجوان بھی انٹرویو دینے کے لیے آئے ہوئے تھے ۔سیلزمنیجر جے ایس بارلو انٹرویو کررہے تھے ۔جب انٹرویو کی میری باری آئی تو میں ان کے کمرے میں داخل ہواتو انہوں نے مجھے اپنے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا ۔اس دوران دفتر کے کچھ اور لوگ بھی آگئے ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے یہی پتہ چلا کہ جے ایس بارلو ،کرکٹ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔دوسری جانب میں بھی نہ صرف خود کھیلتا رہتا ہوں بلکہ کرکٹ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات بھی رکھتا تھا ۔ چنانچہ انٹرویوکے دوران جب میں نے کرکٹ کی اصطلاح شامل کیں تو جے ایس بارلو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے فوری طور پر مجھے سہراب سائیکل میں بطور اردو سٹینو گرافر ملازم رکھنے کا فیصلہ کرلیا ۔جہاں دفتر کے باقی لوگ بیٹھے تھے ،مجھے بھی ایک کرسی میز پر بیٹھنے کے لیے کہہ دیا گیا ۔یہاں آنے کا مقصد سو ڈیڑھ سو روپے زیادہ تنخواہ تھا۔ چند دنوں کے بعد مجھے حکم ملا کہ تعلیم بالغاں کے دفتر سے (Relieving Certifacte) ملازمت چھوڑنے کا لیٹر لاکر دیں ۔ جب میں ، واپس ایڈیٹر پندرہ روزہ خدمت جناب اشرف قدسی صاحب کی خدمت میں پہنچا اور ملازمت چھوڑنے کا لیٹر مانگا تو انہوں نے انکار کردیا ۔اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے تعلیم بالغاں کے دفتر واپس آنا پڑا۔

ابھی چند ہفتے ہی گزرے ہونگے کہ اخبارمیں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں اردو سیٹنو گرافر کی آسامی دکھائی دی ۔ پندرہ روزہ "خدمت" میں چونکہ 380روپے میری تنخواہ تھی جبکہ فیملی پلاننگ کے دفتر میں تقریبا ڈبل تنخواہ کے بارے میں لکھا گیا تھا ۔اس لیے ایک بار پھر میرا دل للچایا اور میں انٹرویو دینے کے لیے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کے دفتر واقع-3 اے ٹمپل روڈ لاہور جا پہنچا ۔وہاں سینئر ڈائریکٹر کیمونی کیشنز سلیم چشتی صاحب نے میرا انٹرویو کیا اور ملازمت کے حوالے سے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن غیر حکومتی ادارہ ہے۔یہ ادارہ خالصتا غیرملکی عطیات پر چلتا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اس ادارے کا کام آبادی کے دباؤ کوممکن حد تک کم کرنا تھا اور لوگوں کو یہ بات سمجھانی تھی کہ اپنے مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے اولاد پیدا کریں ۔اتنی اولاد ہونی چاہیئے جس کی آسانی اچھی پرورش بھی ہو سکے اور اولاد کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیے مالی وسائل بھی دستیاب ہوں ۔بطور خاص بیٹیوں کی پیدائش اور پرورش کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ آج کی بیٹی ، کل کی ماں بنے گی ۔اس لیے اگر معاشرہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی ان کی پرورش اور تربیت پر توجہ نہ دے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔اس ادارے کا دوسرا مقصد قومی وسائل پر انسانی آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو ممکن حد تک کم کرنا تھا ۔اس مقصدکے لیے حکومت پاکستان نے بہبود آبادی کے نام سے ایک نیم خود مختار ادارہ قائم کررکھا تھا جبکہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کاادارہ اقوام متحدہ کے ماتحت تھا۔ فیملی پلاننگ کی وزیر اکثر محترمہ عطیہ عنایت اﷲ ہی بنتی ۔جو فیملی پلاننگ میں بیٹھتا کرتی تھیں۔منیر ثاقب ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اور پرسانل سٹاف افسر تھے ۔جب بھی عطیہ عنایت اﷲ دفتر میں موجود ہوتیں تو دفترمیں ایک زلزلہ سا آجاتا ۔ ہر چھوٹا بڑا شخص ہائی الرٹ ہو جاتا ۔کسی بھی وقت کسی کو بھی بلاوا آسکتا تھا۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ سلیم چشتی صاحب ایک اچھے اور نفیس افسر تھے ،وہ فیملی پلاننگ کے دفتر میں اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ اسٹیج ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے جو اس وقت الحمرا ہال میں پیش کیے جاتے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہترین ڈرامہ نگار بھی تھے اور ان کے پاس اکثر و بیشتر اسٹیج کے اداکار آتے جاتے دکھائی دیتے تھے ۔اس لیے میں بھی اعزاز سمجھ کر ان سے ہاتھ ملالیا کرتا تھا ۔جب فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں میری سلیکشن ہوگئی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن غفار صاحب (جو نہایت اچھے انسان تھے اور اپنے مرتبے کو بھول کر ہر کسی کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔)کو تقررنامہ تیار کرنے کا حکم مل گیا تو انہوں نے مجھے بلاکر کہا جہاں آپ پہلے ملازمت کررہے ہیں ، وہاں سے Relieving Certificate لاکر دیں پھر فیملی پلاننگ میں آپ کو تقرر نامہ ملے گا۔یہ سنتے ہی میرا چہرہ ایک بار پھر لٹک گیا کیونکہ میں تو سہراب سائیکل کی ملازمت اسی وجہ سے چھوڑ آیا تھا کہ انہوں نے بھی مجھ سے Relieving Certificate مانگا تھا جو مجھے اشرف قدسی صاحب نے نہیں دیا۔ اشرف قدسی صاحب کا اصرار تھا کہ میں آپ کو یہاں سے فارغ نہیں کروں گا کیونکہ آپ میرے کام کو سمجھ چکے ہیں۔نیا سٹینو گرافر آئے گا تو اسے کام سمجھنے کے لیے دو تین مہینے لگ جائیں گے ۔میں یہ بات قبول نہیں کرسکتا۔کیونکہ دوران ملازمت ان پر ایک مشکل وقت آیا تھا، میں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ۔ اس لیے وہ آنکھیں بند کرکے مجھ پر اعتماد کرنے لگے تھے ۔ لیکن دوسری جانب مجھے فیملی پلاننگ میں زیادہ مالی فائدہ دکھائی دیتا تھا۔ اس لیے میری اولین خواہش تھی کہ میں فیملی پلاننگ میں ہی کام کروں۔فیملی پلاننگ میں میرا تعارف عبدالرؤف صاحب سے ہوا ۔وہ سکھی گھر رسالے کی کتابت کیا کرتے تھے ۔انہوں نے مجھ پر شفقت کا اظہار کیا تو میں نے انہیں بتایا کہ مجھے جب تک تعلیم بالغاں کے دفتر سے Relieving Order نہیں مل جاتا۔ اس وقت تک میں فیملی پلاننگ کو جوائن نہیں کرسکتا ۔ حسن اتفاق سے اشرف قدسی صاحب عبدالروف صاحب کے جاننے والے تھے۔ انہوں نے دلاسہ دیا کہ آپ بے فکر ہو جائیں ۔ میں ان سے بات کرلوں گا ۔ ملازمت چھوڑنے کا لیٹر ملتے ہی میں نے فیملی پلاننگ میں ملازمت کا آغاز کردیا ۔فیملی پلاننگ کا ادارہ جس عمارت میں موجود تھا ،اس کا آدھا حصہ نیا تعمیر شدہ تھا اور آخری حصہ پرانی سی بوسیدہ عمارت میں تھا ۔بڑے سے کمرے میں سکھی گھر کے ایڈیٹر جناب رضابدخشانی اور عبدالروف صاحب بیٹھتے تھے ۔ایک اور شخص بھی اسی کمرے میں بیٹھتا تھا لیکن مجھے ان صاحب کا نام یاد نہیں ہے۔اس سے پہلے کمرے میں سکھی گھر رسالے کو ملک بھر میں بجھوانے والے علی شاہد صاحب کا بڑا سا میز لگا ہوا تھا ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علی شاہد اس دفتر میں قابل ذکر شخص تصور کیا جاتا تھا ،اسی حوالے سے انہیں سکھی گھر رسالے کا ترسیلی ہیڈکہا جا سکتا ہے ۔اس سے کچھ ہی فاصلے پر میری میز لگی ہوئی تھی جس پر اردو کا ٹائپ رائٹر رکھا ہوا تھا ۔جبکہ ایک اور نوجوان جس کا نام غالبا مشتاق تھا وہ سکھی گھر کی پیکنگ اور پیکٹوں پوسٹ آفس تک پہنچانے کا ذمہ دار تھا ۔

یہاں ایک خوش باش نوجوان بھی دکھائی دیا جس کا نام ا سحا ق تھا وہ سلیم چشتی صاحب کادائیں بازو کہلاتا تھا ؟اس کے فرائض میں فیملی پلاننگ کی جانب سے دور دراز علاقوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں فیملی پلاننگ کی فلمیں دکھانا بھی شامل تھا۔ان فلموں سے پہلے سنیماؤں میں دکھائی جانے والی فلموں کی ریلیں بھی ان کے پاس وافر تعداد میں موجود ہوتیں ۔ ایک گاڑی پر پروجیکٹر نصب تھا جس کوعطا محمد ڈرائیور چلاتے تھے ، ان کے ساتھ ایک دو معاون بھی ہوتے ۔ حقیقی معنوں میں عطا محمد ڈرائیور، اسحاق کے معاون کی حیثیت سے فلموں کی نمائش کرتاتھا۔ اس کام کا مطلب یہ تھاکہ پاکستان کے دور دراز علاقوں کے رہنے والوں تک فیملی پلاننگ کا پیغام پہنچایا جائے۔چونکہ اسحاق صاحب سے میری بھی تھوڑی بہت سلام دعا تھی ، اس لیے جب بھی میں انہیں اپنے محلے میں فلم دکھانے کے لیے کہتا تھا تو وہ انکار نہ کرتا بلکہ اسی وقت ایک چٹ بناکر ڈائریکٹر کیمونی کیشنز سلیم چشتی صاحب سے دستخط کروا لیتا اور یہ سارا کام قانونی حیثیت اختیار کرلیتا ۔اس طرح میں نے پندرہ فلمیں لاہور چھاونی کے ریلوے کوارٹروں( جہاں ان دنوں میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھا) کے درمیان بڑے سے احاطے میں لگوائی ہونگی ۔آخری فلم ان داتا تھی جس میں سدھیر ہیرو کا کردار ادا کررہا تھا ۔ان دنوں سدھیر، وحیدمراد ندیم،آغا طالش اور محمد علی اداکاروں کو عوام الناس میں بہت پسند کیا جاتا تھااور لوگ ان کی فلمیں دیکھنے کے لیے جوق درجوق سنیماؤں کا رخ کرتے ۔فلمیں دیکھنے کے بعد اداکاروں اور اداکاراؤں کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے۔سینماؤں میں جب بھی کوئی نئی فلم لگتی تو ٹکٹ لینے والوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ بلیک میں ٹکٹ فروخت ہونے لگتے اور لڑائی جھگڑا بھی معمول کا حصہ تھے ۔

بہرکیف جب بھی فیملی پِلاننگ کی گاڑی میرے گھر کے باہر کھڑی ہوتی تو لوگ سرے شام ہی کرسیاں اور چارپائیاں قطار در قطار بچھالیتے ۔جب ماحول پر اندھیرا چھا جاتا توایک بڑا سا سفید پردہ گاڑی کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ۔اسی پردے پر پہلے فیملی پلاننگ کی فلم چلتی ۔اس کے بعد سنیمامیں دکھائی جانے والی فلم شروع ہوجاتی ۔فلمیں دیکھنے والوں میں نہ صرف ریلوے کوارٹروں اور کچی آبادی قربان لائن کے لوگ تھے بلکہ قربان پولیس لائن ، جو کوارٹروں سے مغرب کی جانب تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ہے، وہاں سے جوق در جوق پولیس والے بھی فلم دیکھنے والوں میں شامل ہو جاتے ۔اس طرح تین چار گھنٹے خوب گہما گہمی رہتی ۔ہمارے گھروالوں کا رعب سب لوگوں پر پڑ جاتا ۔ بلکہ کئی لوگ تو مجھے اکثر وبیشتر پوچھتے رہتے کہ دوبارہ فلمیں کب دکھاؤ گے ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہی دنوں اسحاق اچانک دل کی بیماری کا شکار ہوکر قبرستان میں جا سویا اور اس کے ساتھ فلمیں دیکھنے اور دکھانے کا سلسلہ بھی اختتام پذیر ہوگیا ۔

بہرکیف فیملی پلاننگ دفتر میں جہاں میری میز اور کرسی رکھی گئی تھی اس جگہ کے دائیں جانب اکلوتی کینٹین تھی،جس کی انچارج اسحاق صاحب کی والدہ تھی اور چائے وغیرہ سپلائی کرنے والے ملازم بھی وہاں موجود تھے ۔جو شخص بھی چائے پینے کے لیے کینٹین میں آتا ، بے ساختہ میری نظر اس کی طرف اٹھ جاتی ۔ اس طرح درجنوں چہروں سے میری شناسائی ہو جاتی ۔ میرے فرائض میں سکھی گھر کی فہرستوں کی تیاری بھی شامل تھی ، جس میں کوئی نہ کوئی ردوبدل ہوتا ہی رہتا تھا ۔ اس حوالے سے مجھے علی شاہد جو سکھی گھر کے ترسیلی مراحل کا کلی طور پر ذمہ دار تھا ،اس کی ہدایت اور رہنمائی میں یہ کام چلتا رہتا ۔
(مضمون جاری ہے)

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.