میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو آداب
میں نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں دو مضامین
تحریر کرچکا ہوں ایک ان کے والد شیخ نور محمد کے بارے میں اور دوسرا ان کے
اندر موجود عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے بارے میں آج ان کی
روحانی شخصیت کے ایک اور پہلو کی طرف ہم نظر ڈالیں گے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ
علیہ بیسویں صدی میں ایک ہماگیر شخصیت کی حیثیت سے ابھرے وہ مسلمانوں کے
لیئے ایک رہنماء اور وکیل دانا کی شکل میں سامنے آئے مختلف علوم کے حصول کی
خاطر جب علوم کے سمندر سے غوطہ زن ہوکر باہر آئے تو انہوں نے اپنی تشنگی کا
مظہر قران مجید فرقان حمید کو ہی تسلیم کیا اور اپنے مطالعے کا حقیقی محور
صرف قران مجید کو بنالیا اوراپنی پوری زندگی قران میں غوروفکر اور تدبر و
تفکر میں گزاری قران مجید پڑھتے تھے قران مجید بولتے تھے اور قران مجید
سنتے تھے بیسویں صدی میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایک ایسی شخصیت کے مالک
تھے جنہوں نے مختلف علوم کے حصول کے لیئے دنیا گھومی آپ علیہ رحمہ جرمنی
گئے انگلینڈ گئے جہاں انہوں نے مشرق اور مغرب کے فلسفے پڑھ ڈالے جو قدیم
بھی تھے اور جدید بھی لیکن انہوں نے برملہ کہا کہ میرے ذہن کو سکون میرے دل
کو تشنگی اور علم کو آسودگی ملی تو وہ صرف اللہ تبارک وتعالی کی کتاب قران
مجید سے بقول خود ان کے کہ
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی
جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو
تیرے عفو بندہ نواز میں
میرے محترم اور معزز پڑھے والوں مولانا ابوالحسن ندوی مرحوم لکھتے ہیں کہ
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو قران مجید فرقان حمید سے شغف تعلق اور شعور
واحساس کے ساتھ مطالعے اور تلاوت قران کا بہت یادہ ذوق تھا علامہ محمد
اقبال علیہ رحمہ نے مشرق اور مغرب کے تمام فلسفوں کو پڑھ ڈالا تھا جو ان کے
دور کے بھی تھے اور ان سے پہلے کے ادوار کے بھی اور وہ لوگ جو ان فلسفوں کے
زریعے وحی ، رسالت اور کتاب کو ماننے سے انکاری تھے انہیں بڑے جامع اور
ناقابل انکار دلائل پیش کئے ۔انہوں نے اپنے حاصل مطالعہ کو قران مجید کا
دین کہا اپنے موثر فلسفہ خودی کا source قران کو کہا اپنی روحانی شاعری کی
تاثیر کو قران مجید کا ثمر مانا اپنی شخصیت کو ہمیشہ قران مجید فرقان حمید
کے طالب علم ہونے کے طور پر متعارف کرایا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب بھی کوئی
آپ علیہ رحمہ سے کوئی سوال کرتا تو آپ علیہ رحمہ قران مجید کھول کر جواب
دیتے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ "میرے کلام میں
تاثیر اور میرے دل کا سوزوگداز سب اسی قران مجید کا فیضان ہے" آپ علیہ رحمہ
نے اپنے ذہن کی ہر تشویش کو قران مجید سے مطمئن کیا اپنے ذہن میں پیدا ہونے
والے تمام پیچیدہ سوالات اور غیروں کے اعتراضات کے جواب میں صرف قران مجید
فرقان حمید کو سامنے رکھا آپ علیہ رحمہ نے ہر مسئلے کاحل قران اور حدیث کی
صورت میں پیش کیا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ تیسری گول میز
کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو وہاں بڑی بڑی شخصیات سے ملاقات کی ان
ملاقات میں ایک ملاقات آپ علیہ رحمہ نے ایک مشہور سخصیت میسولینی سے ہوئی
اس نے آپ علیہ رحمہ سے کوئی مشورہ طلب کیا جو خاص طور پر اٹلی کے حالات کے
لئے موزوں ہوں تو آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ ہر شہر کی آبادی مقرر کرکے اسے
ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دو اس سے زیادہ آبادی کے لئے نئی بستیاں مہیا
کرو میسولینی نے وجہ پوچھی تو علامہ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ شہر کی آبادی
جس قدر بڑھتی جاتی ہے وہاں تہزیبی اور اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے اور
ثقافتی توانائی کی جگہ شر کے محرکات لے لیتے ہیں آپ علیہ رحمہ نے فرمایا کہ
یہ میرا نظریہ نہی ہے بلکہ تیرا سو سال پہلے میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم نے یہ مصلحت آمیز نصیحت حدیث کی صورت میں جاری فرمائی تھی کہ جب
مدینہ منورہ کی آبادی بڑھ جائے تو مزید لوگون کے داخل ہونے سے روکنے کے لئے
نیا شہر آباد کرلیاجائے میسولینی یہ حدیث سن کر کرسی سے کھڑا ہوگیا اور
اپنے دونوں ہاتھ میز پر مارتے ہوئے کہنے لگا کتنا خوبصورت خیال ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
کی شاعری نے ایک تھکی ماندی ہوئی ملت میں پھر دوبارہ سے ابھرنے کی آرزو
پیدا کی آپ علیہ رحمہ نے اس امت کے نوجوانوں کو جگایا اور انہیں اپنی اصل
منزل کی طرف اپنا کام یاد دلایا اور زندگی کے اصل رازوں سے آشناء کرایا آپ
علیہ رحمہ نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 21 مارچ 1932 میں خطاب
کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہا " میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں
خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا
سیاست سے کہیں بھی کوئی تعلق نہ ہو اس کا مقصد نوجوانوں کی روحانی صلاحیتوں
کو بیدار کرنا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ان نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے کہ
اسلام نے انسانی ثقافتی اور مزہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دئے ہیں اور
مستقبل میں اور کیا امکانات ہوسکتے ہیں"۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی
نظم " ایک نوجوان کے نام " میں نوجوانوں کو اپنے اندر عقابی روح اور شاہین
جیسی پرواز کی تلقین کی ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے مغرب میں جاکر مغرب کا سامنہ کیا مغربی تہزیب و
تمدن کی چمکتی ہوئی رعانائیوں اور دلربائیوں کے بیچ میں رہکر ان کی چمک دمک
کو باطل ثابت کیا آپ علیہ رحمہ مغربی تہذیب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودخوشی کرے گی ۔
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک وخیال بلند و ذوق لطیف
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ دور جدید کے ان مفکرین میں شامل
ہیں خن پر مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلمانوں نے بھی کام کیا آپ علیہ رحمہ
پر اتنا کچھ لکھا گیا اتنا کچھ کہا گیا کہ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل
ہوتا جارہا ہے پاکستان کو چھوڑ کر دنیا کی کئی جامعات میں اقبالیات کا ایک
الگ شعبہ موجود ہے جہاں صرف کلام اقبال پر تحقیق کی جاتی ہے ہر شعبئہ علم
کے لوگ علامہ علیہ رحمہ کو اپنا آئیڈیل مانتے اور تسلیم کرتے ہیں سائنسی
علوم سے لیکر سوشل سائنسز کی ہر فیلڈ میں علامہ علیہ رحمہ کے عقیدت مندوں
کی ایک کثیر تعداد موجود ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
نے ہماری ملت کے لئے کیا کام کیا ہے ؟ اس کے جواب میں لکھنے والوں نے صفحات
کے صفحات بھردئیے ہیں مگر اصل جواب یہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ
اللہ علیہ کا قران مجید فرقان حمید سے گہرا روحانی تعلق ، اللہ تبارک
وتعالی کا قرب اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی ذات سے بے پناہ عشق ہی
آپ علیہ رحمہ کی روحانی شاعری میں نظر اتی ہے جو ہمارے لیئے مشعل راہ ہے آپ
علیہ رحمہ کو امت مسلمہ کی اتنی فکر تھی کہ آپ علیہ رحمہ اکثر غوروفکر کے
سمندر میں غوطہ زن ںظر آتے تھے اس ضمن میں مرحوم سلیم یوسف چشتی نے لکھا کہ
دورہ افغانستان کے دوران ایک دفعہ آپ علیہ رحمہ امت کی فکر میں اسطرح زارو
قطار روئے جیسے کوئی چھوٹا بچہ روتا ہے آپ علیہ رحمہ کو اس لگائو عشق اور
فکر امت نے ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو وہ رفعت و بلندی بخشی کہ
آپ علیہ رحمہ دانائے راز بن گئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی اس تحریر میں کوشش میں نے یہ کی ہے
کہ علامہ علیہ رحمہ کا اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ لگائو ، قران مجید فرقان
حمید سے بے پناہ محبت اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے عشق کی گہرائی
کو آپ تک پہنچا سکوں اور امت مسلمہ کی حلت زار پر فکر مندی میں رونا آپ
علیہ رحمہ کا محب وطن ہونا ثابت کرتا ہے میری کوشش ہوگی کہ علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں جو کچھ آپ تک پہنچاسکوں وہ پہنچاتا
رہوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ مجھے حق اور سچ بات لکھنے اور ہم
سب کو پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین آمین ثمہ آمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
|