تاریخ میں بہت سی دلچسپ جنگوں کے تذکرے موجود ہیں۔ ایسی
ہی ایک دلچسپ جنگ سکندر اعظم نے ایشا میں اپنی فتوحات کے دوران آخری بار
لڑی تھی۔ یہ جنگ راجہ پورس اور سکندر اعظم کے مابین ہوئی تھی۔ اس جنگ کے
بعد زندگی نے سکندر اعظم کو مزید جنگیں لڑنے کا موقع نہ دیا۔اوروہ مر گیا۔
فارس میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد سکندر نے شمالی ہندوستان میں پیش
قدمی کا فیصلہ کیا۔
یہ 326قبل مسیح کی بات ہے۔ اُس وقت دریائے جہلم کو ہائیڈاسپس کہا جاتا تھا۔
سکندر اعظم اورراجہ پورس کے درمیان لڑی جانے والی جنگ بھی ہائیڈاسپس کی جنگ
کے نام سے مشہور ہوئی۔ سکندر اعظم اپنے گھڑسواروں اور تیر اندازوں کے ساتھ
جب پنجاب کے میدانی علاقوں سے دھول اُڑاتا ہوا دریائے جہلم کے پاس پہنچاتو
راجہ پورس دیوار بن کر سامنے کھڑا تھا۔ سکندر کے پاس گھڑ سوار زیادہ تھے
اور پورس نے دو سو جنگی ہاتھیوں کو میدان میں اتارا تھا۔
سکندر نے جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم
کر تے ہوئے اپنی فوج کا ایک نسبتاً چھوٹا حصہ پورس کے سامنے کھڑا رکھا اور
دوسرے حصے کی خود قیادت کرتے ہوئے دریائے جہلم کے کنارے کے ساتھ ساتھ 27کلو
میٹر دور جا کر دریا عبور کر کے دوسری طرف پہنچ گیا۔
راجہ پورس کو جب پتہ چلا کہ سکندر دریا عبور کر چکا ہے تو پورس نے سکندری
فوج پر حملے کیلئے فوری مارچ کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ایک عظیم الشان جنگ
تھی۔ جس میں سکندر کے پاس چالیس ہزار پیادے اور پانچ ہزار گھڑ سوار تھے۔
اتنی بڑی طاقت کے باوجود راجہ پورس نے بڑی بہادری او ر دلیری سے مقابلہ
کیا۔ اس جنگ میں سکندر کو سابقہ تمام فتوحات کے مقابلے میں زیادہ نقصان
برداشت کرنا پڑا۔
یہ جنگ مہارت اور ذہانت کی جنگ تھی۔ سکندر جو ایران، ترکی اور افغانستان
فتح کرتا ہوا ہندوستان پہنچا تھا۔ اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ راجہ
پورس اُسے مشکل ترین جنگ میں ڈال سکتا ہے۔ پورس کا خیال تھا کہ یونانی فوج
دریا پا ر نہیں کر ے گی۔ دریا میں پانی کا بہاؤ زیادہ تھا۔ سکندر نے راجہ
پورس کو دھوکہ دینے کے لیے اعلان کروا دیا کہ یونانی فوج پانی اترنے کا
انتظار کرے گی۔یہ سکندر کی جنگی حکمت عملی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے سکندر اور
اس کی فوج کو ہاتھیوں کی جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ کئی سو یونانی فوجی
ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندے گئے۔اس جنگ میں راجہ پورس کا بڑا بیٹا راجہ امر
شہید ہو گیا تھا۔ شہزادے کی موت پر چند درباریوں نے راجہ پورس سے افسوس کا
اظہار کیا تو راجہ پورس نے تاریخی جملہ کہا کہ پوٹھوہار کی حفاظت کیلئے
لڑنے والا ہر فوجی میرا بیٹا ہے۔
تاریخی طور پر اگر یہ ہائیڈاسپس کی جنگ سکندر اعظم نے جیتی، لیکن تاریخ نے
ہیرو راجہ پورس کو قرار دیا۔ جموں کے اس بہادر اور دلیر سپوت نے سکندر کو
دھول چٹائی اور رہتی دنیا تک امر ہو گیا۔
یہ یقینا راجہ پورس کی بہادر ی ہی تھی کہ پورس نے جب سکندر یونانی کے سامنے
ہتھیار ڈالے تو پورس نے سکندر کی نظروں میں اعلیٰ احترام اور مقام جیت لیا۔
سکندر اعظم نے راجہ پورس کو اس جیت کی پوروا سلطنت کا بادشاہ برقرار رکھا۔
شائد بہت کم لوگ راجہ امبھی کو جانتے ہوں۔ جب پورس سکندر سے جنگ لڑنے کی
تیاری کر رہا تھا تو راجہ امبھی اُس وقت کی ریاست ٹیکسلا کا بادشاہ تھا۔ جس
نے سکندر کا مقابلہ کیے بغیر اُس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ تاریخ میں
کمزور اور بزدلوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ شائد اسی لئے تاریخ میں راجہ امبھی
کا تذکرہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اور راجہ پورس ایک شیر دل بادشاہ کی طرح
تاریخ کے سینے پر ہیر ے کی طرح سجا ہوا ہے۔
راجہ پورس تاریخ کا ہی بیٹا نہیں ہے بلکہ پنجاب کا بھی سپوت ہے۔ اس سات فٹ
کے لمبے چوڑے دلیر بادشاہ کو تاریخ ہندوستان کے طاقتور ترین بادشاہوں میں
شمار کرتی ہے۔ معروف کتاب ”لائف آف الیگزینڈر“میں راجہ پورس اور سکندر اعظم
کے درمیان لڑی جانے والی اس عظیم الشان جنگ کا تذکرہ ملتاہے۔ اس جنگ میں
راجہ پورس کا بیٹا مرا، جنگ میں ہاتھیوں کی بہت بڑی تعداد بد حواس ہو کر
اپنی ہی فوج پر چڑھ دوڑی۔ جنگ ہارنے کے دباؤ اور اپنی صفوں میں تباہی
پھیلتے دیکھنے کے باوجود راجہ پورس کسی دیوتا کی طرح میدان جنگ میں موجود
رہا۔ راجہ پورس نے میدان نہیں چھوڑا۔ وہ خوف زدہ تھا نہ ڈرا ہوا۔ شکست کے
باوجود مطمئن او ر خود اعتماد۔ تاریخ نے راجہ پورس کا نام جب بھی لکھا،
سنہرے حروف سے لکھا۔
سکندر نے پورس کی بہادری اور ہمت کی تعریف کی۔ جنگ کے اختتام پر دونوں کے
درمیان جو گفتگو ہوئی وہ تاریخ میں رقم ہے۔ سکندر نے پورس کو اپنے سامنے
خود اعتمادی سے کھڑا دیکھ کر پوچھا۔
شکست کے باوجود اتنا اعتماد اور فخر؟
پورس نے جواب دیا۔
میری بادشاہی میرے چھوٹے بیٹے کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ آپ نے لڑائی جیتی ہے
جنگ نہیں۔ ابھی جنگ جاری ہے۔ آپ کو راجہ امبھی پر بھروسہ ہے۔ جس نے صرف
سیاسی فتح حاصل کرنے کیلئے اپنی مادرِ وطن سے غداری کی۔ آپ کو کتنا یقین ہے
کہ وہ آپ کو دھوکہ نہیں دے گا؟ مجھے خوشی ہوگی اگر میں اپنے وطن کی خاطر
شہید ہو گیا۔
پورس کا جواب سن کر سکندر مخاطب ہوتا ہے۔
بے شک میری فوج تباہ ہو گئی ہے۔ ٹیکسلا کی فوج ختم ہوگئی ہے۔ اب میں مزید
کسی پر حملہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں تمہارے بیٹے سے بھی جنگ نہیں کروں گا۔
میں نے اس کُرہ ارض کے بہترین جنگجوؤں کو شکست دی ہے۔میری یہ تلوار آج
تمہارے سامنے جھکتی ہے۔ میں نے تم سے بڑا جنگجو نہیں دیکھا۔ بتائیں پورس،
آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
جیسا ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔ پورس کے لاجواب اور لازوال
فقرے پر سکندر نے جواب دیا۔
میں آپ کی خود اعتمادی اور فخر سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ کی بادشاہت آپ
کو واپس نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ تو کبھی آپ نے کھوئی ہی نہیں۔ آ پ آج بھی
بادشاہ ہیں۔ میں آپ کو آزاد کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ کو میرا دوست
بننا ہوگا۔ انسانوں کی اس دنیا میں یہ جنگ ہمیشہ کیلئے امر ہو جائے گی۔ جب
بھی سکندر کا نام لیا جائے گا پورس کا نام بھی فخریہ انداز میں آئے گا۔ اگر
میں سب سے بڑا فاتح ہوں تو آپ سب سے بڑے محافظ ہیں۔
پورس کا جواب حیران کن تھا۔ اُس نے جواب دیا۔
آج مجھے پتہ چلا ہے کہ دنیا کے اس عظیم فاتح سکندر کے اندر ایک اور سکندر
موجود ہے جو اپنی فطرت میں ایک بہت بڑااور فراخ دل انسان ہے۔ مجھے آپ کی
دوستی قبول ہے۔ آپ جب تک چاہیں میری بادشاہی میں رہ سکتے ہیں۔ ہاں لیکن میں
آپ کو مزید آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔ سکندر مسکرا کر اُٹھتا ہے، تخت سے
اُترتا ہے اور پورس کو گلے لگا لیتا ہے۔
جیسا تم کہو میرے دوست!
|