آسٹریلیا سے اہل خانہ کے ہمراہ حج پر جانے کا پروگرام بنا
توہمیں بتایا گیا کہ پاسپورٹ، تصاویر، حفاظتی ٹیکے لگوانے کا میڈیکل
سرٹیفیکیٹ، نکاح نامے کی تصدیق اور کسی امام مسجد سے مسلمان ہونے کا
سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں ایک ہندو لیڈی ڈاکٹر، ایک
عیسائی پولیس آفیسر اور ایک پاکستانی امام مسجد سے سامنا ہوا۔
بھارتی نژادڈاکٹر شیلا برسوں سے ہماری فیملی ڈاکٹر ہے۔ان کا کلینک ہمارے
گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیلا نے سعودی سفارت خانے کی ہدایت کے
مطابق حفاظتی ٹیکے لگائے اور سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ احتیاطاً اس نے سعودی عرب
میں قیام کے دوران ممکنہ مختلف بیماریوں کے نسخے بھی لکھ دیے۔ مصروفیت کے
باوجوداس نے کافی وقت صرف کرکے ہمارے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنائے جس میں درج
تھا کہ ہمیں ان دواؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ایئر پورٹ پر ان
دواؤں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب ہمارے پاس اس سرٹیفیکیٹ
کی صورت میں موجود ہو۔ اس طرح اس نے ہمیں کسی ممکنہ پریشانی سے بچانے کا
پورا انتظام کر دیا ۔آسٹریلیا میں ڈاکٹر کسی بھی دوا کا نسخہ لکھ کر دینے
میں بہت محتاط رہتے ہیں کیونکہ ان کی فیس حکومت ادا کرتی ہے۔ مریض کو عموماً
دوا کی بھی پوری قیمت نہیں دینی پڑتی۔ اس میں سے کچھ حصہ حکومت ادا کرتی ہے۔
اس لیے ڈاکٹر بلاضرورت اور بغیربیماری کے کبھی دوا لکھ کر نہیں دیتے۔ عمومی
حالات میں ڈاکٹر شیلا بھی یہی کرتی تھی۔ اتنی ساری دوائیں لکھ کر دینے کی
وجہ اس نے یہ بتائی کہ دورانِ حج بڑی خلقت جمع ہوتی ہے۔متعدد امراض کے
جراثیم عام ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ دوائیں ہو ں گی اور وقت پر استعمال
کریں گے تو ان امراض سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا۔ڈاکٹر شیلا نے درست کہا تھا
قیام حرمین شریفین کے دوران میں ہمیں ان دواؤں کی بار بار ضرورت پڑی اوریہ
دوائیں ہمارے بہت کام آئیں۔ اگر یہ دوائیں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو یقینا
ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہم اپنی اس ڈاکٹر کے ہمیشہ ممنون
رہیں گے۔ خدا اس کو سکون اور شانتی دے۔
نکاح نامے کی تصدیق کی شرط یہ تھی کہ کوئی پولیس آفیسر ہی اس کی تصدیق کر
سکتا ہے۔میرا نکاح نامہ اُردو میں ہے۔ ماہ وسال کی گردش کے ساتھ دولہا اور
دلہن کی طرح نکاح نامہ بھی عمر رسیدہ ہو چکا ہے اور اپنی ابتدائی رنگت اور
شکل وشباہت کھو کر زردی مائل اور گھسے پٹے کاغذ میں بدل چکا ہے۔ اگرچہ میں
نے اس پر میک اپ کی تہیں( پلاسٹک کوٹنگ) چڑھا کر اور زمانے کے گرم وسرد سے
محفوظ رکھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنی اُڑی اُڑی رنگت، پیلاہٹ
اور مدہم الفاظ کی وجہ سے تقریباً ناقابل فہم ہو چکا ہے۔ برسوں پہلے جب میں
آسٹریلیا آرہا تھا تو اسلام آباد سے میں نے اس کا انگریزی ترجمہ کروایا
تھاوہ اب کام آیا۔ لیکن تصدیق بہرحال اصلی نکاح نامے کی ہو ناتھی۔ نکاح
نامہ اور اس کا انگریزی ترجمہ لے کر میں مقامی پولیس اسٹیشن گیا۔ کاؤنٹر پر
موجود پولیس آفیسر جس کا نام رابرٹ تھا، کو میں نے نکاح نامہ، اس کا
انگریزی ترجمہ اور سعودی سفارت خانے کا ویزہ فارم دکھائے ۔ وہ تینوں کاغذات
لے کر دفتر کے اندر چلا گیا۔ تقریباً پانچ منٹ کے بعد واپس آیا تو اس کا
منہ ایسے لٹکا ہوا تھا جیسے رس بھرا آم درخت سے لٹکا ہو۔ اس نے جب بات کی
تو لگا کہ بس رو ہی دے گا’’ سوری میں اس دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتا
کیونکہ میں اسے پڑھنے سے قاصر ہوں۔ میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا ہے لیکن اس
سے اس لیے مدد نہیں ملتی کہ میں نے اردو نکاح نامے کی تصدیق کرناہے جسے میں
پڑھ نہیں سکتا۔‘‘
رابرٹ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کرمجھے غصے سے زیادہ اس پر ترس آیا۔ اسے
پشیمان دیکھ کر میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا: ’’کوئی بات نہیں آپ کاغذات
واپس کر دیں ‘‘اس نے حیران ہو کر کہا:’’ آپ یہ کاغذات واپس کیوں لے جانا
چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے تو میں انھیں یہاں چھوڑ
کر تو نہیں جا سکتا۔‘‘
وہ بولا: ’’لیکن ویزے کی شرائط کے مطابق اس ڈاکومنٹ کی تصدیق صرف پولیس کر
سکتی ہے۔ ورنہ آپ کو ویزا نہیں ملے گا۔‘‘
’’میں جانتا ہوں آفیسر، لیکن آپ تصدیق کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ‘‘ میں
سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے ۔ رابرٹ نے اسی معذرت
خواہانہ لہجے میں بولا: ’’میں نے تصدیق سے انکار اس لیے کیا ہے کہ مجھے
اُردو نہیں آتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل پولیس کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو اگر
بہت زیادہ جلدی نہیں ہے تو یہ کاغذات ہمیں دے جائیں۔ ہم کسی مستند اُردو
مترجم کو بلوائیں گے۔ اس سے پڑھوانے کے بعد اس کی تصدیق کردیں گے۔‘‘
’’اس میں کتنے دن لگیں گے؟ ‘‘میں نے دریافت کیا۔ ’’زیادہ سے زیادہ دو دن !
اگر آج مترجم نہ مل سکا تو کل تک ضرور بندوبست ہو جائے گا۔ اس کی تصدیق کے
بعد میں اپنے دستخط کرکے اورمہرلگاکر یہ کاغذات آپ کے گھرپہنچادوں گا۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں میں آپ کو فون نمبر دے دیتا ہوں۔ میرا دفتر یہاں قریب
ہی ہے۔ کاغذات کی تصدیق ہو جائے تو مجھے فون کرلیں میں آ کر لے جاؤں گا۔
‘‘میں نے کہا۔
رابرٹ نے کہا:’’بالکل ٹھیک ہے۔ کل تک آپ کو کاغذات مل جائیں گے۔ آپ کو جو
زحمت ہوئی ہے اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
پڑھے بغیر ہم کسی دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتے۔‘‘
اگلے روز صبح دس بجے کے لگ بھگ رابرٹ کافون آگیا۔ اس نے بتایاکہ میرے
کاغذات کی تصدیق ہو چکی ہے میں جب چاہوں آ کر انھیں لے جا سکتا ہوں۔ ایک
گھنٹے بعدمیں کاغذات اٹھانے پولیس اسٹیشن گیا تو ڈیوٹی پرموجود آفیسرنے
اپنے انچارج کو بلا لیا۔ انچارج نے معذرت بھی کی اور وضاحت کی کہ ہم کل
کاغذات کی کیوں تصدیق نہ کر سکے۔ مجھے علم تھا کہ مترجم ہر کام کی فیس لیتے
ہیں۔ میں نے جب فیس کی بابت پوچھا تو انچارج نے کہا: ’’ہاں مترجم کی فیس
ہوتی ہے جو پولیس اپنے فنڈ سے ادا کرے گی۔ کیونکہ ہم نے اسے بلایا تھا
لہٰذا اس کی فیس بھی ہم ہی ادا کریں گے۔‘‘میں شکریہ ادا کرکے جانے لگا تو
انچارج نے دھیرے سے کہا:
"Good Luck and have a safe trip to Mecca."
ویزے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی امام مسجد سے سرٹیفیکیٹ لیا جائے کہ
درخواست دہندہ مسلمان ہے۔ سڈنی کے ایک مولانا سے میری خاصی بے تکلفی ہے۔ ہم
نے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا: یہ سرٹیفیکیٹ کوئی بھی امام مسجد دے
سکتا ہے جو آپ کو جانتا ہو۔‘‘
’’کیا آپ بھی یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے مجاز ہیں؟ ‘‘میں نے پوچھا۔کہنے لگے:
’’جی ہاں میں بھی مجاز ہوں لیکن آپ اپنے علاقے کے مولانا سے ہی لے لیں تو
بہتر ہے۔‘‘
’’اس کی کوئی وجہ ہے؟ ‘‘میں نے دریافت کیا۔ دراصل ہمارے علاقے کی مسجد زیرِ
مرمت اور بند تھی۔ مولانا صاحب فرمانے لگے: ’’اس کی وجہ یہ ہے میں اپنے
گروپ کے لوگوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دیتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے پروگراموں
میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ پھر بھی آپ
کو اگر کوئی مسئلہ درپیش۔ ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں اور انشا اﷲ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔‘‘ میں نے مولانا کو
جواب دیا اور فون بند کر دیا۔مولانا نے مالی معاونت کو دیرینہ تعلق پر
ترجیح دی تھی ۔اب میں نے سعودی سفارت خانے سے فون ملایا۔ ان سے دریافت کیا
کہ یہ مطلوبہ سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز کون ہے۔ سعودی سفارت خانے نے جو فہرست
بھیجی اس میں ہمارے علاقے کی زیرِتعمیر مسجد کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے
والے میرے ایک دوست کا نام بھی شامل تھا۔ میں نے اُن سے رابطہ کیا تو انھوں
نے بلاتاخیر سرٹیفیکیٹ لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔ان مثالوں سے اندازہ ہو
جاتا ہے کہ آسٹریلیا میں ادارے کس طرح کام کرتے ہیں ۔ ان سے یہ بھی ثابت
ہوتا ہے کہ ہر کمیونٹی میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ جہاں
مخلوط معاشرہ ہوتا ہے وہاں ہر فرد اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔ اس کے ایک غلط
قدم سے اس کے ملک کا امیج متاثر ہو سکتا ہے۔اس لیے ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر
اُٹھانا چاہیے۔
|