تاریخ ولادت: 7 مارچ 1973
بمقام: مستاں روڈ تحصیل فتح پور ضلع بارہ بنکی اترپردیش
ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں ہوئی 1987 میں اپنے بڑے والد کے
ساتھ ممبئی آگئے آپ کا دور طفلی سے ہی شاعری کا شوق تھا جو ممبئی کی
سرزمین پر پورا ہوا زہے نصیب نامور شاعر سید عثمان صاحب جنکا تخلص عیش کنول
تھا انجم لکھنویؔ صاحب نے انھیں صدق دل سے اپنا استاد مانا عیش کنول صاحب
محتاج تعارف اسلئےنہیں تھے أپکے ان گنت نغمےمحمد رفیع صاحب نےگائے ہیں
موصوف کا ادبی ذوق دیکھ کر محترم عیش کنول صاحب نے کافی محبت و شفقت اور
قربت عنایت فرماکر مکمل توجہ فرمائی اور خاص بات یہ ہے کہ ان کےاکلوتےشاگرد
ہیں انہوں نے کسی اور کو شاگرد بنایا ہی نہیں
جناب انجم لکھنوی صاحب 1990 سے 2005 تک آپ کی قربت میں رہے 2005 میں عیش
کنول صاحب وصال فرماگئے اس نوجوان شاعر نےاس وقت تک اپنے فن کا جھنڈا
دنیائے ادب میں گاڑ دیا،اور آپ کی شاعری کا لوہا بڑے بڑے شعراء نے مان لیا
آپ کا مشہور زمانہ
شعر
یہ سوچ کے میں کوچئہ قاتل میں نڈر تھا
موسیٰ جہاں رہتے تھے وہ فرعون کا گھر تھا
آپ کی تلمیحی غزل منظر عام پہ آئی مشاعروں میں بہت پذیرائی ہوئی ، اللہ
رب العزت نے علم سخن میں بڑی پختگی اور عروج عطا فرمایا کہ موصوف کی بارگاہ
میں کثیر تعداد میں نو مشق شعراء آج بھی فیضیاب ہو رہے ہیں، جناب انجم
لکھنوی صاحب کی شخصیت اور اشعار محتاج تعارف نہیں
عزم محکم خرید سکتا ہوں
قوم کا غم خرید سکتا ہوں
ایک پیسے پہ یا نبی لکھ کر
سارا عالم خرید سکتاہوں
آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پہ پر أے خاص طور پر ضرب موسی ,اور بچوں
کیلئے :عظمت ماں: جیسا نایاب مجموعہ جو عوام میں کافی مقبول ہوا، اس کے بعد
اچانک اس نظم نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جس نے ڈاکٹر علامہ اقبال
کی یاد تازہ کردی اس نظم کا عنوان اِس عظیم شاعر نے :سوال فاسق جواب خالق:
رکھا جو بعد میں لوگوں نے شکوہ جواب شکوہ رکھ دیا ۔:سوال فاسق جواب خالق:
نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کا نام مجروح نہ ہوجائے اور
ان کی شان میں گستاخی تصور نہ کی جائے،اس نظم نے جناب انجم لکھنوی صاحب کو
اوج ثریا تک پہونچانے کا کام کیا۔ اس نظم کا ایک پہلا بند ملاحظہ فرمائیں
شکوہ
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدئہ پرنم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھوند ھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
خلدآدم کو، کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوئہ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
اس نظم میں تقریباً اڑتالیس بند ہیں،اس نظم کےلئے 2017 میں مستقیم انٹرکالج
گیانی پور ضلع سلطان پور اتر پردیش نے شکوہ جواب شکوہ نظم کو ایک کتابی شکل
دیکر بڑے عالیشان پیمانے پر اس کتاب کی رسم اجراء کی اورجناب انجم لکھنوی
صاحب کوڈاکٹر علامہ اقبال ایوارڈ دیتے ہوئے ثانئ علامہ اقبال کے خطاب سے
نوازا گیا۔جناب انجم لکھنوی صاحب نے اصناف سخن میں کوئی صنف چھوڑی ہی نہیں
حمد،نعت،منقبت،گیت،غزل رباعی۔ہزل،نوحہ،مرثیہ،قطع دیگر طبع آزمائی میں کوئی
کسر نہ چھوڑی،قارئ وقت نعت پاک کے اس حسین مطلع سے اندازہ لگائیں
شعر
مجھ پر نظر اسی لئے اہل نظر کی ہے
ہر چیز میرے گھر میں محمد کے گھر کی ہے
آپ کے اشعار ممدوح کی شان دوبالا کرتےہیں، جدید لب و لہجے میں آپ کی
غزلیں کافی مشہور ہیں
سورج کی شفق دامن آفاق میں گم ہے
نیرنگ شقی مظہر اشراق میں گم ہے
گہوارئہ تہذیب میں جو پل کے جواں ہو
گم اس میں ہے اخلاق وہ اخلاق میں گم ہے
مفہوم ازل آج کا انسان نہ سمجھا
عنوان اجل لذت تریاق میں گم ہے
جناب انجم لکھنوی صاحب کے اشعار میں سلاست،بانکپن اور جدت اور زبان وبیان
کی مٹھاس خوب محسوس ہوتی ہے جیسے کہ
شعر
جاتاہے سوئے چاند ارادہ بدل کے دیکھ
سورج میں کتنی آگ ہے سورج پہ چل کے دیکھ
آپ نے اپنی زندگی میں کافی نظمیں ،غز لیں تحریر کی عصر حاضر میں آپ کا ہم
عصر نہیں دیکھا،اتنا بلندپایہ شاعر ہونے کے باجود آپ کی انکساری سادہ لوحی
فی زمانہ نہیں دیکھی
قوم کو بیدار کرنے کا جذبہ موصوف میں کس درجہ موجود ہے اپ اس قطعہ میں
محسوس کرسکتے ہیں :
قطعہ
برق حملے سر افلاک بھی کر سکتی ہے
چاند تاروں کی قبا چاک بھی کر سکتی ہے
حوصلہ چاہئے حالات سے لڑنے کے لئے،
کام تلوار کا مسواک بھی کر سکتی ہے۔
قطعہ
اس کہانی کا موڑ کچھ بھی نہیں
، ہے طوالت نچوڑ کچھ بھی نہیں
وہ بہتر تھے جن سے پھیلا دین
، ہم بہتر کروڑ کچھ بھی نہیں
|