تحریر: ابو نثر
اخبار میں ایک خبر چھپی ہے جس کی سرخی ہے: ”سندھ کے اِسکولوں میں چینی زبان
پڑھانے کا حیرت انگیز فیصلہ“ فیصلہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو یہ
سرخی ہی حیرت انگیز ہے۔ اگر سات سمندر پار کی زبان انگریزی کو پہلی جماعت
سے لازمی قرار دیا جاسکتا ہے تو اپنے قریبی دوست اور ایسے ہمسائے کی زبان
پڑھانے کا فیصلہ کیسے حیرت انگیز قرار دیا جاسکتا ہی، جس کی دیوار سے ہماری
دیوار ملی ہوئی ہے اور جس کے رُخسار سے ہمارے رُخسار۔ خبر کی تفصیلات کے
مطابق: ”وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے زیر صدارت کراچی میں ہونے والے
ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 2013ءسے چھٹی جماعت سے چینی زبان کی
تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جو
طالب علم ابھی چینی زبان سیکھیں گے اُنھیں امتحانات میں اضافی نمبرز،
اِسکالرشپ اور بیرون ملک جانے کا موقع بھی دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے یہ
حکم دیا ہے کہ اِس حوالے سے طریقہ کار، قوانین اور تدریسی عمل کو حتمی شکل
دی جائے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سندھ کے پٹارو کیڈٹ کالج میں
بھی چھٹی جماعت سے چینی زبان کو لازمی قرار دیا جائے گا“۔ چینی زبان سیکھ
لینے کے بعد توآدمی سوائے چین کے اور کسی” بیرونِ ملک“ کا سوچ بھی نہیں سکے
گا۔ بہت سے بہت جاپانیوں کے سینے پر (چینی) مونگ دلنے کے لیے جاپان جاپہنچے
گا۔ مگر اس موقع پر جاپانی (ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہونے کے باوجود) اُس کا
جو حشر کریں گی، پھر وہ چین جانے سے بھی ڈرنے لگے گا: کہا: ”ہم چین کو
جائیں؟“ کہا: ”تم چین کو جاؤ“ کہا:”جاپان کا ڈر ہی!“ کہا:”جاپان تو ہوگا!“
چینی زبان پر یاد آیا کہ ہمارے صوبہ سندھ میں تو آج کل سارا مسئلہ ہی زبان
کا ہے۔ آج کل کیا؟ اب تو 2012ءبھی آیا چاہتا ہی....گویا یہ....چالیس برس کا
مسئلہ ہی، دوچار برس کی بات نہیں۔ جب 1972ءمیں پہلی بار سرکاری سطح سے
”اُردو، سندھی فساد“ کروایا گیا تھا۔ جب رئیس امروہوی کی ایک نظم نے شہر
بھر میں آگ لگادی تھی: ”اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ جب شہر میں
جابجا اُردونگر اور اُردو چوک قائم ہوگئے تھے۔ اور جب” شہدائے اُردو“کے
مزارات بنائے گئے تھے جن کا آج جھاڑ جھنکار کے سوا کوئی پُرسانِ حال نہیں....اور
جب ہر خون کی طرح یہ خونِ خاک نشیناں بھی رزقِ خاک ہوکر رائیگاں چلا گیا۔
”اُردو، سندھی لسانی فساد“ کے اِس مسئلے نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ اِن
مسائل میں.... اُردو بولنے والوں کو بناکر دیے جانے والے لیڈر الطاف حسین........
اور الطاف حسین کو بناکر دی جانے والی تنظیم ایم کیو ایم بھی شامل ہیں۔
ہمارا شہر کثیر اللسانی شہر ہے۔ یہاں اُردو بولی جاتی ہے۔ سندھی بولی جاتی
ہے۔ پشتو بولی جاتی ہے۔ پنجابی بولی جاتی ہے۔ بلوچی بولی جاتی ہے۔ کچھی
بولی جاتی ہے۔ مکرانی بولی جاتی ہے۔ گجراتی بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ برمی،
بنگالی اور فارسی بھی بولی جاتی ہے۔ لیکن اگر نہیں بولی جاتی تو بس: محبت
کی بولی نہیں بولی جاتی!
کوئی زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو حسبِ
حاجت دُنیا کی ہر زبان سیکھنی چاہیے تاکہ وہ دُنیا کی ہر زبان میں دین فطرت
اور محبت کا پیغام جاکر عام کرسکیں۔ لیکن ہمارے ہر بچے کی بنیادی ضرورت کی
زبانیں.... ہماری قومی زبان اُردو (جو عملاً پورے ملک میں رابطے کی زبان
بھی ہی).... ہماری دینی زبان عربی.... اور ہماری تمام پاکستانی زبانیں ہیں۔
لازمی انھی کو ہونا چاہیے۔ ہمارے جو بچے اضافی ثانوی زبانیں سیکھنا چاہیں
اُن کو سکھانے کے لیے ہماری پہلی ترجیح ہماری خواہر (یعنی سسٹر) زبانیں
ہونی چاہئیں۔ مثلاً فارسی، ترکی۔ اس کے بعد ہماری ہمسایہ علاقائی زبانیں:
چینی، ہندی، رُوسی، کورین، جاپانی وغیرہ۔ پھر اِس کے بعدکہیں سات سمندر پار
کی زبانوں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اسپینی، پرتگالی، لاطینی اور ڈچ وغیرہ
کا نمبر آتا ہے کہ اِن زبانوں کو جنھیں بھی سیکھنا ہے وہ تحصیلِ علم کے لیے
ضرور سیکھیں۔ لیکن خدارا ہمارے بچوں کے مُنھ میں اُن کی مادری زبان، قومی
زبان اور دینی زبان کے سوا کوئی پرائی زبان زبردستی گھسیڑکر اُن پر تاحیات
ظلم کی بنیاد نہ ڈالی جائے۔
قومی زبان کے بعد ہماری صوبائی زبان یعنی سندھی زبان.... ہمیں کہنے دیجیے
کہ.... پاکستان کی سب سے میٹھی زبان ہے۔ پاکستان کی میٹھی زبانوں میں بلوچی
زبان کا لہجہ بھی سندھی سے کم شیریں نہیں۔ (ایک سرائیکی زبان کو چھوڑ کر کہ
وہ سندھی زبان کی چھوٹی بہن ہے باقی دیگر تمام زبانوں والے اپنے اپنے لہجہ
میں مٹھاس گھولنے کی کوشش اگر آج سے شروع کردیں تو بیس پچیس برس میں اُن کی
زبانیں بھی میٹھی ہوجائیں گی)۔ اِس تناظر میں دیکھیے تو آخر ہمیں کیا مار
آئی ہوئی ہے کہ ہم چھٹی جماعت سے اپنے بچوں کو ”گٹ پٹ، گٹ پٹ“ کے ساتھ ساتھ
”چاؤ چاؤں“ کروانا بھی شروع کردیں؟ خود چینیوں نے، جن کے ملک ”عوامی
جمہوریہ چین“ کا قیام 1949ءمیں عمل میں آیا، مغربی اور غیرملکی علوم کو تو
اپنایا لیکن اِن علوم کو اپنانے کے لیے ان کے لسانی وسیلوں کو اپنانے سے
انکار کردیا۔ وہاں آپ کو انگریزی کے چینی مترجم کے سوا کوئی بھی، خواہ وہ
عام شہری ہو، کوئی قومی رہنما ہو یا کوئی انجینئر، ڈاکٹر، پروفیسر یا جج ہو،
غرض کہ کوئی بھی ہو، وہ پٹرپٹر انگریزی بولتا نظر نہیں آئے گا۔ اُن کی
جامعات تک میں سائنس اور آرٹس سمیت تمام مضامین چینی زبان میں پڑھائے جاتے
ہیں۔ اُن کی ترقی کا راز کسی استعماری زبان میں پوشیدہ نہیں۔ چین میں قومی
رابطے کی زبان کے طور پر مینڈرن (Mandarin) زبان رائج ہے۔ اگر وہاں مقامی،
صوبائی اور علاقائی زبانوں کا فساد کھڑا ہو تو ہزاروں چینی زبانیں ”چائیں
چائیں“ کرتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ فقط ”ایک قومی زبان“ نے یہ تاثر قائم
کررکھا ہے کہ ”ایک چینی زبان“ ہی اُن کی زبان ہے۔ جب کہ اُس وسیع الرقبہ
ملک میں بھی ہر دوکوس (چارمیل) کے بعد زبان بدل جاتی ہے۔ ہمارے گلگت کی
”شینا“ زبان بھی چین میں بولی اور سمجھی جاتی ہی، جب کہ چین کے صوبہ
سنکیانگ (دارالحکومت کاشغر) کی زبان فارسی آمیز ترکی زبان ہے۔ لیکن کسی ملک
کو متحد رکھنے والی واحد زبان ”محبت کی زبان“ ہوتی ہے۔
پوری خبر میں سے ہمیں وزیراعلیٰ سندھ کے زیرصدارت ہونے والے اجلاس کا فقط
ایک فیصلہ بہت پسند آیا۔ وہ ہے کیڈٹ کالج پٹارو میں چھٹی جماعت سے چینی
زبان کی تعلیم لازمی کرنے کا فیصلہ۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ہمارے صدر صاحب
بھی کیڈٹ کالج پٹارو کے فارغ التحصیل ہیں۔ اِس پس منظر میں وزیراعلیٰ کا یہ
خصوصی فیصلہ خاصا دور اندیشانہ اور عاقبت اندیشانہ نظر آتا ہے۔ اگر پٹارو
کے ریگزاروں سے پھر کوئی زرداری اُٹھ کھڑا ہو تو اُسے پہلے ہی چینی زبان
پڑھا پڑھا کر اُس سے ”چیں“ بُلوادیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جسارت |