ناریل کے درختوں کے نیچے۔پھر نئے سلسلے بن گئے ہیں

نجمہ عثمان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست

یوں تو ستمبر کا مہینہ کبھی کسی کے لیے ستمگر بھی کہلاتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس مرتبہ ہر طرح کی قیامت اگست ہی جھیل گیا، عید آئی تو وقتی طور پر خوف کے سائے کچھ کم ہوئے، لوگ گھروں سے سہمے سہمے نکل تو پڑے لیکن اجنبی علاقوں میں جانے سے کتراتے رہے۔ ایسے میں شہر کے ایک کونے میں مقیم ادیب، شاعر، ناشر، مدیر محترم معراج جامی کی جانب سے عندیہ دیا گیا کہ تین ستمبر 2011 کی شام سن 1960 سے برطانیہ میں رہائش پذیر شاعرہ، ادیبہ و افسانہ نگار محترمہ نجمہ عثمان کے نام ہوگی جو پچھلے چند ہفتوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔ نجمہ عثمان اپنی والدہ کی شدید علالت کی وجہ سے کراچی تشریف لائی تھیں، چند دن قبل ان کی والدہ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا! انا للہ و انا الیہ راجعون
 

image
دائیں سے۔معراج جامی، رضیہ سلطانہ، نجمہ عثمان، بیگم امیرالاسلام ہاشمی، امیر الالسلام ہاشمی، کلیم چغتائی

راقم السطور اپنی منزل پر پہنچا تو پانچ بجے کا وقت تھا اور تقریبا تمام شرکاءتشریف لا چکے تھے ۔ کمرہ کتابوں سے گھرا ہوا، کمر ٹکانے کو بھی کتابیں، پیش منظر میں بھی کتابیں اور پس منظر میں بھی کتابیں ہی کتابیں۔ جامی صاحب سے عرض کیا کہ کاغذات کو سہارا دینے کے لیے کچھ عنایت کیجیے تو ایک غیرمعمولی حجم کی کتاب ہی پیش کی گئی۔

معراج جامی صاحب نے محفل کا آغاز کیا اور اپنی نظمیں پیش کیں:

خوف آنے لگتا ہے
آدمی کی پستی سے
آؤ کوچ کرجائیں
بے ضمیر بستی سے
-----
ظالموں سے بڑھ کر بھی
ظالم ایک ہوتا ہے
وہ جو ظلم سہتا ہے
اس کو پہلے مرنا ہے
-----

دونوں بے وسیلہ ہیں
اس لیے محبت میں
عہد و پیماں کرتے ہیں
اور وسیلہ ملتے ہی

وہ بھی بھول جائے گی
میں بھی بھول جاؤں گا
سامعین کی جانب سے بھرپور داد ملتی رہی!

رضیہ سلطانہ صاحبہ کو دعوت کلام دی گئی، آپ ایک سرکاری افسر بھی ہیں، کسی نے کہا کہ کچی آبادی کی ڈائرکٹر ہیں، جامی صاحب نے ٹکڑا لگایا کہ " رضیہ کچی آبادی کی پکی ڈائرکٹر ہیں۔"

کاش اس شخص سے پیمان وفا ہوجائے
جو میری بات سنے اور خفا ہوجائے
جاکے منزل ہی پہ دم لیں گے میرے بیتاب قدم
میری پرواز طلب مثل صبا ہوجائے

اس کے بعد نثر و مزاح نگار جناب شجاع الدین غوری نے اپنا مضمون "بایو بجلی-ہائے اور بجلی" پیش کیا۔ انہوں نے اس مضمون کی شان نزول کے بارے میں شرکاءکو آگاہ کیا کہ بایو گیس پر ایک اخباری مضمون پڑھنے کے بعد ان کی طبیعت اس جانب موزوں ہوئی۔ اس مضمون میں گوبر وغیرہ کا بیان غالب تھا اور ہم نے دو ایک احباب کو ناک پر رومال رکھ کر اسے سنتے دیکھا!

جامی صاحب نے اگلا نام پکارا۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی، آپ بھی ایک سرکاری ملازم ہیں۔ ڈاکٹر نگار نے اپنی ایک خوبصورت نظم خودکلامی پیش کی جسے بہت پسند کیا گیا۔

اس کے بعد تھے حضرت کلیم چغتائی ، آپ شاعر و ادیب ہیں، آپ نے ایک طویل نظم پیش کی، عنوان تھا "ماں" --- ماں جیسی ہستی کا ذکر ہو تو دل گداز ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔
سننے والے سنتے رہے اور داد دیتے رہے!

حسن ابدال سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست محترم محمد ظہیر قندیل کراچی میں عرصہ دو ماہ سے مقیم ہیں، پرانی کتابوں کے اتوار بازار میں کئی مرتبہ ملاقات طے ہوئی مگر :
ًًٍٍ۔۔اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں تو کبھی ہم نہیں
ملاقات ہوئی تو جامی صاحب کے یہاں

ظہیر صاحب نے غزل پیش کی اور سننے والوں کے من کو بھا گئی:

دلوں میں دوریاں اتنی نہیں تھیں
کبھی مجبوریاں اتنی نہیں تھیں
میری دولت سہارا دے رہی ہے
کہ مجھ میں خوبیاں اتنی نہیں تھیں
میری سب بیٹیوں کی عید ہوتی
خریدیں چوڑیاں اتنی نہیں تھیں
یہاں مارے گئے آہو تھے جتنے
ملیں کستوریاں اتنی نہیں تھیں
میری پرواز ہے جتنی پرندے
تیری لاہوتیاں اتنی نہیں تھیں
 

image
دائیں سے: محمد ظہیر قندیل، حکیم عبدالسلام اسعد، راقم الحروف

شرکاءکی جانب سے فرمائش ہوئی کہ مزید کلام سے نوازا جائے ظہیر صاحب نےایک اور غزل پیش کی، دو شعر ملاحظہ ہوں:

ناریل کے درختوں کے نیچے
نئے سلسلے بن گئے ہیں
زندگی نے رلایا بہت ہے
اس لیے مسخرے بن گئے ہیں

موخر الذکر شعر (مقطع) پر حاضرین نے اسے ایک اچھوتا خیال قرار دیا!

اس کے بعد منشی احمد انور صاحب نے اپنا ایک مضمون پیش کیا، فرمانے لگے کہ یہ مضمون صاحب خانہ کے اعزاز میں لکھا گیا ہے، نظریں معراج جامی صاحب کی جانب اٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔
مضمون کا عنوان تھا " اردو ادب کا ایدھی"

جامی صاحب اپنے جابجا و برجستہ فقروں سے محفل کو دلچسپ بنائے ہوئے تھے، مذکورہ عنوان پر احباب نے دو ایک تیر پھینکے، ایک خاتون کی آواز آئی:
" بھئی اس عنوان پر ایدھی کا سرد خانہ یاد آگیا"

مضمون عمدہ تھا اور مزاحیہ پیرائے میں لکھا گیا تھا، چھوٹے چھوٹے فقرے خوب مزہ دے رہے تھے۔

حکیم عبدالسلام اسعد مظفر گڑھ سے تشریف لائے تھے۔ اہل ذوق ہیں، اردو سے محبت کرتے ہیں، ایک اخبار بھی نکالتے ہیں، انہوں نے ایک غزل پیش کی، احباب نے بھاری دل سے شہر کے دگرگوں حالات کا نوحہ سنا، چند مصرعے ملاحظہ ہوں:
تم چلو گے تو دیکھو گے ہر گام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے
صبح کے ملبوس پر، دامن شام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے
اب سر راہ یہاں کوئی کس سے ملے
ہیں سڑک پر بھی ملتے ہیں خطرے بڑے
ہم جہاں ہیں وہاں شارع عام پر
خون ہی خون ہے، خون ہی خون ہے

خواجہ رضی حیدر نے اپنی تین نظمیں پیش کیں، عنوانات تھے پاداش، بوسیدہ لفظ اور واپسی۔ سامعین نے دل کھول کر داد دی، افسوس کہ راقم الحروف انہیں خواجہ صاحب کے جلدی پڑھنے کی وجہ سے محفوظ نہ کرسکا، تقریب کے اختتام پر عرض کیا حضور اجازت ہو تو انہیں نوٹ کرلیا جائے، اس پر خواجہ صاحب نے ایک تبسم فرمایا اور کہا "رہنے دیجیے، میں نہیں چاہتا کہ ان کا حوالہ کہیں آئے، میں ان چیزوں سے دور رہتا ہوں۔"

اس موقع پر خامہ بگوش بے طرح سے یاد آئے لیکن اس کا ذکر ہم کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں! (یاد رہے کہ یو ٹیوب پر خواجہ صاحب کی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ اپنا کلام سناتے دیکھے جاسکتے ہیں)

تین عدد نظموں کے بعد خواجہ رضی حیدر کی پیش کی گئی ایک غزل کا خوبصورت مقطع ملاحظہ ہو:

میں نے پوچھا کہ کوئی دل زدگاں کی ہے مثال
کس توقف سے کہا اس نے کہ ہاں تم اور میں

نجمہ عثمان صاحبہ نے اپنا کلام پیش کیا، والدہ کا غم تازہ ہے، نظم کا عنوان تھا ‘پھیلے ہوئے ہاتھوں کی دعا‘، آواز بھرائی ہوئی رہی اور نظم کے آخر میں وہ رو پڑیں:

میں جب بھی وقت کی سنگینیوں کی زد میں آتی ہوں
کوئی کمزور لمحہ جب مجھے آنسو رلاتا ہے
سی ننھی سی خواہش
اور اپنی بے بسی سے خوف آتا ہے
تو جانے کون سی قوت میرے اندر سماتی ہے
میں اپنی ننھی منھی سی وہ خواہش بھول جاتی ہوں
بہت مضبوط ہر کر مسکراتی ہوں
مجھے کامل یقیں ہے
اس گھڑی بھی میری ماں
ہاتھوں کو پھیلا کر دعائیں مانگتی ہے!

نجمہ عثمان کی پیش کی گئی دو مزید غزلوں کے یہ اشعار دیکھئے:
زمانہ ساز ادا کا ہنر سمیٹ لیا
میرے لیے تو نہیں تھا مگر سمیٹ لیا
خیال و خواب کی دنیا کو پاش پاش کیا
وجود اپنا بکھیرا تو گھر سمیٹ لیا
---------

کس کو معلوم دکھ کے جنگل میں
کون سی شاخ کس شجر کی ہے
آئینے عکس سے ہوئے محروم
یہ عنایت بھی چشم تر کی ہے

بزرگ شاعر امیر السلام ہاشمی صاحب سے کون واقف نہیں، مزاحیہ شاعری کے میدان میں ایک معتبر نام ہیں، آپ کی مشہور زمانہ تخلیق " اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں" کہنے کو تو مزاحیہ پیرائے میں کہی گئی ہے لیکن درحقیقت اپنے اندر تلخ حقائق کو سموئے ہوئے ہے۔

ہاشمی صاحب کے کلام سے محفل کا رنگ بدلا، چہروں پر مسکراہٹ آئی جو اس شہر میں کچھ عرصے سے نایاب ہوچلی تھی:

اس بڑھاپے میں بھی ان حسینوں سے اکثر
بہت بات کرنے کو جی چاہتا ہے
مگر جب ہمیں کوئی کہتی ہے انکل
تو ڈوب مرجانے کو جی چاہتا ہے
-----

یوں تو صورت سے نہاہت واجبی سی لگتی ہو تم
اور سانحہ یہ ہے کہ اچھی واقعی لگتی ہو تم
مجھ کو ہے اردو میں ہے شدھ بدھ تم کو میں کیسے پڑھوں
اک حکایت در زباں پہلوی لگتی ہوں تم
------

جو ہوتے پیر تو چھو چھو کے دیکھتے اس کو
اس اس کے بعد دکھانے کو اس پر چھو کرتے
کبھی جو غیر سے وہ گفتگو کرتے
یہ آرزو تھی کہ پیچھے سے جاکے چھو کرتے

جگہ جگہ سے ہے مسکی ہوئی قبائے حیات
ذرا سی جان بھی ہوتی تو ہم رفو کرتے
(یہاں ہاشمی صاحب نے شرکاءسے کہا کہ یہ ذرا سنجیدہ بات ہوگئی)
-------

امیر الاسلام ہاشمی صاحب، راقم کو " اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں" کی ایک کاپی عنایت کی۔

ہاشمی صاحب نے یہ نظم اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھی تھی لیکن یہ من حیث القوم یہ ہماری موجودہ انفرادی و اجتماعی صورتحال کی عکاس ہے:

دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم، کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے ، مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا، محلوں کے پردوں کو اٹھاکر
شمشیر و سِناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سوگئی، طاؤس پہ آکر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کوہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو اب میں لاؤں کہاں سے

محفل اختتام کو پہنچی، چائے اور فواکہات سے شرکاءکی تواضع کی گئی، گروپ میں تصاویر بنوائی گئیں ۔۔گھر کی تیسری منزل سے لوگ اترتے گئے، مرکزی دروازے پر بھی ایک دوسرے سے تبادلہ خیال جاری رہا، اجنبی لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہوئے اور اجبنی نہ رہے، نجمہ عثمان صاحبہ کا حکم تھا کہ راقم السطور بھی تقریب میں شرکت کرے کہ اس سے قبل انٹرنیٹ پر فعال بزم قلم نامی گروپ کے توسط سے رابطہ استوار ہوا تھا، ان کا پیغام محترمہ عذرا اصغر نے پہنچایا تھا، اب مل لیے ہیں اور مزید ملاقاتوں کی بات ہورہی ہے، نجمہ صاحبہ مزید ایک ہفتہ کراچی میں قیام کریں گی، وہ میرے ساتھ پرانی کتابوں کے اتوار بازار جانا چاہتی تھیں، ادھر جناب معراج جامی نے آگاہ کیا کہ اس پروگرام میں وہ بھی شامل تھے لیکن نجمہ صاحبہ نے آج رات ڈیفنس سوسائٹی کا قصد کیا اور ان کے وہاں چلے جانے سے پروگرام متاثر ہوا! ۔۔

مظفر گڑھ والے حکیم عبدالسلام اسعد جنہوں نے محفل میں ’ خون ہی خون ہے’ سنائی تھی، مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ اگر فلاں علاقے کی طرف جائیں گے تو مجھے بھی لیتے چلیں۔ علاقے کا نام سن کر مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے خون ہی خون رقصاں نظر آتا ہے۔ دریں اثناءاسی طرف جانے والا کوئی مہربان حکیم صاحب کو آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور ان کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔

احباب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں!

معراج جامی صاحب کے گھر کے اوپر ناریل کے بے مثال درختوں کا طمانیت بخش سایہ ہے۔ محمد ظہیر قندیل کل صبح حسن ابدال جارہے ہیں، انہی کے الفاظ میں:

ناریل کے درختوں کے نیچے
پھر نئے سلسلے بن گئے ہیں
 

image
دائیں سے: محمد ظہیر قندیل، غفور اسد، کلیم چغتائی، امیر الالسلام ہاشمی، نجمہ عثمان، حکیم عبداسلام اسعد، خواجہ رضی حیدر
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280150 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.