میں شدت سے اُس دن کا انتظار کر رہا تھا جب مجھے پتہ چلے
کہ پہلوان باقی انسانوں سے مختلف کیوں ہے میں نے دو تین بار پہلوان سے اِس
بات کا ذکر بھی کیا تھا پہلوان تم ایک صابر شاکر انسان ہو ایسے انسان
معاشرے میں اور بھی مل جاتے ہیں لیکن تمہاری ذات شخصیت میں کوئی اور بھی
نیکی اچھائی ہے جسے تم نے چھپا رکھا ہے وہ نیکی اچھائی تمہیں دوسروں سے
مختلف کرتی ہے وہ کیا ہے تو پہلوان دونوں کانوں کا ہاتھ لگا کر آسمان کی
طرف ہاتھ جوڑ کر میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا پروفیسر صاحب بہت گناہ
گار سیاہ کار چھوٹا آدمی ہوں آپ سب سے پیار کرتے ہیں اِس لیے آپ کو ساری
دنیا ہی اچھی لگتی ہے وہ ہر بار میری بات کو ٹال جاتا اب میں نے فیصلہ کیا
پہلوان کی بیوی جو اب میری بہن بن چکی تھی اُس سے پوچھوں گا اُس سے پوچھا
تو اُس نے بھی ٹال دیا کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے لیکن میری چھٹی حس
بار بار دستک دیتی تھی کہ پہلوان عام انسانوں سے بہت مختلف ہے اِس دوران
کسی نے مجھے بوسکی کا سوٹ اور ریشمی تاروں والا کھُسہ تحفہ دیا تو وہ میں
نے اِس شرط اور درخواست پر پہلوان صاحب کو دیا کہ وہ یہ پہن کر میرے پاس
آئیں گے تو پہلوان نے کپڑے اپنی نم آنکھوں سے لگائے اور گلو گیر لہجے میں
بولا جناب آپ کے تحفے کا بہت شکریہ آپ سے وعدہ کر تا ہوں بیٹی کی شادی پر
پہن کر آپ کو دکھاؤں گا اب جب میں نے پہلوان صاحب کو تحفہ دیا تو اُس نے
خود پر فرض کر لیا کہ وہ بھی بدلے میں مجھے کچھ دے گا لہذا سردیوں کے آغاز
پر پہلوان اپنے لیے جب مغزیات سے بھر پور پنجیری بنواتا تو ساتھ میں دیسی
گھی کی خشک جلیبیاں تومیرے لیے بھی ضرور بنوکر لاتا کیونکہ میرا بچپن جوانی
اور تعلق بھی گاؤں سے ہے اِس لیے یہ میرے لیے بھی بہت قیمتی سوغات سے کم نہ
تھیں لہذا سردیوں میں اکثر دودھ جلیبی سے لطف اٹھا تا اِس دوران پہلوان کی
بیٹی کی شادی ہو گئی تو پہلوان صاحب نے مجھے نیک بزرگ سمجھنا شروع کر دیا
کہ دعاؤں سے بیٹی کی شادی اچھے گھر میں ہو گئی ہے اب پہلوان کی زندگی کے
سارے مسئلے حل ہو گئے تھے پرچون کی دوکان اور چند دوکانیں تھیں جن کا کرایہ
اتنا زیادہ آجاتا کہ دونوں میاں بیوی کی زندگی خوشگوار انداز سے گزر نے لگی
اب پہلوان صاحب ذکر اذکار کی طرف آئے تو لطف مزہ آیا لہذا اب میں اِن کو
مختلف اذکار کرا رہا تھا وہ جوش و خروش سے کر رہے تھے میرا بھی جب دل کرتا
دونوں کے گھر خوشبو لینے چلا جاتا میں کھوج میں تھا پھر وہ وقت آگیا جب
پہلوان کی نیکی اور راز کا مجھے پتہ چلا تو میری روح جھوم جھوم اٹھی اور
پکار اٹھا کہ پہلوان واقعی زندگی کا ولی ہے جس کے کردار کی خوشبو اُس کے
جسم سے پھوٹتی ہے پہلوان کیونکہ خالص خوراکوں دودھ مکھن گھی گوشت باداموں
انڈوں کا رسیا تھا بڑھتی عمر میں جب پرہیز کا وقت آیا تو پہلوان جو پرہیز
کے نام سے ہی واقف نہیں تھا اُس نے بد پرہیزی کو جاری رکھا پہلے شوگر پھر
بلڈ پریشر نے آگھیرا لیکن پہلوان اپنی روٹین پر مزید خوراک کھانے لگا جو
خطرناک ثابت ہوئی فشار خون نے چھلانگ لگائی تو دماغ پر حملہ آور ہو کر
چھوٹا سا فالج کا حملہ ہو گیا پہلوان کو تیز سر درد اور جھٹکے لگنے شروع ہو
ئے گر کر بے ہوش ہو گئے تو محلے والے نے ہسپتال لے گئے مجھے صبح پتہ چلا تو
فوری طور پر ہسپتال پہنچا جہاں پر پہلوان مختلف نالیوں اور ڈرپوں میں جکڑا
نظر آیا پہلوان ہوش میں آچکا تھا لیکن بایا ں بازوں اور چہرہ تھوڑے سے
فالجی ہو گئے تھے مجھے دیکھا تو آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تبسم پھیل گیا
میں حوصلہ دیا تو پہلوان نے آسمان کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے دم اور دعا کا
کہا ساتھ میں بیوی بھی پریشان تھی میں ڈاکڑوں سے ملا تو انہوں نے کہا
پہلوان صاحب با ل بال فالج اور برین کے پھٹنے سے بچے ہیں اب اِن کو پرہیز
کر نا ہو گا تین دن ہسپتال رہنے کے بعد پہلوان صاحب کو ڈسچارج کر دیا گیا
اب پہلوان صاحب سہارے سے چل اور واش روم جاسکتے تھے میں پہلوان صاحب کی
تیمار داری کے لیے اُن کے گھر گیا تو بیگم کی دیوانگی کا ایک اور منظر
دیکھا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو بیگم پہلوان صاحب کے پاؤں دھو رہی تھی
بڑے برتن میں گرم پانی ڈال کر پہلوان صاحب کے پاؤں اُس میں رکھ کر دھو رہی
تھی میں پہلوان صاحب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا پرہیز کی اہمیت کہ اب
آپ نے بد پرہیزی نہیں کرنی اِس دوران میں دیکھا جو پہلوان صاحب کی ٹانگوں
اور پاؤں پر گرم پانی ڈال رہی تھی جب اچھی طرح پاؤں دھو چکی تو اُس پانی کو
اپنے سر پر لگا یا اپنے چہرے کو دھو یاپھر اُس پانی کو گلاس میں ڈال کر پی
لیا اِس قدر عقیدت دیوانگی عشق میں حیران نظروں سے بیوی کو دیکھ رہا تھا کہ
کوئی بیوی اپنے خاوند کی اِس حد تک عزت احترام عشق کرتی ہو کہ اِس کا دھلا
پانی پی بھی لے میری کھوج کی حس پھر پھڑ پھڑانے لگی کہ کیا بات ہے جو بیوی
اِس قدر دیوانی اور عقیدت مند ہے اب میں پہلوان کی طرف منہ کر کے بولا
پہلوان جی آپ بہت خوش قسمت ہیں اتنی تابعدار نیک بیوی تو میں نے آج تک نہیں
دیکھی تو پہلوان مسکرا کر اﷲ کا شکر ادا کرنے لگے بہت دیر بعد جب میں واپس
آنے لگا تو پہلوان کی بیگم مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی تو ادب سے بولا بہن
جی آپ میرے اوپر ایک احسان کریں وہ بات بتائیں کہ آپ پہلوان صاحب کی اتنی
دیوانگی کیوں ہیں تو پہلی بار بیوی بولی سرکار میں آپ کو اگلی بار خط دوں
گی جس میں وہ نیکی او رراز ہو گا جو آپ بار بار پو چھتے ہیں کہ پہلوان عام
انسانوں سے مختلف کیوں ہے پھر میں چند دن بعد پھر پہلوان صاحب کے گھر بیٹھا
دونوں میاں بیوی کی محبت دیوانگی کے جلوے دیکھ رہا تھا واپسی پر بیوی نے
مجھے خط دیا جس میں میرے پچھلے کئی مہینوں کے سوال کا جواب تھا میں نے کار
میں بیٹھتے ہی خط کھول لیا لکھا تھا جناب میں پہلوان صاحب کے استاد پہلوان
کی بیٹی تھی جوان ہوئی تو بہت خوبصورت تھی محلے کے اوباش جوان نے رشتہ
بھیجا تو والد صاحب نے انکار کر دیا وہ بار بار کہتا رہا جب میرے گھر والے
نہ مانے تو اغوا کر کے میری عزت خراب کر دی اپنی ہو س پوری کر کے چھوڑ دیا
میری ماں اور باپ اِس صدمے سے زندہ لاشیں بن گئے دو ماہ بعد جب ماں کو میرے
حاملہ ہو نے کا پتہ چلا باپ کو بتایا باپ یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا ھارٹ
اٹیک ہوا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا پہلوان جی میرے باپ کے بیٹے بنے ہوئے
تھے میری ماں سے آکر ملے ماں نے جب میری اوپر ہونے والے ظلم کا بتایا تو
بہت پریشان ہو ئے اگلے ہی دن رشتہ لے کر آگئے اِس طرح میں شادی کر کے
پہلوان صاحب کی زندگی میں آگئی پہلوان صاحب نے پہلی ہی رات کہہ دیا یہ جو
بھی اولاد ہو گی اِس کو میں نام دوں گا پھر یہی ہوا پہلوان صاحب نے کسی کی
بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر پالا اُس کی شادی کی ہماری اولاد نہیں ہوئی
پہلوان جی نے یہ راز ساری زندگی بیٹی کو بھی نہیں بتایا میری آنکھوں سے
پہلوان صاحب کے لیے عقیدت کے آنسو جاری تھے اور پہلوان نے جب قدرت کے پھول
کو اپنا نام دیا تو خدا نے پہلوان کو خاص خوشبو عطا کردی جو ہر وقت پہلوان
کے جسم سے پھوٹتی رہتی ہے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔
|