جنوری ،والد محترم سے جدائی کا مہینہ

 ماں اور باپ کی یادوں سے تو میں کبھی غافل نہیں ہوا لیکن جیسے ہی جنوری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تووالد کی یاد ستانے لگتی ہے اور والد محترم کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات ایک فلم کی طرح میری آنکھوں میں اترنے لگتی ہے ۔ میں اسے اﷲ کا کرم ہی کہوں گاکہ اس نے زندگی میں مجھے اس قدر آسانیاں عطا فرمائی ہیں جن کا عشر عشیر بھی والد مرحوم کی زندگی میں موجود نہ تھا ،پھر بھی انہوں نے جس دلیری سے اپنی زندگی گزاری بلکہ ہمیں بھی ہر لمحے ممکن حد تک تحفظ فراہم کیے رکھااس پر میں انکو خراج تحسین پیش کیے بغیرنہیں رہ سکتا۔ میں جن دنوں کی بات کررہا ہوں اس زمانے میں پینے اور نہانے کا پانی بھی گھر وں میں میسر نہیں تھا بلکہ گھر کے ایک فرلانگ کے فاصلے پرریلوے پلیٹ فارم کے ساتھ ہی ایک کنواں تھا۔کنوؤں سے چمڑے کے بوکوں کے ذریعے پانی نکال کراپنے کندھوں پر اٹھا کرگھر لانا پڑتا تھا جوسرد موسم میں اس قدر ٹھنڈا ہوتا کہ اسے دیکھ کر ہی دانت بجنے لگتے ۔ یہی وجہ تھی کہ سردیوں میں نہانے کے لئے ہمیں ریلوے کے اسٹیم انجن کی آمد کا انتظار کرنا پڑتا ،جب آٹھ دس دنوں بعد ریلوے کے اسٹیم انجن سے گرم پانی ملتاتوہم اس گرم پانی کو بالٹیوں میں بھر کر خوشی خوشی گھر لے آتے اور گھر کے سبھی افراد اسی گرم پانی سے غسل کرتے۔اس زمانے میں سردی اتنی پڑتی کہ گھاس پر جما ہوا کورا بھی صاف دکھائی دیتا تھا بلکہ والدہ کی آنکھ بچا کر ہم گھاس پر جمی ہوئی برف کو اٹھا کر ایک دوسرے کو مارتے تو دل خوش ہو جاتا ۔ والدہ کو جب ہماری اس حرکت کا علم ہوتا تو وہ بھاگی بھاگی اس مقام پر پہنچتیں جہاں ہم برف سے کھیل رہے ہوتے۔وہ ہمیں زبردستی پکڑ کر گھر لے آتیں اور جلتے ہوئے چولہے کے پاس بٹھا دیتیں۔اس وقت شاید لنڈے کی جرسیوں اور جیکٹوں تک ہماری رسائی نہ تھی ۔ہم لاہور سے 90کلومیٹر کے فاصلے ایک چھوٹے سے قصباتی ریلوے اسٹیشن پر قیام پذیرتھے۔ جہاں میرے والد کیبن مین کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے ۔ریلوے اسٹیشن واں رادھا رام ( جو آجکل حبیب آباد ) کے نام سے مشہور ہے ، ریلوے ٹریک کے دونوں جانب اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر اجاڑ بیابان میں دو بلند و بالا کیبنیں ہوا کرتی تھیں ، جس میں لوھے کے لیوروں کے ساتھ کانٹے اور سگنل منسلک ہوا کرتے تھے ،جیسے ہی کسی ٹرین کی آمد کا سلاٹر بجتا تو کیبن مین کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ وہ کانٹے سیٹ کرکے سگنل ڈاؤن کرے ۔ گرمیوں میں تو پھر گزارا ہوجاتا تھا لیکن سردیوں میں لوھے کی تاریں اور کانٹے بھی انسانوں کی طرح سکڑ جاتے تھے جنہیں سیٹ کرنے اور سگنل ڈاؤن کرنے کے لیے عام دنوں کی نسبت ڈبل طاقت لگانا پڑتی تھی ۔چاروں طرف اندھیروں میں ڈوبی ہوئی کیبن پرایک لالٹین نما بتی روشنی فراہم کرتی تھی ۔ رات بارہ بجے جب میرے والد ڈیوٹی پر جانے لگتے تو اکثر مرتبہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے ۔ وہاں پہنچ کرمجھے لکڑی کے پھٹوں پر لیٹا دیتے ۔ پھٹوں کے نیچے سے بھی یخ بستہ ہوا آتی اور کیبن کی کھڑکیوں کے اکثر شیشے بھی ٹوٹے ہوئے تھی جہاں سے شاں شاں کرتی ہوئی سردیوں کی ٹھنڈی ہوا جب گزرتی تو انسان کو برف کی طرح جما دیتی ۔والد صاحب مجھے اس لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے کہ جب صبح کے چار بجتے تو میرے جسم پر تیل کی مالش کرکے مجھے ڈنڈ بیٹھکیں نکالنے کے لیے کہتے ۔درحقیقت وہ مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے ۔ان دنوں پہلوانوں ک) کشتیوں کا ہرطرف چرچا تھا اور کبڈی کے میچ ہوا کرتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر کھیتوں میں گیڈروں کی ہوکیں اور جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں جب فضا میں بلند ہوتیں تو خوف میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا لیکن قدرت نے میرے والد کو شیر کا دل عطا کررکھا تھا نہ وہ جنگلی جانوروں سے ڈرتے تھے اور نہ کسی بھوت پریت سے انہیں خوف آتا ، کئی مرتبہ ان سے سامنا بھی ہوا تو پسپائی کا سفر مخالف فریق کو ہی طے کرنا پڑتا۔ میرے والد شیروں کی طرح ہر خطرے کا مقابلے کرنے کے لیے ہر لمحے تیار نظر آتے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ والدہ سے بھی زیادہ مجھے اپنے والد سے پیار تھا، میں اس وقت زیادہ خوش ہوتا جب والد میرے ساتھ ہوتے ، مجھے نیند بھی والد کے بغیر نہیں آتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ لاہور گئے تو یہاں انہیں دو تین دن رکنا پڑا ۔ میں نے وہ ساری راتیں جاگ کر گزاریں۔ نہ خود سویا اور نہ کسی کو سونے دیا ۔والدہ میری اس کیفیت سے واقف تھیں ۔ایک مرتبہ والدصاحب مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر بذریعہ ٹرین لاہور لے آئے ۔ زندگی میں پہلی بار جب لاہور شہر دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہی گئیں۔لاہور مجھے اتنا خوبصورت دکھائی دیا جیسے یہ کسی جنت ارضی کا حصہ ہو ۔والد صاحب نے لنڈے اور نولکھا بازار کی بھی مجھے سیر کرائی تھی اورمجھے پانچ روپے کی ایک پتلون بھی دلوائی جسے میں اعزاز کے ساتھ پہناکرتا تھا بلکہ اپنے دوستوں کے سامنے شو بازی ضرور کرتا ۔اس وقت لاہورشہر مجھے سونے کا شہر دکھائی دیا تھا جہاں کی سڑکیں صاف او شفاف شیشے کی طرح تھیں ۔ جب والٹن ریلوے اسٹیشن پر ٹرین رکی تھی تو والٹن ائیرپورٹ سے اڑتا ہوا جہا ز میں نے زندگی میں پہلی باردیکھا تھا اور واپس جاکر اپنے سکول کے دوستوں کو بتا یا کہ میں نے لاہور میں پرندوں کی طرح ایک جہاز کو اڑتا ہو ادیکھا ہے میری یہ بات سن کر وہ بھی حیران ہوتے لیکن لاہور ان کی پہنچ سے بہت دور تھا۔اب مستقل طور پریہاں رہنے سے وہ تصور تبدیل ہوچکا ہے۔یہ 1964 کی بات ہے۔ لاہور میں آئے ہوئے اب ہمیں58سال ہوچکے ہیں لیکن والد صاحب ہمیں شعور کی دنیا میں لاکر خود 19جنوری 1994ء کواس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والد اور والدہ کی تربیت ، ایثار اور دعاؤں کی وجہ سے ہوں۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.