پشاور دھماکہ ! صاحب ! بس اب کھلے عام تحقیقات کرلیں.


صاحب!
برا مت مانئیے گا اگر کچھ سخت لکھ دوں ، میری بات سخت ہوگی لیکن سچ ہوگی اور سچ بہت مشکل سے برداشت ہوتی ہیںاور کڑوی بھی ہوتی ہیں اس لئے میٹھی چائے پی لیں.. اس لئے صاحب ! گزارش ہے کہ برداشت کریں کیونکہ اب ہم میں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رہی..
پشاور پولیس لائن میں ہونیوالے مسجد کے اندر دھماکے میں اب تک 90 کے قریب افراد شہید ہوگئے ہیں ، یہ خالی 90 کا ہندسہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی بیویاں بھی ہیں تو تعداد دگنی ہو جاتی یعنی 180 ہو جاتی ہیں اگر ماں باپ ہوں تو یہ تعداد 360 تک پہنچ جاتی ہیں اور ان 90 شہداءکی دو دو بچے بھی ہوں تو یہ تعداد 540 تک پہنچ جاتی ہیں . صاحب! یہ ایک اوسط گھرانے کی بات کررہا ہوں حالانکہ ان میں ایسے بھی ہیں جن کے بچے کئی ہیں لیکن 540 افراد کے ساتھ ظلم کس نے کیا. میں الحمد اللہ یہ بھی مانتا ہوں کہ ان کی موت اللہ تعالی نے ایسی ہی لکھی تھی شہادت کا عظیم درجہ ان کے حصے میں آیا تھا اور اس پر بھی یقین ہے کہ اللہ تعالی علم رکھنے والا ، سننے والا اور حکمت والا ہے ان کے بچوں کو اللہ تعالی رزق بھی دے گا انہیں سب کچھ اللہ دے گا لیکن !
صاحب!
کسی بھی واقعے کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک میں نقصان کس کا ہوتا ہے اور فائدہ کس کو جاتا ہے ، اسی طرح واقعہ جہاں پر ہوتا ہے اس میں دو چیزیں تحقیقات میں بنیادی ہوتی ہیں اور اصل تحقیقات بھی اسی پر منحصر کرتی ہیں کہ آیا جو واقعہ ہوا ہے اس میں اسی جگہ کے جہاں پر واقعہ پیش آیا ہو کسی بندے کاہاتھ ہوگا یا پھر اس جگہ پر تعینات کرنے والے لوگ نااہل ہونگے. یہ دو وہ عوامل ہیں جس پر تحقیقات ہوتی ہیں تو صاحب !مجھے پولیس والے برے بھی لگتے ہونگے ان میں کچھ لوگ ظالم بھی ہونگے لیکن خیبر پختونخواہ کی پولیس وہ فورس ہے جس نے ہر جگہ پردہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور یہ شہداءکی فورس ہے یہ خیبر پختونخوا پولیس کی شان ہے کہ ابھی تک کوئی بھی اہلکار خواہ وہ کہیں بھی شہید ہوا اسے گولی کمر پر نہیں لگی بلکہ انہوں نے سینے پر گولیاں کھائی ہیں میں انہیں میں نااہل کہہ دوں تو یہ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ یہ نااہل نہیں . کیونکہ خیبر پختونخواہ پولیس ڈیوٹی میں بھی کسی کا لحاظ نہیں کرتے .کیونکہ یہ تو وہ فورس ہے جو ہر ایک کو جانتے ہوئے بھی ہر کسی سے شناختی کارڈ طلب کرتی ہیں اور پھر ایسی جگہ یعنی پولیس لائن پر جہاں پر جانے کیلئے پانچ جگہوں پر تلاشی اور کارڈ دکھانا پڑتا ہے وہاں پر خودکش کا پہنچ جانا سمجھ میں نہ آنیوالی بات ہے!
صاحب .بات ایک ہی بچتی ہے کہ کیا کوئی اس میں اندر سے ملوث ہے یہ وہ سوال ہے جو پشاور کا ہر ایک باسی پوچھ رہا ہے ، کیونکہ خودکش کا پہلے صف میں پہنچ جانا بھی عجیب ہے ، صف میں پہلے وہی پہنچتا ہے جو وہاں پر زیادہ اٹھتا بیٹھتا ہوں ، یا پھر مسجد میں زیادہ وقت گزارتا ہوں.کوئی انجانا شخص مسجد کے پہلے صف میں بہت کم ہی پہنچتا ہے اور وہ بھی پولیس لائن کے مسجد میں. ویسے!
صاحب!
آپ کی بھی عمر گزر گئی ہے سات کلو بارود سے 90 افراد کی شہادت ، بات بنتی ہیں کہ شائدبال بیئرنگ استعمال کی ہونگی لیکن چھت کا بیٹھ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ سات کلو بارود نہیں بلکہ یہ بارود کچھ زیادہ ہی تھا اور اتنا زیادہ تھا کہ اس نے 90 شہید کردئیے اور پوری چھت بٹھا دی جسے 1122والے ساری رات مشینوں سے کاٹتے رہے ہیں کیونکہ چھت بہت زیادہ مضبوط ہے ..اس سے پتہ چلتا ہے کہ صاحب!یہ خودکش بھی نہیں کیونکہ سات کلو بارود چلیں پولیس کے جیکٹ میں ڈال کر لی جاسکتی ہیں لیکن اس سے زیادہ ڈالکر لے جانا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ موومنٹ نہیں ہوسکتی .اور پھر جس طریقے سے چھت گری ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زیادہ بارود تھی اور اسے کسی گاڑی میں لایا گیا ہے یا پھر کسی بھی چیز میں. اس کا پتہ لگانا آسان بھی ہے کیونکہ اسی پولیس لائن میں ہر جگہ پر کیمرے لگائے گئے ہیں اور اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کون آیا اور کون واردات کرگیا.
صاحب!
ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی بڑھ رہی ہیں یا پھر پاکستان میں کوئی بھی مشکل صورتحال پیش آتی ہے تو پھر دھماکے شروع ہو جاتے ہیں ، یہ کچھ سمجھ میں نہ آنیوالی بات ہے ، کیا دہشت گرد سپر ہیومن ہیں ، یا انہیں پیراشوٹ کے ذریعے یہاں تک لایا جاتا ہے یا پھر یہ راتوں رات کو اگ جاتے ہیں اور واردات کر جاتے ہیں اور ہم روتے رہتے ہیں ، صاحب ! اس شہر کے باسی آرمی پبلک سکول کے 142 خاندانوں کو نہیں بھولے ، نہ ہی پیپل منڈی سے سوئیکارنو چوک میں ہونیوالے دھماکوں کو، نہ ہی اس شہر کے ایسی گلی کو بھولے ہیں جہاں پربم دھماکہ نہ ہوا ہوں ، نہ ہی متنی کے جنازوں میں دھماکے اور نہ ہی چارسدہ ، شبقدر ، بنو ں ، مردان ، ڈی آئی خان سمیت صوبے کے کسی بھی حصے میں ہونیوالی دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو اور نہ ہی اس میں شہید ہونیوالے افراد کو خواہ وہ سیکورٹی فورس کے ہوں ، پولیس کے ہوں یا پھر عام افراد ہوں کیونکہ درد تو سب کو یکساں ہوتا ہے ، .
صاحب !
پولیس لائن پشاور میں ہونیوالے اس اندوہناک واقعے نے پورے پشاور شہر کی باسیوں کو رلا دیا ہے ہر مسجد میں دعائیں ہوئی ہیں بلکہ پورے پاکستان میں دعائیں کی گئیں لیکن ایک بات کہ اس واقعے کی اگر تحقیقات صحیح طریقے سے نہیں ہوئی اور اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ، انہیں سامنے نہیں لایا گیا تو پھر صاحب اس بہادر فورس کے جوانوں میں مزید دکھ سہنے کی ہمت نہیں ، وہ اپنے استعفی پیش کرینگے کیونکہ وہ اسے "لوبہ یعنی کھیل "سمجھتے ہیں تو صاحب! مزید کھیل نہیں !اب اوپن تحقیقات کریں ..


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422221 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More