آزاد کشمیر کے مالیاتی وسائل اور اخراجات، حقیقت کیا ہے؟
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی آزاد کشمیر کی موجودہ ' پی ٹی آئی' حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے ترقیاتی فنڈ میں کمی کرنے کی وجہ سے آزاد کشمیر حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔آزاد کشمیر کی ' پی ٹی آئی' حکومت کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے لئے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن پھر پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں،اس لئے آزاد کشمیر کو پچھلے سال کی طرح28ارب روپے ہی دیئے جائیں گے،اس کے بعد پھر28ارب میں سے کٹوتیاں کر کے26ارب روپے فائنل کئے گئے،آزاد کشمیر حکومت کے تقریبا 5ارب روپے کے بقایہ جات تھے، وہ انہوں نے کاٹ لئے اور باقی بچے 21ارب روپے،اس میں سے مزید20فیصد سیلاب کے حوالے سے کٹوتی کی گئی،یوں یہ رقم17-18ارب رہ گئی،یہ سترہ، اٹھارہ روپے جو آزاد کشمیر حکومت کو ادا کرنے تھے، اس سترہ، اٹھارہ ارب میں سے 13ارب روپے اب تک آزاد کشمیر حکومت کو دیئے جانے تھے جبکہ اب تک صرف 8ارب روپے دیئے گئے ہیں،آج کی تاریخ تک جو مزید5ارب دیا جانا تھا ، وہ بھی نہیں دیئے گئے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کا مزید کہنا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے5ارب20کروڑ روپے محکمہ ہائی ویز کو ادائیگی کرنی ہے اور یہ کہ اس وجہ سے آزاد کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کی ادائیگیاں التوا کا شکار ہو گئی ہیں اورحکومت نئے منصوبے شروع کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔
آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتیں آزاد کشمیر کی ' پی ٹی آئی ' حکومت کے موقف سے متفق نہیں ہیں اور اسے ' پی ٹی آئی' حکومت کی نا اہلی، بد انتظامی اور سیاسی مخالفت قرار دیا جا رہا ہے۔یعنی آزاد کشمیر کی ' پی ٹی آئی ' حکومت اپنی سیاسی جنگ کو آزاد کشمیر کے مالی معاملات کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔آزاد کشمیر کے سابق سپیکر اسمبلی، مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر اورآزاد کشمیر اسمبلی کے سنیئر رکن شاہ غلام قادر نے کہا ہے کہ انہی دنوں حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت کو تقریبا ساڑھے چار ارب روپے فراہم کئے ہیں لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کی ' پی ٹی آئی ' حکومت بلا جواز واویلا کر رہی ہے۔یوں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان کی وفاقی حکومت نے آزادکشمیرکے مالیاتی فنڈزمیں کمی کی ہے یافنڈزروک لیے ہیں ، اس بارے میںحقائق کیاہیں اور یہ کہ آزادکشمیرکاترقیاتی اورغیرترقیاتی بجٹ ، آزاد کشمیر کی آمدنی اور آزاد کشمیر کے بجٹ کا پاکستان کے صوبوں سے تقابلی جائزہ۔
آزاد کشمیر میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں 13ویں ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کو مالیاتی استحکام حاصل ہوا جبکہ اس سے پہلے آزاد کشمیر حکومت سٹیٹ بنک سے لئے جانے والے اوور ڈرافٹ پر چلتی تھی اور کئی بار حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔13ویں ترمیم سے پہلے انکم ٹیکس سمیت جملہ ٹیکس آزاد جموں وکشمیر کونسل وصول کرتی تھی اور اس کااسی فیصد آزاد کشمیر کو منتقل ہوتا تھا۔ اس مد میں کونسل سالانہ تقریبا دس ،ساڑھے دس ارب روپے آزاد کشمیر حکومت کو اقساط میں دیتی تھی اور اس میں اکثر ہونے والی تاخیر کی وجہ سے آزاد کشمیر کو اپنے لازمی اخراجات کے لئے سٹیٹ بنک سے سود پر روپیہ ادھار لینا پڑتا تھاجس کی وجہ سے آزاد کشمیر حکومت کو ہر سال قرضوں کے سود کی مد میں 25کروڑ دینا پڑتا تھا۔آزاد کشمیر کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو اکہ جب راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں قائم سابق مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے جاتے وقت18ارب سرپلس چھوڑے، اس میں سے پانچ ارب آزاد جموں وکشمیر بنک کو شیڈولڈ کرنے کے لئے مخصوص کئے گئے۔یوں سابق مسلم لیگی حکومت کے جاتے وقت آزاد کشمیر کے خزانے میں 13ارب روپے موجود تھے۔
آزاد کشمیر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کا بجٹ تقریبا 163ارب روپے ہے جس میں سے 135ارب روپے غیر ترقیاتی اور 28ارب روپے ترقیاتی بجٹ ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے 163 ارب روپے کے وسائل میں سے124 ارب روپے وفاقی حکومت جبکہ باقی انتالیس ارب روپے کا بندوبست ریاستی حکومت کے ذمہ ہے۔اگر اس حوالے سے آزاد کشمیر کی آمدن کو دیکھا جائے تو آزاد کشمیر حکومت کے کل163ارب روپے کے اخراجات کے لئے سب سے زیادہ یعنی تقریبا74 ارب روپے گرانٹس کا تخمینہ لگایا گیاہے۔آزاد کشمیر کی دوسری بڑی آمدن ٹیکس وصولیاں ہیں جس کا تخمینہ تقریبا37ارب روپے ہے۔ان میں بھی ملازمین کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹنے سے25ارب روپے اور آزاد کشمیر سے تقریباساڑھے آٹھ ارب روپے سیلز ٹیکس سے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔آزاد کشمیر حکومت کی تیسری بڑی آمدنی منگلا ڈیم کی وجہ سے سستی بجلی خرید کر عوام کو مہنگے داموں فروخت کرنے سے تقریبا ساڑھے بیس ارب روپے کا منافع ہے۔
عرصہ دراز سے آزاد کشمیرحکومت کے بجٹ کے تقریبا تین حصے غیر ترقیاتی اخراجات اور ایک حصہ ترقیات اخراجات پر خرچ ہوتا ہے اور اسی حوالے سے آزا د کشمیر حکومت کو ماضی میں''11قلی12میٹ'' کا خطاب بھی مل چکا ہے۔آزاد کشمیر حکومت کا بجٹ تقریبا 163ارب روپے ہے جس میں سے 135ارب روپے غیر ترقیاتی اور 28ارب روپے ترقیاتی بجٹ ہے۔یعنی28ارب روپے خرچ کرنے کے لئے135ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے نئے سرکاری محکمے، ادارے قائم کرتے ہوئے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے اقدامات بھی کئے ہیں۔یہاں ہم آزاد کشمیر کے غیر ترقیاتی اخراجات کی مدات پہ بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مالی سال2021-22کے غیر ترقیاتی میزانیہ کے تحت تنخواہیں و الائونس پر 67ارب17کروڑ82لاکھ 24ہزار ۔پینشن پر 23ارب ۔انرجی چارجز( واپڈا کو بجلی استعمال کی ادائیگی)۔6ارب روپے۔فوڈ سبسڈی پہ 2ارب80کروڑ59لاکھ50ہزار۔مہاجرین گزارہ الائونس 1 ارب1کروڑ 22لاکھ25ہزار۔ ملازمین کے لئے ادویات پہ66کروڑ 39لاکھ 64ہزار۔خریداری پائیدار اشیائ20کروڑ(بیس کروڑ کی خریداری پہ24فیصد ٹیکس کٹتا ہے)۔ریپئر و مینٹینینس 38کروڑ 40لاکھ۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں کے برعکس آزاد کشمیر ایسا علاقہ ہے جس کی حکومت کو پاکستانی صوبوںکی نسبت آبادی اور رقبے سے قطع نظر نسبتا بہتر طو رپر فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں۔ستیاب وسائل کو اگر صوبوں اور خصوصی علاقوں میں تقسیم کو دیکھا جائے تو ازاد کشمیر کووفاق کی جانب سے بہتر فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔وفاقی وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق رقبے کے لحاظ سے آزاد کشمیر سے پندرہ گنا اور آبادی کے لحاظ سے پچیس گنا بڑے صوبہ پنجاب کو ازاد کشمیر سے محض سولہ گنا زیادہ فنڈز دستیاب رہے ہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے آزاد کشمیر سے گیارہ گنا بڑے صوبہ سندھ کی نسبت آزاد کشمیر کو اس کا دسواں حصہ دستیاب ہوتا ہے۔صوبہ خیبرپختونخواہ آزاد کشمیر سے آبادی اور صوبے کے لحاظ سے تقریبا آٹھ گنا بڑا ہے مگر 'کے پی کے' کی نسبت ازاد کشمیر کو لگ بھگ آٹھواں حصہ ملتا ہے۔وفاقی وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران چوالیس لاکھ ابادی والے تیرہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے والے خطے آزاد کشمیر کیلئے113ارب روپے فراہم کئے گئے تو سوا کروڑ ابادی کے ساتھ تین لاکھ سینتالیس ہزار کلومیٹر مربع والے رقبے کے صوبہ بلوچستان کو374 ارب روپے دستیاب تھے۔ یوں بلوچستان کو آزاد کشمیر کی نسبت تین گنا زیادہ وسائل فراہم کئے گئے۔وفاقی حکومت کے مطابق پاکستان کے شدید مالیاتی بحران اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باوجود رواں مالی سال کیلئے بھی آزادکشمیر کے ترقیاتی کاموں کیلئے تیس ارب روپے سیزائد کے فنڈز مختص کئے ہیں۔اس طرح حکومت پاکستان آزاد کشمیر کو آبادی اور رقبے سے قطع نظراپنے صوبوں کے نسبت زیادہ فنڈز فراہم کرتی ہے جس کا آزاد کشمیر کے خطے میں خوشحالی اور ترقی کے حوالے سے اہم ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کی وزارت خزانہ کے اعدا د و شمار کے مطابق گزشتہ دس سال میں پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کو 391ارب روپے کی گرانٹس فراہم کی گئی ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال میں 74ارب35کروڑ روپے کا تخمینہ ہے جبکہ مالی سال2021-22میں 59ارب 26کروڑ، مالی سال2020-21میں26ارب79کروڑ،2019-20میں54ارب89کروڑ،2018-19میں49ارب،2017-18میں40ارب،2016-17میں31ارب 76کروڑ،2015-16میں32ارب29کروڑ،2014-15میں24ارب27کروڑ،2013-14میں24ارب60کروڑ اور2012-13میں21ارب50کروڑ روپے مختلف اقسام کی گرانٹس کی شکل میں دی گئیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی ' پی ٹی آئی' حکومت پاکستان کی سیاسی صورتحال اورآزاد کشمیر میں اپنی کمزور سیاسی پوزیشن کے تناظر میں پاکستان کی وفاقی حکومت کے فنڈز کے معاملے کو سیاسی پوائنٹ سکورننگ کے طورپر استعمال کرتے ہوئے پروپیگنڈہ مہم میں مہم میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم تنویر الیاس ایک بار بھی پاکستان کی وفاقی حکومت کے عہدیداران سے ملنے نہیں گئے جبکہ ماضی میں آزاد کشمیر کی سابق حکومتوں کے کے وزیر اعظم، وزراء اور اعلی افسران آزاد کشمیر کے مختلف امور و مسائل کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کے علاوہ متعلقہ وفاقی وزارتوں کے عہدیداران سے ملتے رہے ہیں۔اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی طرح کے منفی انداز سیاست کی طرح آزاد کشمیر میں تحریک انصاف حکومت کے وزیر اعظم بھی بلاجواز طور پر پاکستان کی وفاقی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اطہر مسعود وانی 03335176429 |