آر ایس ایس کے پیرو مرشد مادھو سداشیو راو گولوالکر نے
کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی جماعت کا سر سنگھ چالک(سربراہ) کبھی
سبھاش چندر بوس کے نقشِ قدم پر چلنے کی دہائی دے گا ۔ یہ کیفیت اس وقت ہوگی
جب اس کے پاس دنیا بھر کے وسائل اور اقتدار کی کنجی ہوگی۔ کسی بھی نظریاتی
تحریک کے لیے اس سے زیادہ بدبختی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ مخالفین کو
اپنے لیے نمونہ( آئیڈیل )بنانے پر مجبور ہوجائے۔ یہ بات دنیا جانتی ہے
ڈاکٹر ہیڈگیوار نے کانگریس سیوا دل سے الگ ہوکر آر ایس ایس قائم کی اور
سبھاش چندر بوس کانگریس کے صدر تھے۔ 1922 میں نیتاجی سبھاش چندر بوس نے
سوراج پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور دوسال بعد وہ جیل بھیج دیئے گئے ۔ اس
کے بعد تین سال تک قید و بند کی صعوبت اٹھائی۔ اس عرصہ میں 1925 کے اندر
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت آر ایس ایس نیتا جی
کےنقشِ قدم پر چلنے کے بجائے انگریزوں کی ہمنوا بن گئی ۔ سبھاش چندر بوس
جیل سے 1927 میں رہا ہوئے تو آر ایس ایس موجود تھی پھر بھی وہ کانگریس میں
شامل ہوکر1938میں صدر منتخب ہوئے۔ یعنی جب وہ زندہ تو مخالفت اور اب بی جے
پی کی خاطر بنگال جاکر سبھاش بابو کی جینتی ابن الواقتی ہے یا نظریاتی
دیوالیہ پن ؟ اس کا فیصلہ مؤرخ کرے گا۔
دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کی شکست صاف نظر آ رہی تھی۔ایسے میں سبھاش
بابو نے ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا نعرہ بلند کیااور 12
جنوری 1941 کو ڈرامائی طور پر غائب ہو گئے۔ اس کے 10 ہفتے بعد سی آئی ڈی کو
چکمہ دے کر برلن پہنچ گئے۔ اس سفر پر جانے کے لیے سبھاش بابو نے ناگپور کا
راستہ نہیں اپنایا بلکہ پشاور پہنچ کراپنے فارورڈ بلاک کے ساتھی میاں اکبر
شاہ کے گھر میں قیام کیا۔ اکبر شاہ نے نیتا جی ایک مسلمان پٹھان کے بھیس
میں محمد ضیا الدین کے نام سے کابل بھیجا۔ 28 جنوری کو سبھاش بابو دو دن
پیدل چلنے کے بعد کابل پہنچ گئے ۔۶؍ فروری کو نیتاجی جرمن سفارت خانے میں
داخل ہو ئے تو ان کا خیر مقدم کیا گیا اور انھیں ماسکو کے راستے ہوائی جہاز
کے ذریعے برلن پہنچا دیا گیا۔برلن میں ان کی ملاقات ہٹلر سے ہوئی اوراس کی
تجویز پر انھوں نے جرمنی کی سرزمین پر فری انڈیا سینٹر اور فری انڈیا آرمی
قائم کی۔آزاد ہند فوج قائم ہوئی تو اس وقت گرو گولوالکر کی عمر 32سال تھی
۔ وہ اگر اس میں شامل ہوتے تو موہن بھاگوت کو اپنا ہیرو مستعار نہ لینا
پڑتا۔
ایک برس بعد نیتا جی آبدوز کے ذریعے تین ماہ کا سفر کر کے جرمنی سے جاپان
پہنچ گئے اور جرمنی کی مدد سے جاپان کی قید میں موجود ہزارہا ہندوستانی
فوجیوں پر مشتمل ایک فوج تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ سوال یہ ہے کہ اس
دوران سنگھ کیا کررہا تھا؟ اس نے ان کے نقشِ قدم کیا پیش رفت کی؟ سبھاش
چندر بوس کی نازک وقت میں حمایت کرنے والے میاں اکبر شاہ کے نام لیوا مسلم
اگر اپنے آپ ان سنگھیوں سے برتر سمجھتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ مگر سر
سنگھ چالک موہن بھاگوت اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں
کہ انہیں یہ خیال اپنے دل سے نکالنا پڑے گا ہم صحیح ہیں باقی غلط ہیں ۔ اس
سچائی سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سبھاش چندر بوس کے ساتھ آزادی کی جنگ
لڑنے والے مسلمان صحیح تھے اور ہندوتوا نواز انگریزی سامراج کےوفا دار غلطی
پر تھے ۔
بھاگوت کے خیال میں مسلمان ایسا سوچتے ہیں کہ ہم الگ ہیں، اس لیے الگ ہی
رہیں گے، ہم سب کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے ۔ سبھاش چندر بوس جس وقت
انگریزی سامراج سے لڑ رہے تھے تو ملک کا مسلمان ان کے ساتھ تھا مگر سنگھ
پریوار الگ تھلگ تھا ۔ اس بابت ثاقب سلیم نے قابلِ تعریف تحقیقی کام کیا
ہے۔ وہ لکھتے ہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران جب نیتا جی جرمنی پہنچے تو برلن
میں حیدرآباد کا ایک ہندوستانی طالب علم عابد حسین سفرانی تحریک سے وابستہ
ہوکر ان کا سیکرٹری اور ترجمان بن گیا ۔ جرمنی سے جاپان تک تین ماہ طویل
آبدوز کے سفر میں وہ تنہا ہندوستانی ان کے ساتھ تھا جبکہ ساورکر انگریزی
سرکار کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے تھے۔ آگے چل کر فوج کے ایک افسر کی
حیثیت سے عابد نے نیتا جی کے ذاتی مشیر کے طور پر کام کیا اور برما کے محاذ
پر لڑائیوں کی قیادت کی۔ یہ وہی عابد حسین سفرانی تھے، جنہوں نے’’جئے ہند‘‘
کا مشہورنعرہ دیا ۔اس وقت بھارت ماتا کی جئے بولنے والوں کو سانپ سونگھا
ہوا تھاوہ برطانیہ کے یونین جیک کو سلامی دے رہے تھے۔
مسلمانوں سب کے ساتھ رہنے کی تلقین کرنے والے موہن بھاگوت کو معلوم ہونا
چاہیے کہ جنرل موہن سنگھ کے ساتھ کرنل حبیب الرحمان آزاد ہند فوج کے ہیڈ
کوارٹر میں انتظامیہ کے انچارج تھے اور انہوں نے برما میں ایک مہم کی قیادت
بھی کی۔ 21 اکتوبر 1943 آزاد ہند سرکار بنی تو انہیں وزیر بنایا گیا اور
فوج کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا ۔ 18؍ اگست 1945 کو نیتا جی کی آخری پرواز
میں وہ ان کے ساتھ تھے۔میجر جنرل محمد زمان خان قیانی چیف آف دی جنرل اسٹاف
تھے۔ آزاد ہند فوج کے پہلے ڈویژن کا کمانڈر انہیں مقرر کیا گیا تھا۔ نیتا
جی نے اپنی آخری معلوم پرواز کے وقت جنرل قیانی کو چیف آف آرمی کا چارج دیا
تھا۔کرنل احسان قادرنے آزاد ہند فوج کے تیس ہزار سے زائد رضاکار افراد کی
سربراہی کی تھی۔ 14 اپریل 1944 کو آزاد ہند فوج کے بہادر گروپ کے کمانڈر
ملک نے منی پور کے موئرنگ میں قومی ترنگا لہرایا تھا۔ کرنل شوکت علی ملک کو
آزاد ہندوستانی سرزمین پر پہلا قومی پرچم لہرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نیتا
جی نے انہیں تمغہ سردار جنگ سے نوازا جو کہ آزاد ہند فوج کی اعلیٰ ترین
فوجی اعزاز تھا ۔
انگریزوں کے ساتھ جنگ کے دوران پچاس سے زائد فوجیوں کو آزاد ہند فوج کے
بہادری کے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں تمغہِ سردارِ جنگ سے کرنل ایس اے
ملک میجر، سکندر خان، میجر عابد حسین، کیپٹن تاج محمد، تمغہ ویر ہند
لیفٹیننٹ اشرفی، لیفٹیننٹ عنایت اللہ نوازے گئے ۔ تمغہ بہادری حولدار احمد
دین، حولداردین محمد، حولدار حاکم علی، حولدار غلام حیدر شاہ کے حصے میں
آیا ۔تمغہ ٔ شترو ناش کا حقدار حولدار پیر محمد،حولدارحاکم علی،نائیک فیض
محمد، سپاہی غلام رسول، نائیک فیض بخش کو سمجھا گیا۔ سند بہادری کے لیے
حولدار احمد الدین، حولدارمحمد آذر گلاب شاہ منتخب ہوئے۔ بشیر احمد اور
منور حسین آزاد ہند سرکار میں وزیر تھے۔ عزیز احمد خان اور عنایت قیانی،
آزاد ہند فوج کی تین میں سے دو رجمنٹ کے کمانڈر تھے۔ ویت نام میں انڈیا
انڈیپنڈنس لیگ کے سربراہ نذیر احمد نیتا جی پر حملے کا دفاع کرتے ہوئے مارے
گئے۔ ایسے مسلمانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے آزاد ہند فوج میں شامل
ہوکر ملک کو آزاد کرانے جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس بناء پر ان کے
وارثین کو اپنے آپ پر فخر کرنے کا حق ہے۔ اس سے اگر موہن بھاگوت کو
پریشانی ہوتی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے کیونکہ سنگھ نے ثقافتی چولہ
اوڑھ کر خود آزادی کی جنگ سے الگ کرلیا تھا۔
موہن بھاگوت کی طرح نیتا جی سبھاش چندر بوس مسلمانوں اور ہندوؤں میں تفریق
کے قائل نہیں تھے کیونکہ ان کی پرورش مسلمانوں کے درمیان ہوئی تھی ۔ وہ
اپنی نامکمل سونح عمری ’این انڈین پلگریم‘میں اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہم جس
کوارٹر میں رہتے تھے وہاں زیادہ تر مسلمان تھے اور ہمارےبیشتر پڑوسی مسلمان
تھے‘‘۔ کاش کے موہن بھاگوت کو بھی ایسا ماحول ملتا تو وہ مسلمانوں کی بابت
غلط فہمیوں کا شکار نہ ہوتے۔نیتا جی کہتے تھے کہ ہندو مسلم دشمنی برطانوی
پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ "ہندو اور
مسلمان کے درمیان فرق جس کے بارے میں آج کل ہم بہت زیادہ سنتے ہیں، ایک
مصنوعی تخلیق ہے، یہ ایک قسم کا آئرلینڈ کے کیتھولک-پروٹسٹنٹ تنازعہ، جیسا
ہے جس میں ہمارے موجودہ حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ انگریزوں کی آمد سے قبل
ہندوستان میں سیاسی نظم و نسق کو بیان کرتے ہوئے مسلم حکمرانی کی بات
کرنا(موازنہ کرنا) ایک غلط فہمی ہے۔تاریخ مجھے اس بات سے آگاہ کرتی ہے۔
چاہے ہم دہلی کے مغل بادشاہوں کی بات کریں یا بنگال کے مسلمان بادشاہوں کی،
ہم دیکھیں گے کہ دونوں صورتوں میں انتظامیہ ہندو اور مسلمان مل کر چلا رہے
تھے‘‘۔ سنگھ پریوار اس وقت انگریزی سامراج کو مضبوط کرنے کی خاطر ہندو مسلم
کی لڑائی کی سازش کر رہا تھا اورسنگھ اس کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ آج کود اپنی
بی جے پی کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے وہی کررہا ہے۔
سبھاش چندر بوس کی قیادت میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب نے مل کر ایک
مشترکہ مقصد یعنی ملک کی آزادی کے لیے شانہ بشانہ جنگ کی ۔یہی وجہ ہے کہ
آزاد ہند فوج کے جنگی قیدیوں میں کیپٹن پی کے سہگل اور لیفٹیننٹ جی ایس
ڈھلون کے ساتھ جنرل شاہ نواز خان کا نام سرفہرست تھا ۔ ان کی پیروی کرنے
والوں میں پنڈت نہرو کے ساتھ آصف علی موجود تھے۔ اس لیے موہن بھاگوت کو یہ
کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی ہندو یا کمیونسٹ بھی
اپنے کو الگ سمجھتا ہے تو اسے وہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ مسئلہ عام ہندو اور
کمیونسٹ یا مسلمان کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ کسی بیجا احساس برتری یا کمتری
کا شکار نہیں ہیں ۔ سنگھ پریوار خود کو برتر سمجھتا ہے اور جب دیکھتا ہے
لوگ بجا طور ایسا نہیں سمجھتے کیونکہ اس نے جنگ آزادی میں کوئی اہم کردار
نہیں ادا کیا تو اپنے مخالفین کو خراجِ عقیدت پیش کرکے اپنے دامن پر لگے
داغ دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ احساسِ جرم کا شکار سنگھ پریوار اپنی اصلاح
کرنے بجائے دوسروں کو اوٹ پٹانگ نصیحت کرتا ہے۔ موہن بھاگوت کا نیتاجی
سبھاش چندر بوس کی جینتی منانا نرا پاکھنڈ ہے ۔ ملک کا عام آدمی تویہ
سمجھتا ہےلیکن یوم جمہوریہ کے موقع پر یہ بات ان لوگوں کو سمجھانا چاہیے جن
کی آنکھوں پر فسطائیت کا زعفرانی پردہ پڑا ہوا ہے۔
|