نتیش کا ماسٹر اسٹروک :ذات کی بنیاد پر مردم شماری

مودی سرکار کو این آر سی سے جتنی محبت ہے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے اتنی ہی نفرت ہے۔ بہار کی موجودہ حکومت نے اس رائے شماری کا آغاز کرکے مودی سرکار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری نتیش کمار کا وہ ماسٹر اسٹروک ہے کہ انتخاب میں اگر یہ کارڈ چل گیا تو بہار سے بی جے پی کا سپڑا صاف ہو جائے گا۔ حکومتِ بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا مرحلہ 7 جنوری سے شروع ہوکر 21 جنوری تک چلا۔ اس فیصلے سے بوکھلا کرہندوتوا نواز تنظیموں نے تین الگ الگ عرضیاں سپریم کورٹ میں دائر کردیں۔ اس معاملہ میں نالندہ ضلع کی ’ہندو سینا‘ کےایک شخص نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے بہار حکومت کے 6 جون 2022 کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ریاستی حکومت کے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت سے عدالت عظمیٰ نے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے بہار حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں پر کہا کہ عرضی گزاروں کو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے اپنے فیصلے میں بہار حکومت کو جو راحت دی وہ نتیش سرکار کی بہت بڑی جیت ہے ۔

سپریم کورٹ نے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی یعنی پی آئی ایل کو پبلسٹی انٹرسٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ ہدایات کس طرح جاری کر سکتے ہیں کہ کسی خاص ذات کو کتنا ریزرویشن دیا جائے؟ ججوں نے کہا کہ ہم ایسی ہدایات جاری نہیں کر سکتے۔ ان عرضیوں پر غور نہیں کیا جا سکتا۔ بنچ نے حکم دیا کہ تمام عرضیوں کو واپس لی ہوئی تصور کرتے ہوئے مسترد کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ قانون میں مناسب اقدام تلاش کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا مرحلہ 21 جنوری کو ختم ہوچکا ہے۔ دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوگااور 31 مئی تک بہار حکومت نے اس مردم شماری کے کام کومکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے ۔ پنچایت تا ڈسٹرکٹ سطح پر سروے میں مقام، ذات پات، افرادِ خاندان کی تعداد، ان کے پیشے اور سالانہ آمدنی کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں گی۔ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے بعد معاشی موقف کا سروے کیا جائے گا۔ بہار کے بعد اگریہ سلسلہ پورے ملک کے ان صوبوں میں شروع ہوجائے جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں ہے تو وہ اس کو روک نہیں سکے گی ۔
ذات پات کی بنیاد پر رائے شماری کا جِن سب سے پہلے مہاراشٹر میں اس وقت بوتل سے باہر آیا جب صوبائی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی۔ اس میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مرکزی حکومت سے او بی سی کمیونٹی کا ڈیٹا طلب کیا گیا ۔ ضلع پریشد اور ضلع پنچایت انتخابات میں او بی سی سماج کے لیے 27 فیصد ریزرویشن دینے کے لیے یہ اعدادو شمار طلب کیےگئے تھے۔ اس عرضی کے حوالہ سے مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں کہا تھاکہ 2011 کی مردم شماری کے پیش نظر حکومت کے پاس ہر ذات کی گنتی کے بارے میں کوئی ٹھوس ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ حکومت نے تسلیم کیا تھاکہ سال 2011 میں کی جانے والی سماجی معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری غلطیوں سے پُر ہے۔مرکزی حکومت نے واضح کیا کہ سابقہ مردم شماری کا ڈیٹا کسی سرکاری استعمال کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ریاستی حکومتیں اسے ذات سے متعلق معاملے میں استعمال نہیں کر سکتیں۔ مرکز کا کہنا ہے کہ اس اعدادو شمارمیں نقائص ہیں، نیز، کئی ذاتوں کا ایک ہی نام سے اندراج مختلف مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

مرکزی حکومت چونکہ اس معاملہ میں پردہ پوشی کرنا چاہتی تھی اس لیے اس نے 2021 کی مردم شماری میں بھی ذات کے حصے کو شامل کرنے کی مخالفت کردی ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ سے ڈیٹا میں گڑبڑی ہو سکتی ہے۔ملک میں مردم شماری کے حوالے سے طویل بحث کے دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے اپنا موقف واضح کیا اور مردم شماری میں او بی سی ذاتوں کی گنتی کو ایک طویل اور مشکل کام بتاتے ہوئے کہا کہ 2021 کی مردم شماری میں ذاتوں کی گنتی نہیں کی جا سکے گی۔ فروری 2020 میں مہاراشٹر کی اسمبلی کے اندر اس معاملے میں بحث کے دوران سابق وزیر چھگن بھجبل نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1930میں بھی اتنی ذاتیں موجود تھیں مگر اس بنیاد پر رائے شماری ہوگئی تو اب کیوں نہیں ۔ پچھلی ایک صدی میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ بہت ساری سہولتیں فراہم کردی ہیں اس لیے مرکز کا یہ جواز بچکانہ لگتا ہے ۔
سابق نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے اس وقت ایک کل جماعتی وفد کے وزیر داخلہ سے ملاقات کی تجویز رکھی تھی ۔حزب اختلاف کے رہنما اور موجودہ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اس سے اتفاق کیا تھا مگر سابق وزیر جیتندر اوہاڑ نے آگے بڑھ کر یہ تجویز پیش کی تھی چونکہ رائے شماری کا کام مہاراشٹر کا عملہ کرے گا اس لیے اسمبلی میں قرار داد منظور کرکے ایک کالم بڑھانے کا فیصلہ کردیا جائے ۔ اس سے پورے ملک میں ایک مثال قائم ہوجائے گی ۔ جیتندر اوہاڑ کی اس اقدامی تجویز کی کانگریس کے وجئے ویڈٹی وار اور آزاد امیدوار آشیش جیسوال نے تائید کردی مگر بی جے پی کے رکن اسمبلی یوگیش ساگر نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے نامناسب بتایا۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ بی جے پی زبانی سطح پر تو مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کرتی مگر عملاً اس کے خلاف ہے۔ آگے چل کر کورونا آگیا اور پھر سرکار بدل گئی اس لیے بات وہیں رک گئی لیکن بہار کے کل جماعتی وفد نے اس مسئلہ پر وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اپنا مطالبہ پیش کیا اور اب جبکہ بہار میں یہ مردم شماری شروع ہوچکی ہے تو جیتندر اوہاڑ نے اپنا مطالبہ پھر سے دوہرایا۔

سپریم کورٹ کے اندر مودی حکومت کی جانب سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی مخالفت ان تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے لیے ایک دھچکا تھا جو اس کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے پی ایم مودی سے ملاقات کر کے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرچکے تھے لیکن جب بی جے پی نے اپنا موقف بدلا تو یہیں سے جے ڈی یو کے ساتھ تعلقات میں دراڑ پڑگئی اور اس کے نتیجے میں آگے چل کر ان کی مخلوط سرکار ٹوٹی نیز آر جے ڈی کے ساتھ مل کر نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ لوہیا کے نظریات کی حامل یہ دونوں جماعتیں کسی زمانے میں ایک ساتھ تھیں۔ نتیش کمار کی آرزومندی اور لالو یادو کی اقربا پروری ان کے درمیان دیوار بن گئی لیکن ذات پات کی بنیاد پر رائے شماری کا مدعا اور نتیش کمار کے سیاسی وجود کو لاحق خطرات دونوں جماعتوں کو پھر سے ساتھ لے آیا ۔

ویسےیہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ پچھلی سرکار کےٹوٹنے سے قبل گزشتہ سال 2 جون کو کابینہ میں ہوگیا تھا۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو اپنی سابقہ حلیف جماعت بی جے پی کی جانب سے ابتداء میں مخالفت کا سامنا تھا اس کے باوجود انہوں نے یہ تجویز پیش کی اور بالآخراقتدار کی خاطر بی جے پی نے بھی اس سے اتفاق کرلیا۔ اپوزیشن راشٹریہ جنتادل تو اس کی شروع سے حامی رہی ہے ۔ اس طرح بہار میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے اتفاق ہوگیا ۔مذکورہ فیصلے سے بہار کو اس بابت پہلی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا ۔وطن عزیز میں عرصۂ دراز سے پسماندہ طبقات کا ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری پر اصرار ہے تاکہ ملک کی آبادی میں ہر طبقہ کی حصہ داری واضح ہوجائے اور ان کا تناسب سامنے آئے۔ اس حقیقت کے سامنے آنے کے خیال سے سنگھ پریوار کی نانی مر جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کس طرح مٹھی بھر نام نہاد اعلیٰ ذات والوں نے بیشتر سرکاری عہدوں اور وسائل پر قبضہ کررکھا ہے ۔ اس سے ان کے فریبی ہندوتوا کا بھی پول کھل جائے گا کہ جن پسماندہ طبقات کا وہ مذہب کے نام پرجذباتی استحصال کرکے انہیں مسلمانوں سے لڑاتے ہیں ان کو کس طرح تمام شعبہ ہائے حیات میں حاشیہ پر پھینک دیا گیا ہے۔

بی جے پی اعلی ٰذات والوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے ۔ اس کے بیشتر اہم اور بڑے عہدوں پر وہی طبقہ مسلط ہے۔ وہ پسماندہ طبقات کے ووٹ سے حکومت کرتی ہےاس لیے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی کھلی مخالفت نہیں کرپاتی لیکن در پردہ اس میں ٹال مٹول کرتی ہے ۔ 2019 میں قومی انتخاب کے پیش نظر مودی سرکار نے 2018 میں پسماندہ طبقات کی مردم شماری کا وعدہ کیا تھا لیکن اب عدالتِ عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کرکے اپنے وعدے سے مکر گئی ہے ۔2024 کے انتخاب سے قبل اس مسئلہ پر ملک بھر میں مرکزی حکومت کے خلاف تحریک چل سکتی ہے اور اس سے پسماندہ طبقات میں ناراضی پھیل سکتی ہے۔ بی جے پی کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ اگر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوجاتی ہے تو اس کا دوسرے طبقات کے ووٹ بینک پر اثر پڑسکتا ہے ۔زعفرانیوں کا یہ اندیشہ بیجا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی بنیاد پر بی جے پی کے پسماندہ رائے دہندگان اس سے برگشتہ ہوسکتے ہیں اور وہ اقتدار سے محروم ہوسکتی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450998 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.