بھارت جوڑو یاترا: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

 بھارت جوڑو یاترا آخر اپنی منزل سری نگر کے لال چوک میں بخیر و عافیت اختتام پذیر ہوئی ۔ یہ پیدل سفر 135 درمیان میں پورا ہوا اس میں 9دن کا وقفہ تھا ۔ یاترانے کل 4080 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور یہ تمل ناڈو کے کنیا کماری سے شروع ہوکر کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش ، تلنگانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان ،ہریانہ، اترپریش، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں کشمیر سے گزرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچی ۔ اس نے جملہ 75 ضلعوں میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑے جن میں جموں کشمیر کے 10 ضلع شامل تھے۔ اس یاتر ا میں کل 116 دن پیدل چلا گیا اور ہر روز اوسط 23 یا 24 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا۔ راہل گاندھی نے اس دوران 12 مقامات پر بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ 100 سے زیادہ کارنر میٹنگس کیں۔ 13 عدد پریس کانفرنس کرڈالیں جبکہ وزیر اعظم مودی آٹھ سالوں میں ایک کی ہمت بھی نہیں جٹا سکے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام و خواص سے کس قدر بڑے پیمانے پر رابطہ کرکے نفرت چھوڑنے اور محبت بڑھانے کا پیغام دیا گیا۔اس صبر آزما سفر کی بابت یہی کہا جاسکتا ہے کہ؎
نفرت سے محبت کو سہارے بھی ملے ہیں
طوفان کے دامن میں کنارے بھی ملے ہیں

بھارت جوڑویاترا کو اپنے طے شدہ منصوبے سے ایک دن قبل انتظامیہ کی اجازت نہیں ملنے کے سبب مجبوراً منقطع کرنا پڑا۔ قومی پرچم لہرانے سے ایک دن پہلے یعنی سنیچر سے پورا علاقہ بیریکیڈس کے ذریعہ سیل بند کردیا گیا تھا۔ آس پاس کی سبھی دوکانیں بندکروا کر بھاری تعداد میں پولس نفری تعینات کردی گئی تھی ۔ راہل گاندھی کو حفاظتی دستوں کی گاڑی میں لال چوک پہنچایا گیا۔ ان کے ساتھ بہادر بہن پرینکا گاندھی اور پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے ، پارٹی کے ترجمان اور یاترا کے اہم ترین ساتھی جئے رام رمیش ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عوامی نیشنل کانفرنس کے صدر مظفر شاہ موجود تھے۔ غلام نبی آزاد کو آج اپنی پارٹی کا چھوڑنے کا جو صدمہ ہوا ہوگا اس کا بیان مشکل ہے۔ قومی پرچم لہرانے کے بعد یاترا کا اختتام ہوگیا ۔ اس کے علاوہ اگلے دن کانگریس پارٹی کےمولانا آزاد روڈ پر واقع دفتر پرپرچم لہرانے کی تقریب اور اس کے بعد شیر کشمیر اسٹیڈیم میں جلسہ عام رد کروادیا گیا ۔ اس جلسہ میں حزب اختلاف کی کئی جماعتوں کے قائدین کی شرکت متوقع تھی۔

بھارت جوڑو یاترا کے دوران بی جے پی کی قلابازیوں کا سلسلہ آخری لمحہ تک جاری رہا۔ اس کی ابتداء میں بدنام زمانہ آئی ٹی سیل نے ایک کے بعد ایک نو جھوٹ پھیلائے جن میں سب سے بڑی دورغ گوئی یہ تھی کہ راہل گاندھی نے سوامی وویکا نند کو خراج عقیدت نہیں پیش کیا۔کانگریس نے جب اس کی ویڈیو جاری کی تو سچے کا بول بالہ اور جھوٹے کا منہ کالا ہوگیا۔ اس کے بعد تمسخر اڑانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے بات نہیں بنی ذاتی حملوں کا آغاز ہوا اور ٹی شرٹ تک کو موضوع بحث بنایا گیا ۔ تمل ناڈو اور کیرالہ کے بعد کرناٹک میں دال آٹے کا بھاو پتہ لگنے کی پیشنگوئی کی گئی کیونکہ وہاں بی جے پی کی سرکار تھی مگر خیر مقدم کرنے والے ہزاروں لوگوں کو دیکھ کر زعفرانیوں کا آٹا گیلا ہوگیا۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے وزرائے اعلیٰ کو کانگریس بڑی پرخاش ہے اس لیے مشکلات کا امکان تھا لیکن وہ اندیشے بھی غلط نکلے ۔ یاترا کامیابی و کامرانی کے ساتھ وہاں سے بھی گزرگئی ۔

مہاراشٹر کے اندر ساورکر سے متعلق راہل گاندھی کے بیان سے بی جے پی نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی تھیں ۔ اسے امید تھی کہ عوام کا سخت ردعمل سامنے آئےگا اور مہاراشٹر وکاس اگھاڑی سے شیوسینا الگ ہوجائے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ شے گاوں کے عوامی جلسہ میں پانچ لاکھ لوگوں کی شرکت نے بتا دیا کہ اب بھی گوڈسے کے مقابلے گاندھی کا بول بالہ ہے۔ شیوسینا کے حوالے سے جو خواب دیکھے گئے تھے وہ بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے ۔ اس یاترا کو جب مدھیہ پریش سے ہندی علاقہ میں داخل ہونا تھا تو جان سے مارنے کی دھمکی آگئی۔ بی جے پی والے توقع کررہے راہل ڈر کر اپنا بوریہ بستر لپیٹ لیں گے لیکن انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ساورکر کی مانند ڈرپوک نہیں ہیں۔ راجستھان اور ہریانہ کے بعدیاترا دہلی پہنچی تو چھٹی منانے کےلیے باہر جانے کا شوشہ چھوڑا گیا جو بی جے پی پر الٹا پڑا ۔ اترپردیش میں ایودھیا سے سنتوں کے آشیرواد نے سواگت کیا اور پنجاب و ہماچل سے ہوتے ہوئے جب یہ یاترا کشمیر پہنچی تو بی جے پی کے علاوہ سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے باہمی اختلافات کو مٹا کرراہل کا استقبال کیا۔

بی جے پی نے جب دیکھا کہ اب اس کو روکنا ناممکن ہے تو اپنی 31؍سال پرانی ایکتا یاترا کو یاد کرنے لگے ۔ اس یاد نے بسوا سرما کے اس الزام کی تردید کردی کہ بھارت تو جڑا ہوا ہے اور اگر اس کو جوڑنا ہی ہے تو یاترا کواسلام آباد سے شروع کی جائے ۔ یہی بات ہے تو مرلی جوشی اور ان کے پیروکار نریندر مودی نے اپنی ایکتا یاترا کنیا کماری سے شروع کرکے سری نگر میں ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا تھا؟ کیا اس وقت ملک میں اتحاد نہیں تھا اور وہ اکھنڈ بھارت بنانے کی خاطر اسلام آباد یا ڈھاکہ کیوں نہیں گئے تھے ؟ یاترا جب کشمیر میں داخل ہو گئی تو بی جے پی والوں نے نیا پینترا بدلا اور کہنے لگے کہ جموں کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370ختم کرنے کے بعد بی جے پی نے وادی کے اندر جو امن بحال کردیا ہے اسی کی بدولت راہل گاندھی سری نگر جاسکے ہیں لیکن بہت جلد اس غبارے کی ہوا نکل گئی اور وہ گیدڑ بھپکی بھی غلط ثابت ہوئی ۔

لال چوک کے پورے علاقہ کو ایک دن پہلے سے سیل بند کیا جانا اور فوجی گاڑی میں راہل گاندھی کو لال چوک تک لے جایا جانا نیز اگلے دن کے جلسۂ عام کو منسوخ کرنے پر مجبور کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ امن و امان کے سارے دعویٰ کھوکھلے ہیں اور آج بھی وہی اکتیس سال پہلے والی صورتحال ہے لیکن فرق یہ ہے کہ منوہر جوشی نے اپنے لاکھوں رضا کاروں کے ساتھ سرینگر جانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا جنگجووں کی گولیوں سے زیادہ ہمارے کارکنا ن ہیں لیکن جموں سے سارے رضاکار بھاگ کھڑے ہوئے۔ اٹل جی نے جموں میں جلسہ کو خطاب کرنے کے بعد کہا میں خودکشی کرنا نہیں چاہتا اور نام نہاد مردِ آہن لال کرشن اڈوانی کے ساتھ دہلی لوٹ آئے۔ فوجی ہیلی کاپٹر میں منوہر جوشی کو چند ساتھیوں کے ساتھ سرینگر پہنچایا گیا ۔ وہاں راہل کی مانند بکتر بند گاڑی میں فوجیوں کے گھیرے میں ان سے پرچم لہرایا گیا اور پھر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دم دبا کر وہ بھاگ آئے۔ اس کی تفصیلی رپورٹ آج بھی انڈیا ٹوڈے کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ نیوز ٹریک پر جوشی کے جھندا لہرانے اور راہل کی پرچم کشائی کا فرق ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ راہل گاندھی نے اپنی اس یاترا سے نفرت کی دیوار میں محبت کی سرنگ لگا دی ہےلیکن ایسے میں کسی شاعر کا یہ سوال یاد آتا ہے؎
کیا کسی بھائی کی بھائی سے لڑائی ہوتی؟
ہم نے نفرت کی جو دیوار گرائی ہوتی؟

اس سوال کا جواب ہر کسی کے پاس یہی ہے کہ اگر اس ملک کے لوگ نفرت انگیزی کے خطرے سے آگاہ ہوکرصحیح وقت پر بیدار ہوجاتے تو یہ نوبت نہ آتی کہ ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کا دشمن بناہوا ہے ۔ہم نے نفرت کی دیوار کو تعمیر ہوتے ہوئے دیکھا مگر اس کو روکنے کی کماحقہُ کوشش نہیں کی کیونکہ اسے ریت کی کمزور دیوار سمجھاجارہا تھااور یہ خیال تھا کہ ہوا کے ایک جھونکے سےیہازخود ڈھے جائے گی لیکن اب وہ ایک ایسی آہنی دیوار بن گئی ہے کہ اس میں دراڑ ڈالنا تو دور سوراخ کرنا مشکل معلوم ہورہاہے ۔ اس میں شگاف ڈالنے کے لیے راہل گاندھی کو چار ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کرنا پڑا۔ وطن عزیز میں جب لوگ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر نفرت کا بیج بورہے تھے تو یہاں کے عوام و خواص اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ اس مقدس سرزمین پر یہ زہریلا پودہ پنپ نہیں سکتا ۔ اس نے اگر کسی طرح کونپل نکال لی تو یہاں کی خوشگوار آب و ہوا اس کو راس نہیں آئے گی اور وہ ازخود کمھلا جائے گایا ہم بہ آسانی اسے اکھاڑ پھینکیں گے لیکن وہ ساری توقعات غلط نکلیں اور آج قوم کا یہ حال ہے کہ ؎
نفرت کے گھنے پیڑوں کی شاخوں پہ مسلسل
اخلاص و اخوت کا ثمر ڈھونڈ رہے ہیں

وطن عزیز میں فی زمانہ نفرت کی زبردست فصل لہلہا رہی ہے۔بھارت جوڑو یاترا نے یہ پیغام دیا ہے کہ اس کھیت کو نیست و نابود کرنا یا نفرت کی دیوار کو گرانا آسان تو نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ہے۔ اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ مایوسی کا وہ گمان جو ہم سے کہتا ہے کہ یہ ناقابلِ تسخیر ہدف ہے۔ اس لیے کوشش کرنا یا وقت و توانائی صرف کرنا بے سود ہے۔ یہ دراصل میڈیاکاپھیلایا ہوا ایک بھرم ہے کہ ’کچھ بھی کرلو آئے گا تو مودی ہی‘۔ ایسا نہیں ہے۔گجرات میں اگر بی جے پی جیتی ہے تو ہماچل اور دلی میں ہاری بھی ہے۔ گودی میڈیا کا نیا جائزہ کہتا ہےکہ کرناٹک میں بھی اس کی حالت خراب ہے ۔ نفرت کی دیو ار کو گرانا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی لیکن بقول حبیب جالب ؎
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستےمیں


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.