مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ

بیت المقدس ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے جو کبھی شامات کا حصہ تھا۔یہ شہر ادیان ابراہیمی(یہودی ، عیسائی اور مسلمان ) کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اہل یہود کے عقید ہ کے مطابق یہاں ہیکل سلیمانی ہےجسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے عہد بادشاہت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ عیسائی کے لیےاس لیے متبرک ہےچوں کہ اسی سرزمین پرحضرت مسیح کی مکمل حیات بسر ہوئی ہے اور اہل اسلام کا یہ قبلہ اول ہے ۔رسول اسلام ؐ نے ہجرت کے بعدسولہ یا سترہ ماہ تک اسی مسجد کی سمت نماز اداکی ہے اورواقعہ معراج اسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسری سب مقدس جگہ بیت المقدس ہے۔

اس شہر کے مختلف ادوار میں نام بدلتے رہے ہیں۔ قدیم زمانہ میں اسے ’اورشلیم‘یا ’یورشالیم‘سے تعبیر کیا جاتا تھا۔عبرانی زبان میں ’اور‘کے معنی مقدس ، متبرک کے ہیں جبکہ ’شلیم‘سے مراد شہر کے ہیں ۔ یعنی شہر مقدس۔ ’اہل شام اور اس کے اطراف کے لوگ بیت المقدس کو’ قدس‘ لکھتےہیں اوران ممالک کے باشندوں میں سے اگر کوئی حج کو نہیں پہونچ سکتا ہے تو حج کے زمانے میں قدس میں حاضر ہوکر موقف پر ٹھہر جاتا ہےاور عید کی قربانی حسب رواج کردیتا ہے۔ ہر سال دوہزار سے زائد آدمی شروع ماہ ذی الحجہ میں وہاں جمع ہوکر بچوں کا ختنہ کرتے ہیں۔‘
(سفر نامہ حکیم ناصر خسرو،۴۳۷ھ لغایت۴۴۴ھ،اردو ترجمہ: چودھری محمد ثروت اللہ کرمانی سندیلوی، ص۳۵) ۔ایلیا، ہمیقداش وغیر ہ اس کے دوسرے نام ہیں۔

اسلامی ریاست کے ماتحت آنے سے قبل یہ شہر عیسائی اور یہودیوں کے زیر تصرف تھا لیکن ۱۵؍ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمرابن الخطاب نے اسے اپنی سلطنت میں داخل کرلیا اویہ اسلامی مملکت کا ایک حصہ ہوگیااور وہاں تعمیر مسجد کا حکم صادر کیاگیا۔

مسجد اقصیٰ
اقصیٰ کے معنی ’دورترین ‘کے ہوتے ہیں ۔اس لیے مسجداقصیٰ کے معنی ’دورترین مسجد‘ کے ہوئے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ مسجد مکہ معظمہ اور مدینہ منور ہ سے کافی دور ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً1300کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ مسجد ،شہر کے مشرقی علاقہ جبکہ حرم کے جنوبی حصہ میں واقع ہے۔’مسجد اقصیٰ، مسجد عمر اور قبہ صخرہ سے ۵۰۰ ؍ میٹر کے فاصلہ پر موجود ہے۔‘
( لغت نامہ دھخدا ،علی اکبر)
بیت المقدس میں واقع کوہ موریا کے حدود میں حصار بندی کردی گئی ہے جسے مسلمان ’حرم شریف ‘کہتے ہیں ۔ اسی احاطہ میں ’مسجد اقصیٰ ‘ہے۔البتہ قرآن کی تعبیر کے مطابق ’بارکنا حولہ‘ کے الفاظ بھی ہیں جس کی تفسیرپورے حرم قدسی سے ہوتی ہے۔ جس میں گنبد صخرہ بھی شامل ہےجبکہ اُس وقت مسجد کا وجود نہیں تھا۔ گنبد صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب بنایا گیا ہے۔لیکن ایک جماعت کا کہنا ہے کہ موجودہ مسجد ہی ’مسجد اقصیٰ ہے‘ مگر مجھے پہلے نظریہ میں زیادہ استحکام نظر آتا ہے۔ اس کے متعدد دلیلیں ہیں:
۱۔جہاں تک موجود ہ مسجد الاقصیٰ کا تعلق ہے۔ اسے ہجرت کے بعد تعمیر کیا گیا ہے۔ہجرت رسولؐ کے وقت وہاں مذکورہ نام کی کوئی مسجد نہ تھی۔آپ کے دورمیں اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔اس لیے لوگوں کو اس بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ابن میمون کی روایت میں مسجد اقصیٰ کی جگہ بیت المقدس کی لفظ آئی ہے۔
( سنن ابن ماجہ،ابن ماجہ، ج۱، ص۴۵۱۔، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۴۲۹)
ابن شہاب زہری کی روایت میں بھی مسجد اقصیٰ کی جگہ بیت المقدس کا استعمال کیا گیا۔
( فضائل بیت المقدس،الامام ضاءالدین محمد بن عبد الواحد بن احمد، قدسی حنبلی،الطبع الاولی، ص؍۵۰، مجموعہ مقالات بلند از: دائرۃ المعارف الامی،مرتضی اسدی)۔
اس کا واضح مطلب یہ ہوا ہے کہ قرآن میں ذکر شدہ’مسجد الاقصیٰ‘ اور ’بارکنا حولہ‘ سے مراد پورا حرم شریف ہے۔مسجد کی تعمیر تو کافی زمانہ بعد کی ہے ۔ اس لیے موجودہ مسجد اقصیٰ کو ہم قرآن میں بیان کردہ مسجد اقصیٰ سے تعبیر نہیں کرسکتے۔چوں کہ اس وقت وہ خارج میں معدوم تھی۔
۲۔مفسرین قرآن نےاللہ کی زبان سے بیان ’بیت الاقصیٰ‘کی تشریح میں ’بیت المقدس ‘مراد لیا ہے۔چونکہ اسلام سے قبل بھی اس کا متبرک وجود تھا ۔ اس لیے بیت المقدس کا دائرہ موجودہ مسجد اقصیٰ سے بزرگ تسلیم کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے موجودہ مسجدکو مسجد اقصیٰ مان لینا بہتر نہ ہوگا بلکہ اس سے مراد بیت المقدس ہے کہ جسے ’حرم شریف ‘کہتے ہیں۔
مسجد الاقصیٰ کی عمارت

موجودہ مسجد الاقصی کی عمارت مستطیل شکل میں ہے جس کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔
( تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی،موسی غوشہ، ص۱۰، سال اشاعت:۱۳۹۰شمسی)
مسجد کی عمارت 53 سنگ مرمر کے ستون اور 49 بنیادوں پر بنی ہوئی ہے۔
( تاریخ اورشلیم، حمیدی،ص۱۸۳، سال اشاعت:۱۳۸۱ش )۔
مسجد ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں ایک گنبد واقع ہے۔
( تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی،موسی غوشہ، ص۱۰،سال اشاعت: ۱۳۹۰ش)
مسجد تقریباًسبز گنبد سے مزین تھی ۔اسے عبد الملک نے تعمیر کرایا تھالیکن گردش ایام اور جدیدتعمیرات نے اس کی شکل میں کافی تبدیلی داخل کردی۔ اس کا دل اتنا کشادہ ہے کہ اس میں۵؍ہزارلوگ نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ صحن میں بھی ہزاروں افراد ادائے فرائض انجام دےسکتے ہیں۔
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں مسجد اقصیٰ کا تذکرہ کیا ہے کہ:’یہ مسجد خوبصورتی اور دل آویزی میں دنیا کی عجیب مسجدوں میں سے ہے اور خوبصورتی اور دل آویزی میں اسے اعلیٰ درجہ کا تفوق حاصل ہے ۔ کہتےہیں کہ تمام عالم کی مساجد میں سے کوئی مسجد اس سے بڑی نہیں۔ مشرق سے مغرب تک اس کا طول سات سو باون گز ہے اور قبلہ سے سامنے کے رخ یعنی شمال و جنوب چار سو پینتیس گز عرض ہے ۔
(عجائب الاسفار ، جلد ، ۱ ۔سفرنامہ ابن بطوطہ، ترجمہ: عطاء الرحمٰن ، ص ؍۷۲،ناشر: رحمانی پریس دہلی، ۱۳۴۸ھ)
شبلی نعمانی نے اپنے سفرنامہ میں اس عظیم الشان مسجد کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ : مسجد کی عمارت جس کا طول ایک ہزار (۱۰۰۰)گز اورعرض ۷۰۰؍گز ہے ،نہایت خوبصورت، پر تکلف اور شاندار ہے ۔ چھت ستونوں پر ہے اور (۷۰۰)صرف سنگ رخام کے ستون ہیں۔ جابجا پچے کاری اور طلائی کا م ہے ۔ یہ عمارت جس قدر ہے ، عبد المالک بن مروان کی بنوائی ہوئی ہے البتہ بنیادوں کی نسبت کہاجاتا ہے کہ حضرت داؤدؑ کےعہد کی ہیں ۔ بائیں جانب عمارت اور کسی قدر فاصلہ پر ایک وسیع تہ خانہ ہے۔ دس بارہ سیڑھیاں اتر کر مسطح زمین ملتی ہے ۔ یہاں نہایت عالی شان محرابوں کی سات قطاریں ہیں ۔ محرابوں کے ستون نہایت چوڑے اور بلند ہیں ۔ مجاورین ان محرابوں کو حضرت سلیمان ؑکے عہد کی تعمیر بتاتے ہیں اور اس قدر تو یقینی ہے کہ اسلام کے قبل کی ہیں۔
(سفرنامہ رو م و مصر و شام ، شبلی نعمانی، ص ؍ ۹۵،ناشر: مہتاب پریس دہلی، ۱۹۲۷ء)
۔۔۔۔