کسی کانفرنس کا مقصدایک جیسا مقصدرکھنے والے لوگوں کو ایک
جگہ اکٹھے کرنا، ان کے مقصد کی ترویج کرنا اور یکساں نظریات کے بارے بات
چیت کرنا ہوتا ہے۔چند دن پہلے لاہور میں ایک پنجابی کانفرنس ہوئی جس میں
مغربی پنجاب جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہے اور مشرقی پنجاب جو بھارت کا حصہ
ہے کے باسیوں نے اکٹھے ہو کر اپنی ماں بولی پنجابی کے بارے میں بات چیت
کرنا، اس کی بہتری اور ترویج کے بارے بحث و مباحث کرنا اور اس کو اس کی
حیثیٹ کے مطابق مقام دلانے کی کوشش کرنا تھا۔پنجابی کانفرنسوں کی رونق
پاکستان سے پنجاب کے مسلمان اور بھارت کے سکھ ہوتے ہیں۔جب بھی یہ دو مختلف
مذاہب کے لوگ اپنی ماں بولی کی خاظر ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کا جوش
وخروش دیدنی ہوتا ہے۔ لیکن اس پنجابی کانفرنس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ
ہمارے سکھ بھائیوں کو پاکستان آنے کو ویزہ ہی نہیں ملا یوں یہ کانفرنس کچھ
روکھی پھیکی ہی رہی۔
اس کانفرنس کو عظیم صوفی، پنجابی شاعر وارث شاہ سے منسوب کیاگیا
تھا۔پنجابیوں کی طرف سے یہ قدم اپنی ماں بولی کو زندہ رکھنے اور اسے اس کا
جائز حق دلوانے کے لئے دلانے کی ایک خوبصورت کاوش تھی۔مگر وہاں زیادہ لوگ
فقط شاعر تھے۔ وارث شاہ اور بہت سے دوسرے پنجابی شاعروں کا تعارف کروانے کا
بھی کسی نے تکلف نہیں کیا۔ ضروری تھا کہ عوام کو ان صوفی شاعروں کے بارے
بتایا جاتا۔ وارث شاہ کی تصنیف ہیر وارث شاہ کو تو یہ اعزاز حاصل ہے کہ
پنجاب میں قران حکیم کے بعد یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔نئی نسل
کو ایسے عظیم پنجابی اہل علم لوگوں سے روشناس کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ماں
بولی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حامی افراد کو اس کام کے لئے باتوں کی نہیں
عملی کام کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کہ وہاں کوئی مقالہ بھی نہیں پڑھا
گیا۔سائنس کی نئی اصلاحات اور دوسری جدید چیزوں کا پنجابی میں ترجمہ، ان کے
لئے پنجابی میں آسان الفاظ اور اس طرح کا بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ
پنجابی ہر میدان میں بہتر زبانوں کی ہم پلہ قرار پا سکے۔
دنیا میں اس وقت تقریباً 7100 زبانیں بولی جاتی ہیں مگر صرف 23 زبانیں ایسی
ہیں جو سکولوں میں باقاعدہ پڑھائی جاتی ہیں۔ان 7100 زبانوں میں بہت سی ختم
ہو رہی ہیں یا عملاً ختم ہو چکی ہیں۔اس لئے کہ ان زبانوں کو بولنے والے یا
تو بہت کم رہ گئے ہیں یا اپنے علاقے سے ہجرت کے سبب اپنے ارد گرد اپنے جیسے
لوگ نہ ہونے کے سبب مجبوراًبول نہیں سکتے۔پنجابی دنیا کی ان کوخوبصورت
زبانوں میں ایک ہے کہ جس کے الفاظ تلفظ میں موتیوں کی طرح نظر آتے ہیں اور
اس کو بولنے والے لوگ جس لہجے میں بات کرتے ہیں اسے دنیا میں Lencal Tone
کہتے ہیں۔ دنیا میں آپ کہیں بھی جائیں ، آپ کو پاکستانی پنجابی اور بھارتی
سکھ پنجابی ضرور نظر آئیں گے۔ یہ سب پنجابی بہادری، سخاوٹ اور ہمدردی کا
مرقع ہوتے ہیں۔بھارت میں دو کروڑ سکھ پنجابی بولتے اور پاکستان میں گیارہ
کروڑ لوگ پنجابی بولتے ہیں۔کینڈا میں دس لاکھ لوگ پنجابی ہیں جو وہاں کی
آبادی کا 2.6 فیصد ہیں۔ بھارت میں یوں تو بہت سی زبانیں ہیں مگر 22 بڑی
زبانیں ہیں جو بولی جاتی ہیں۔پنجابی ان میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ جب کہ
ہندی جو عملاً اردو ہی کی ایک شکل ہے ، وہاں کی 93 فیصد آبادی بولتی اور
سمجھتی ہے۔
پنجابی ادبی کانفرنس میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی ، محفل کے روح رواں
جناب جناب عباس مرزا، ہنستے مسکراتے فرخ سہیل گوئندی ، ہمدم من جناب ناصر
رضوی، خوبصرت پنا جن کے ایک شاگرد نے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا، درویش
آرٹسٹ جناب شفیق فاروقی اور ستاروں سے آراستہ، عمدہ اور نفیس ، درویش شاعرہ
جناب پروین سجل صاحبہ۔ میں مشکور ہوں پروین نے مجھے اپنی کتاب’’ رفو‘‘ عطیہ
کی۔لوگ آج رفو کی اہمیت کو بھولتے جا رہے ہیں حالانکہ اس قوم کے جس قدر
بخیے ادھڑ چکے اور جس قدر چاک اس کا لباس ہو چکا، اسے تو ہر قدم رفو کی
ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں رفو کی ضرورت اور افادیت کو
اجاگر کرنابھی عین عبادت ہے جو سجل کر رہی ہیں۔
سجل انتہائی سنجیدہ مزاج اور صوفی منش شاعرہ ہے۔ صوفی دو طرح کے ہوتے ہیں،
متین صوفی اور مجذوب صوفی۔ متین صوفی اپنے حال میں مست رہتے ہیں اور کسی کو
احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ سلوک کی کتنی منزلیں طے کر چکے جب کہ مجذوب
سرشاری کی حالت میں خود پر قابو نہیں رکھ سکتے اور خود کو حسین بن منصور کی
طرح سب پر ظاہر کر دیتے ہیں۔کبھی کبھی لگتا ہے سجل ایک متین صوفی ہیں اور
سلوک کی بہت سی منزلیں ، ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت اور ہاہوت طے کرکے اب
ہو کی منزل کو رواں دواں ہیں کہ حق کی حقیقت کو پا سکیں۔ شاید یہی وجہ ہے
کہ اس کی طبیعت میں، اس کے اخلاق میں بے انتہا نرمی ، شگفتگی، انکساری اور
لطافت ہے ۔
سجل کہتی ہیں:
جب۔۔۔شب کی گذیدگی
انتہائے ہجر پہ آ ٹھہری
تو۔۔۔تیرے محرم نام سے کرنے لگے
رفو چاک جاں
ایک شعر ہے،
ساتھ چلتی ہے روشنی ایسے
تنہا یہ ذات نہیں ہوتی۔
تنویر صادق
|