نجات

چھت پہ لگا پنکھا ہلکی سی آواز کے ساتھ گھوم رہا تھا ،کمرے میں مکمل اندھیرا تھا اور وہ اپنے آرام دہ بیڈ پہ سورہا تھا۔سارا دن کالج کی مصروفیات میں گزر جاتا تھا ، شام کو اسے ٹیوشن پڑھانے جانا ہوتا تھا لیکن پھر جب تھکاوٹ سے نیند آتی تھی تو وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا تھا۔آج بھی ایسا ہی تھا۔ سارا دن کاموں کی بھاگ دوڑ میں نجانے کہاں گیا اور اب ایک عالم_ بے خبری میں اس کی پلکیں ہولے ہولے لرز رہی تھیں۔ ذہن بیدار تھا مگر جسم بے حس وحرکت تھا۔وہ سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔اس کے منہ پہ کوئ نادیدہ پٹی بندھی تھی جس نے زبان کو جامد کردیا تھا۔ کمرے میں کوئی تھا ،اس کی موجودگی محسوس ہورہی تھی لیکن وہ آنکھیں کھول کے اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔
ٹک ٹک ،وال کلاک کی آواز سے اسے اندازہ ہوا کہ دو بجے کا وقت ہے ۔ایک ان جانا خوف اس کے رگ وپے میں سرایت کر رہا تھا ۔ اسے اپنا جسم کسی بوجھ تلے دبا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔وہ کوشش کے باوجود ،خود کو حرکت دینے سے قاصر تھا۔ وہ کیا کرے ،مسلسل دماغ پہ زور ڈال رہا تھا ۔

ساتھ والے کمرے سے امی جان کے چلنے کی آواز آئی ،پھر فریج کھولنے کی اور بند کرنے کی ۔ امی کو اکثر رات کو پیاس لگتی تھی ۔کئ دن ہوۓ تھے ،وہ امی سے صحیح طرح بات نہیں کر پایا تھا ،بس کھانے اور کپڑے پریس کرتے وقت انھیں آواز دیتا تھا اور وہ جلدی سے آجاتی تھیں۔گھر میں صرف وہ ماں بیٹا ہی رہتے تھے ۔والد کا انتقال ہوچکا تھا۔

ام، می ی۔۔۔اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن زبان بالکل حرکت نہیں کرپائ ،آواز نہیں نکلی۔۔۔وہ امی کو آواز دینا چاہتا تھا لیکن کسی نادیدہ قوت نے اسے دبوچ رکھا تھا۔گھبراہٹ سے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ۔یا اللہ !اس نے بے اختیار سوچا۔۔۔ہاں ،اللہ تو اس کی حالت سے باخبر ہے ۔ اسے خیال آیا کہ تلاوت کئے بغیر اسے کافی عرصہ ہوگیا ہے۔ یا اللہ میں تلاوت کرنا چاہتا ہوں! اب اس کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے دل میں سوچا کہ وہ کتنا گنہگار ہوگیا ہے ،بچپن میں کتنی تلاوت کیا کرتا تھا۔کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے گا ؟ وہ میری مدد کرے گا ؟ اسے لگا کہ سینے سے بوجھ کچھ ہلکا ہورہا ہے۔ یہ علامت تھی کہ اللہ کو یاد کرنے سے اس نادیدہ قوت کی گرفت کچھ کم ہوئی ہے ۔ یہ بات محسوس کرکے ایک قطرہ آنسو کا اس کی آنکھ سے ٹپک گیا۔

اب وہ اپنی قوت_ارتکاز ایک نقطے پہ جمع کر رہا تھا ،اس نے دل میں کلام_پاک کا ورد شروع کردیا ،آیت الکرسی کا۔۔۔۔۔کہ اس آیت کو حفاظت کا حصار سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی زبان ساکت تھی لیکن قلب میں عبادت شروع ہوگئی تھی ،وہ پوری توجہ سے تلاوت کر رہا تھا۔

اچانک ،کمرے میں موجود وہ نادیدہ قوت کہیں غائب ہوگئ۔اس کا جسم ہلکا ہوگیا ۔وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ۔میں ہاتھ ہلا سکتا ہوں ،اس نے مٹھی کھول کے اور بند کرکے دیکھی ،پھر وہ تیزی سے اٹھا،کمرے کا دروازہ کھولا اور امی کی طرف بھاگا ،وہ جاۓ نماز پہ تہجد پڑھ کے دعا کر رہی تھیں،سفید دوپٹے کے ہالے میں پرنور چہرہ ،دعا میں اٹھے ہاتھ اور لبوں پہ دعائیں،اس نے ماں کی گود میں سر رکھ دیا اور چھوٹے بچے کی طرح ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔ماں نے بیٹے کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو ایک ٹھنڈک سی اس کے وجود میں اتر گئ ۔اس کے دل میں جیسے کسی نے سرگوشی کی ،خود پہ نجات کے دروازے تم نے خود ہی بند کر رکھے تھے !
#
۔۔۔۔۔