نہاں خانہء دل سے

نامور ادیب، شاعر، صحافی، صوفی سکالر ڈاکٹر اظہر وحید صاحب سے ایک پر اثر ملاقات کا احوال ۔

الفت سے عقیدت تک

الفت سے عقیدت تک۔۔
انسانوں کی اس کائنات میں مالک ارض و سموات نے اس کرہء ارض کو بے کراں نعمتوں سے بھر دیا اور تمام عناصر کو حضرت انسان کی محبت میں نچھاور کردیا۔ گلشن میں بہار، بہاروں میں پھول، پھولوں میں خوشبو پیدا کی ، بادلوں کو رم جھم عطا کی، دریاؤں اور سمندروں کے دل پانیوں سےبھر دئیے۔ وادیوں اور کوہساروں میں حرف کن سے مناظر فطرت کےانبار لگائے۔ جنگل بیلے، دشت و بیاباں ، اور رنگوں بھری یہ کائنات خدمت انسانی پر مامور کر دی، مگر پھر بھی حضرت انسان کا دل ان سب سے بیزار رہا۔ ان تمام مناظر فطرت میں فوائد جسمانی ، خوب صورتی ، دلکشی اور جاذبیت تو تھی مگر "دل" نہ تھا۔ دل انسان کے پاس تھا۔
اسلئے ان تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اسے اس جیسا دوسرا "انسان" ہی نظر آیا
دل کی دلکشی انسان کے حصے میں آئی۔
اس لئے انسان نے اپنے جذبات و محسوسات کے اظہار کے لئے انسان ہی کو موزوں پایا۔ انسان کو وجود انسانی کے بغیر کرہء ارض کی ہر شے بے وقعت و بے مایہ نظر آئی۔ اور یہی الفت انسانی تھی۔
گویا انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لئے "الفت" ایک فطری عمل ہے۔
اسی الفت کے سبب انسانوں نے دنیا بسائی، بستیاں بنائیں، اور الفت انسانی نے عالم رنگ و بو میں نئے رنگ بھر دئیے۔۔
رفتہ رفتہ انسانی بستیوں میں کچھ ایسے انسانوں کا ظہور ہوا جو اپنے جیسے باقی انسانوں سے ممتاز نظر آئے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے دل کے ساتھ ساتھ روح کا تزکیہ کیا ۔ یوں ان کے ظاہر و باطن دونوں کو جلا ملی۔ اور نہاں خانہء دل کی اندھیر نگری میں علم و عرفان کے چراغ روشن ہونے لگے۔ اور پھر فقر و درویشی کی صفت نے انہیں انسانوں سے "ہستیاں" بنا دیا۔
خودی کی کشتی کے یہ سوار حق کو بھی پہچانتے تھے اور محبوب حق(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی۔ بنی نوع انسان میں سے حق کے متلاشی ان ہستیوں کی صحبت اختیار کرنے لگے اور رشد و ہدایت کی تجلیات سے اپنے قلوب و اذہان کو منور کرنے لگے۔
یوں جب ان ہستیوں نے عالم آب و گل میں بسنے والے عام انسانوں کو قلزم عرفاں میں غوطہ زن کیا تو "عقیدت" نے جنم لیا۔
"عقیدت"۔۔۔۔ "الفت" سے معتبر ہو گئی ۔ الفت کا تعلق انسان سے تھا، جبکہ عقیدت کا تعلق روح سے تھا۔۔
الفت کے حصے میں رہ جانے والی شے آئی ۔ اس لئے وہ وقتی رہی۔ اور جب تک انسان باقی رہا یہ رہی۔اور جب انسان عالم فانی سے رخصت ہوا تو یہ بھی چلتی بنی۔
عقیدت کے حصے میں ساتھ جانے والی شے آئی۔ اس لئے کچھ لوگ اس سے جڑ گئے۔ اور جو جڑ گیا، وہ جڑا رہا۔۔، یعنی با مراد رہا۔ عقیدت میں اتنی طاقت تھی کہ اس نے ان ہستیوں کو امر کر دیا۔ اور ان ہستیوں نے انسانوں کے دلوں میں بستیاں بنا لیں۔ اور ان کے جانے پر بھی عقیدت باقی رہی۔
زمانے بیت گئے، الفت آتی جاتی رہی، عقیدت قائم رہی۔ عقیدت کا باغ ہرا بھر رہا۔ گلشن عقیدت کے ہر پھول کی خوشبو جدا رہی۔
ہر دور میں ان ہستیوں نے نور خدا کا فیض مخلوق خدا تک پہنچایا۔
سرزمین پاکستان کو بھی ایسی بے شمار ہستیوں نے اپنی خوشبو سے معطر کیا جو بعد از وصال لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔
میری پیدائش ارضی کو تو چونتیس برس بیت چکے ہیں مگر ہوش آج سے دس سال پہلے آیا ہے جب مجھے خالق عقل و خرد نے ایک ہستی کی آغوش محبت سے وابستہ کیا۔ وہ ہستی سرکار واصف علی واصف رحمہ اللہ علیہ کی ہے۔ سرکار واصف کے در سے سکون قلب میسر آنے کے ساتھ ساتھ علم و عرفاں کے دریچوں میں جھانکنے کی استطاعت نصیب ہوئی۔
الفت سرکار واصف علی واصف تو پیدا ہو گئی مگر عقیدت سرکار واصف کے لئے روح بے چین تھی خرد کی گتھیاں تو سلجھ رہی تھیں، صاحب جنوں ہو نے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قلزم سے قطرہ حاصل کرنے کے لئے حوصلہ بھی چاھیئے اور رستہ بھی۔
اور پھر مالک دوجہاں نے مجھے اس گلشن عقیدت کی "پہلی کرن" عطا کی۔ جس کے اجالے نے نہاں خانہء دل میں عرفان ذات کی کال کوٹھڑی کے در وا کردئیے۔ اور "حرف آغاز" کا ایک ایک لفظ دیپک بنا اور اس کال کوٹھڑی کو پر نور کر گیا۔

وہ مرد درویش شہر لاہور سے ڈاکٹر اظہر وحید مدظلہ العالی کی ذات گرامی ہے۔ آپ کے دامن شفقت سے وابستہ ہونے کے بعد در واصف سے الفت کے ساتھ ساتھ عقیدت بھی دست بستہ ہو گئی۔
ڈاکٹر اظہر وحید صاحب ، پیشے کے اعتبار سے نبض شناص ہیں اور دل کے اعتبار سے روح شناس بھی ہیں ۔
آپ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی معالج بھی ہیں۔ جسم کا زخم مندمل ہو سکتا ہے مگر روح کا زخم ناسور بن جاتا ہے۔ آپ کی ذات گرامی روح میں چھپے آزار بھی ڈھونڈ نکالنے میں خاص ملکہ رکھتی ہے ڈاکٹر صاحب معروف صوفی سکالر، تجزیہ نگار، مدیر، صحافی، اور عصر حاضر کے پر اثر مصنف ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا قلم بہت مضبوط ہے جو نہ صرف صفحہء قرطاس پر بلکہ صفحہء زیست پر بھی چلتا ہے۔
*بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔۔۔
ڈاکٹرصاحب کی تحریروں کو پڑھتے وقت عجب سا سحر طاری ہو جاتا ہے۔ انسان لفظوں کی کائنات کا پرندہ بن جاتا ہے۔ اور ایک ایک لفظ خیال کے پنچھی کو زمان و مکاں کی قید سے آزاد کر دیتا ہے۔ اور یوں ہر سو خیال کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ کیونکہ بقول آپ کے۔۔۔ " خوشبو ساری خیال کی ہے۔ "

*نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر، میر کارواں کے لئے

حال ہی میں ڈاکٹر صاحب سے لاہور میں ملاقات کرنے کا خواب شرمندہء تعبیر ہوا۔اور بارگاہ اقدس میں زانوئے ادب تہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ناچیز کی حسرت دیدہ و دل کو قرار میسر آیا ۔اور نگاہ فقر میں شان سکندری کو قریب سے دیکھنے کی آرزو پوری ہوئی ۔
اور اس سلیم الفطرت شخصیت کی شگفتہ اور دلگیر گفتگو سے طمانیت قلب میسر آئی۔۔ صحبت صالح میں گزرے ہوئے چند لمحات ، راحت جاں ثابت ہوئے ۔ آپ کےدست شفقت سے عطا کردہ کتابی تحائف میرے اور ملک شاہ زیب عالم اعوان کے لئے نا صرف ایک خوبصورت یاد ہیں، بلکہ مشعل راہ بھی ہیں.
ہم چونکہ ڈاکٹر صاحب کے نہایت قیمتی اوقات میں مخل ہوئے تھے کہ جب وہ فریضہء مسیحائی میں مصروف تھے، ان کا دیا گیا وقت پھر بھی ہمارے لئے گنج ہائے گراں مایہ ثابت ہوا۔ بادل نخواستہ ان لمحوں کو خیر باد کہنا پڑا۔ مگر یہ امر یقینی ہے کہ آپ کی صحبت میں گزرا ہوا ایک ایک پل ناقابل فراموش یاد بن گیا۔ امید واثق ہے کہ حیات عارضی، جب تک حیات ارضی ہے۔ آپ کی شخصیت کا ہر پہلو اور آپ کا بادہء معرفت ہم جیسے تشنگان صراط مستقیم کی سقائی کرتا رہے گا۔

Waseem Akaash
About the Author: Waseem Akaash Read More Articles by Waseem Akaash: 5 Articles with 2130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.