جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد(مرحوم) کی اپیل
پر سالہ سال سے حکومت پاکستان 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی چلی آ رہی
ہے۔ 2019 میں بھارت کی طرف سے اس کے آئین میں کشمیر کی خصوصی دفعات 370
اور۵35؍اے کو ہٹلر صفت نریندر مودی نے غیر آئینی طور پر ختم کرکے کشمیر کو
بھارت میں ضم کر لیا تھا۔مودی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہے۔
اس دہشت گرد تنظیم پرانگریز دور میں پابندی بھی لگی تھی۔ یہ تنظیم بھارت کو
ایک کٹر ہندوریاست بنانے کے منشور رکھتی ہے۔ جبکہ بھارت آئینی طور پر ایک
سیکولر ریاست ہے۔بھارت میں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے جن کی تعدادر23کروڑ
سے زیادہ ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار کرڑو کی تعداد میں ہیں۔بڑی تعداد بھارت
کی شیڈول کاسٹ ہیں۔ عیسائی اور بدھ مذہب کی اقلیتیں موجود ہیں۔اس طرح بھارت
کے آدھی آبادی مختلف ا قلیتوں کی ہے۔ ایسے ملک میں کٹر ہندو ریاست کیسے
قائم ہو سکتی ہے؟۔ مگر دہشت گرد تنظیم کے بنیادی ممبر مودی جو پہلے گجرات
کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے مسلمان اقلیت پر ظلم ڈھا چکے ہیں۔جس پر امریکا کے
اُس وقت کے صدر نے امریکا آنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اب بھارت کے وزیر اعظم
بن کر بھارت جو مختلف مذاہب کے رہنے والی اقلیتوں کا ملک ہے جس کا آئین
سیکولر ہے۔ اس کو ذبردستی کٹرہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے پر عمل در آمند کر
رہے ہیں۔ مودی حکومت مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بن کر بھارت میں رہنے یا
بھارت سے نکل جانے کی دھمکیاں دیتی رہتے ہے۔ اقلیت دشمن قوانین بنا کے
اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر ان کو گھر واپسی یعنی واپس ہندو بن جانے کے
پروگرام کے تحت ہندو بنا یا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہندوؤں
کو بسایا جارہا ہے۔ اس طرح وہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت والی
ہندو ریاست بنانے پر عمل کر رہا ہے۔ کشمیری ان قدام کے خلاف سراپا احتجاج
بنے ہوئے ہیں۔ ہر سال بھارت کے یوم جمہورت کے موقعہ پر مقبوضہ کشمیر میں
یوم سیاہ اورمکمل ہڑتال کی جاتی ہے۔ ہر سال یہ نعرے لگائے جاتے ہیں کہ ہم
پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔ ہماری ریاست سے قابض بھارتی ہندو فوجیوں
نکل جاؤ۔ہم تمھارے ساتھ ذبردستی نہیں رہنا چایتے ۔یہ وہی باتیں ہیں جو بین
القوامی طور منظور شدہ ہیں۔ قائد اعظم کی پر امن اور ولولہ انگیز خیز تحریک
پاکستان کی کامیابی اور دو قومی نظریہ کے تحت یہ دنیا نے اور ہندستان کے
عوام نے مانا تھا۔ ہندوستان میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان رہتے ہیں۔
انگریزوں نے مسلمانوں مغل حکمرانوں سے ہندوستان حاصل کیا تھا۔ انصاف کا
تقاضہ تو یہ تھے کہ انگریز جاتے وقت مسلمانوں کو اقتدار دے کر جاتے۔ یا پھر
دو قوموں ہندو اور مسلمانوں کو اقتدر منتقل کرنا چاہیے تھا۔دو قومیتیوں کے
فارمولے کو اُس قوت کی انگریز حکومت نے تسلیم کیا ۔ ہندو لیڈر شپ نے بھی
تسلیم کیا۔ ہند کے اندر جن صوبوں میں ہندو اکثریت میں تھے وہاں بھارت اور
جن سیاستوں میں مسلمان زیادہ تھے وہاں پاکستان بننا منظور ہوا۔ کشمیر میں
اُس وقت نوے فی صد آبادی مسلمانوں کی تھی لہٰذا اس بین القوامی فارمولے کے
تحت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ مگر بھارت نے ظلم کرتے ہوئے
کشمیر میں اپنے فوجیں داخل کر کے اس پر فوجی قبضہ کر لیا۔ پاکستان کی
فوج،کشمیر کے سابق فوجیوں اور پاکستان کے قبایلیوں نے اس قبضہ کو ختم کرنے
کے لیے جوابی کاروائی کی۔ گلگت بلتستان سے سے مقامی مجائیدین نے راجہ کی
فوجوں کوباہر نکال دیا۔ اور کشمیر کو پاکستانی فوج، کشمیری ریٹائرڈ فوجیوں
اور پاکستان کے قبالیوں نے موجودہ تین سو میل لمبے اورتیس میل چوڑے آزاد
کشمیر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ سری نگر کے قریب پہنچنے والے تھے کہ بھارت
کے وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں پہنچ کر درخواست داہر کی کہ جنگ بند
کر دی جائے ۔امن قائم ہونے کے بعد ہم کشمیریوں کے آزادانہ رائے معلوم کریں
گے۔ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یہ بھارت کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ اس
وعدے پر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ مگروہ دن اور آج کا دن
بھارت کے مکار حکمران دنیا، کشمیریوں ،پاکستان اور اقوام متحدہ کے ساتھ
وعدوں سے کو مکرسے ٹالتے رہے۔ کشمیریوں کو بزور قوت غلام بنا یا ہوا ہے۔
دینا کا کوئی ایسا ظلم نہیں جو کشمیریوں پر ڈھایا نہیں گیا۔
کشمیریوں کی دس ہزار سے زاہد عزت مآب نہتی خواتین کے ساتھ بھارت کے سفاک
فوجیوں نے اجتماہی آبریزری۔ مگر آج بھی کشمیری خواتیں ان ظالم فوجوں کے
سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔کشمیر کے نوجوانوں کو جیل میں بند کر کے زیریلا کھانا
دے کر ایسا اپائچ کیا کہ وہ چلتے پھرتے مردے لگیں۔ان کو جیل سے نکال کر
واپس کشمیرے معاشرے میں عبرت کا نشان بن کر چھوڑا گیا تاکہ کشمیری نوجوان
آزادی سے تائب ہو جائیں۔مگر پھر بھی سخت جان کشمیر نوجوان ان مظالم کے
سامنے خلاف ڈتے رہے اور وانی شہید جیسے مجائد پیدا ہوتے رہے۔ میری ذاتی
لائبریری میں ان مظلوم خواتین کی آبروزیزی اور آپائج بنا دیے گئے نوجوانوں
کی تصاویروں کے کے ساتھ کتب موجود ہیں۔کشمیریوں نوجوانوں کو بھارت کی جیلوں
میں نظر بند کیا ہوا ہے۔درجنوں اجتماہی قبریں سامنے آ چکی ہیں۔ کھربوں کی
پراپرٹیوں پر گن پائڈر چھڑک کر اسے خاکستر کر دیا گیا۔ کشمیریوں کی زری
زمینیوں اور باغات کے تباہ کر دیا گیا ہے۔ مساجد پر تالے ڈال دیے گئے ہیں۔
برزگوں کے مزاروں کو بند کر دیا گیا ہے۔ہزاروں کے تعداد میں کشمیریوں کے
گھروں کو بموں سے اُڑا دیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں بین القوامی انسانی
حقوق کی تنظیم نے ایک پورٹ جاری کی ہے۔
ِِ’’مقبوضہ کشمیر میں خفیہ ٹارچر سیل سے 500 لڑکیوں کی لاشیں اور 200 زندہ
بر آمند ہوئیں ہیں۔ زیر زمین ٹارچر سیلز میں نوجوانوں پر تشدد اور ان کا
قتل کیا جاتا ہے۔ لاشیں گم نام قبروں میں دفنائی جاتی ہیں یادریاؤں میں
پھینکی جاتے ہیں۔ قابض بھارتی فوج شہید لڑکیوں کو گناؤں پر پردہ ڈالنے کے
لیے دریاؤں میں بہا دیا تھا۔ انسانانی حقوق کے بین القوامی تنظیم ایمنسٹی
انٹر نیشنل کی رپورٹ میں انکشافات ۔یکم جون سے اب تک 30سے زاہد نوجوانوں
کوجعلی مقابلوں میں بھارتی افواج شہید کر چکی ہے۔جبکہ 60سے زاہد مکانات،
دکانیں، ہینڈ کرنیڈ سے تباہ کر چکے ہیں۔ مودی نے مذہبی انتشار کو ہوا دینے
کے لیے آر ایس ایس کے غنڈوں کو بر ملا سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ
مسلمانوں کی جہاں مسجدیں اور مدارس موجود ہیں ان کو فوری طور پر مسمار کیا
جائے۔ کیونکہ اس میں دہشت گرد تیار ہوتے ہیں ۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر
اداروں کو رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج جنگی جنون سے نہ
روکاگیا تووادی سمیت بھارت کے دیگر صوبوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداداد قتل
و غارت شروع ہو جائے گی۔ جو انسانوں حقوق کی پامالی ہے اس کو روکنے کے لیے
فوری اقدامات ضروری ہیںِ،،ان حالات میں 5 فروری سال 2023ء کو کشمیر،
پاکستان اور دنیا میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ بھارت کی فوج ہر
ظلم آزما چکی ہے۔ کشمیری ہر ظلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران
اس وقت آپس میں حق حکمرانی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ ملنے
کے لیے جد جہد کر رہے ہیں۔اﷲ کشمیریوں کے ساتھ ہیں اگر آئر لینڈ کے لوگ 100
سال لڑنے کے بعد اپنے حقوق حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے تو کشمیری بھی اس
سے زاہد وقت تک بھارت سے لڑنے کے لیے تیار ہیں ۔کشمیری بھارت سے اس وقت تک
لڑتے رہے گے جب تک اپنے انسانی بنیادی حقوق جس میں بھارت سے مکمل آزادی اور
پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا حق حاصل نہیں کر لیتے ۔
|