ہر گھر میں ایک فرد ہے ”سیدھے“ مزاج کا

ٹھاہ۔ ٹھاہ۔ تڑ۔۔ تڑ۔۔ تڑ۔۔
چند ہوائی فائر، پھر مزید ہوائی فائر۔
اور پھر ڈھیروں صداؤں کا اُبھرنا۔
”بھاگو۔۔ جلدی نکلو۔۔ ذرا دیکھ کے۔۔ اُدھر سے نہیں، اِدھر سے۔۔ ابے کیا پارک میں جاگنگ کر رہا ہے؟ جلدی نکل۔ بھاگ“

گولیاں برس رہی تھیں۔ لوگ جان بچانے کی فکر میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ داغی جانے والی گولیاں زیادہ بے ذہن ہیں یا اُنہیں داغنے والے۔ چند آتشیں گولیوں کا کمال دیکھیے، بھرے بازار میں بدحواسی کا بازار گرم ہوگیا! جب کبھی کوئی سیاسی جماعت احتجاج یا یوم سوگ کا اعلان کرتی ہے، یہی کچھ ہوتا ہے۔ ”ماحول“ بنانے کے لیے شہر کے نمایاں مقامات کو رونق سے محروم کردیا جاتا ہے تاکہ واقعی سوگ کی کیفیت دِکھائی دے۔ جب تک لوگ جان بچانے کے لیے بھاگتے نہ پھریں، کون کہے گا کہ کسی کے مرنے پر سوگ منایا جا رہا ہے!

ہم بھی اپنے فلیٹ کے نیچے، سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ سولہ سترہ سال کا ایک لڑکا تیزی سے ہماری طرف آیا۔ ہم نے پوچھا خیریت تو ہے، کیا کچھ گر، گرا گیا ہے؟ اُس نے بند دُکان کی طرف دیکھ کر پوچھا کیا یہ بند ہوگئی؟ ہم نے استفسار کیا۔۔ کیا کوئی ضروری کام ہے؟ لڑکا بولا انکل! مجھے چپل اور جوتے خریدنے ہیں!

غور فرمائیے۔ جس وقت لوگوں کو دُکانوں کے شٹرز گرا کر اپنی زندگی کے شٹر کو گرنے سے بچانے کی فکر لاحق تھی اور وہ ”موقع“ سے دُور بھاگنے کے لیے کوشاں تھے تب نئی نسل کے نمائندے کو چپل اور جوتے خریدنے کی فکر لاحق تھی! یہ ہے دیگ کا ایک دانہ، یعنی معاشرے کے مجموعی مزاج کا ایک نمونہ۔
لیجیے، دیگ کا ایک دانہ یعنی نمونہ حاضر ہے۔

رات کے تین بجے ہیں۔ شہر کی سب سے معروف اور مصروف شاہراہ یعنی شارع فیصل سنسان ہے۔ اِکا دُکا گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ ایسے میں کئی افراد ”بمع اہل و عیال کے ساتھ“ موٹر سائیکل پر خراماں خراماں چلے جارہے ہیں۔ ایک سویا ہوا بچہ ٹنکی پر ہے، دوسرا یعنی سب سے چھوٹا بچہ خاتون خانہ کی گود میں ہے۔ اور تیسرا یعنی سب سے بڑا بچہ میاں اور بیوی کے درمیان پَھنسا، ٹُھنسا جھونکے مار رہا ہے۔ اور حسن تغافل ملاحظہ فرمائیے کہ یہ ”گھریلو قافلہ“ سڑک کے درمیانی ٹریک پر رواں ہے! جس پر گاڑیاں دندناتی ہوئی آتی، جاتی ہیں اور ناگن کی طرح اِٹھلاکر بل کھاتی ہوئی شاہراہ کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن جاتی ہے اُس پر بیشتر گھرانے موٹر سائیکل پر اِسی طور لاپروائی سے سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں! شہر کے مخدوش حالات اور کسی بھی شروع ہونے جانے والی فائرنگ کے باوجود رات تین چار بجے تک بے فکری سے شاپنگ اور پھر معمولی سی موٹر سائیکل پر لَد، پَھند کر پورے گھرانے کی گھر واپسی کچھ پاکستانی معاشرے ہی کی خصوصیت ہوسکتی ہے! عید یا کسی بھی دوسرے مبارک موقع پر خوش ہونا، خوشی منانا برحق ہے مگر کچھ اِدھر اُدھر بھی تو دیکھا جاتا ہے، حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش بھی تو کی جاتی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ لا پروائی اور بے ذہنی کو چادر بناکر اوڑھ لیا جائے اور پھر اُس چادر کو اُتار پھینکنے کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے؟

من حیث القوم ہمارا حال عجیب ہے۔ ہر فرد یہ ثابت کرنے پر تُلا ہے کہ پورے معاشرے کو سمجھنے کے لیے ایک بس اُسی کو بغور دیکھ لینا کافی ہے! کسی بازار میں گھوم پھر کر دیکھ لیجیے۔ لوگ سبزی اور پھل بھی خریدتے ہیں تو محض دو چار ٹھیلوں سے دام پوچھ کر۔ اور کبھی کبھی تو اِتنی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ بازار میں اچھی طرح گھوم پھر کر، دام پوچھ کر خریداری کو بھی توہین تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم کن کن معاملات میں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں! کاش اِتنی توہین کے بہ قدر عزت بھی ہم نے کمائی ہوتی!

ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانا بھی پڑتا ہے۔ کپڑا بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور سَر چھپانے کا ٹھکانہ بھی چاہیے۔ قوم پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ کسی معمولی سی چیز کے لیے بھی سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ پان اور گٹکے جیسی عِلتوں کی غلامی بھی اِس طرح قبول کرلی گئی ہے جیسے اِن کے بغیر زندگی گزاری ہی نہیں جاسکتی۔ بس میں سیٹ نہ ملنے کو اپنی شدید توہین سمجھ لینا عام روش ہے۔ بس میں کھڑے ہوکر سفر کے دوران اگر کسی کا پیر لگ جائے تو لوگ اِس عمومی سی غلطی یا حرکت کو بھی شان میں گستاخی سمجھتے ہوئے بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں! قطار میں دس پندرہ منٹ کھڑا رہنا پڑے تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ”جہاں پناہ“ کے سر پر پہاڑ آ گرا ہے!

ہم ایسی ہی قوم ہیں۔ کوئی بھی کام وقت پر نہیں سُوجھتا اور ہر کام بے وقت سُوجھتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اب ایک کھلی کتاب بن چُکا ہے اور جو اِس کتاب کا مطالعہ نہ کرے وہ بے ذوق اور بد نصیب ہے!

معاشرے کا کتاب کی طرح عمیق مطالعہ کرنے کے معاملے میں یدِ طُولٰی رکھنے والے محترم انور مسعود فرماتے ہیں
اِک بات آگئی ہے بہت کُھل کے سامنے
ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا
اِک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا!

یہ تو انور صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور خُلوص ہے کہ ہر گھر میں صرف ایک فرد کو ٹیڑھے مزاج کا قرار دیا ہے۔ ہم کوئی سََکہ بند اور جَدّی پُشتی کالم نگار تو ہیں نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر کسی کے بارے میں کچھ بھی لِکھ ماریں۔ کوئی اور ہوتا تو انور صاحب کی سادہ لوحی پر کیا کیا نہ لِکھ ڈالتا۔ ہم یہ کہنے کا حوصلہ اپنے میں نہیں پاتے کہ انور صاحب کا سماجی مطالعہ کمزور ہے مگر معذرت کے ساتھ اِتنا ضرور عرض کریں گے کہ سماجی مُطالعے اور مُشاہدے کی بنیاد پر اُنہوں نے جو کہا ہے کہ وہ شاید بیس تیس سال قبل کے زمانے پر ”فٹ بیٹھتا“ ہے! حقیقت یہ ہے کہ اب ہر گھر میں شاید کوئی ایک آدھ فرد ہی سیدھے مزاج کا ہے! اور یہ معاملہ بھی اِن سُطور کے تحریر کئے جانے تک کا ہے۔ کالم کی اشاعت کے بعد ہر پاکستانی گھرانے کی حتمی پوزیشن کیا ہوگی، ہم پورے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525066 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More