اس کرہِ ارض پر انسان کیلئے خیرو شر کی ایک دنیا آباد ہے
جواسے ہر آن اپنی جانب کھینچتی رہتی ہے لہذا انسان کیلئے اس کے اندرزندہ
رہنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے۔ مذ اہبِ عالم کے ساتھ ساتھ فلاسفرز، علماء ،
سائنسدانوں ،دانشوروں اء اور اہلِ حق نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کاوشیں کیں
جو آنے والے زمانوں میں انسانی ارتقااور سر بلندی ء کی بنیاد بنیں ۔ایرانی
دانشور زرتشت نے خیرو شر کی اس دو دھاری دنیا میں دو خداؤں (یزدان اور
اہرمن) کا نظریہ پیش کیا ۔ایک خدا نیکی کا اور ایک خدا شر کا ۔اس کا نظریہ
قبولِ عام حاصل نہ کر سکا کیونکہ د وو خداؤں کا نظریہ غیر فطری تھا۔اسلام
نے (قل ہو واﷲ ہو احد) کے پیغام سے اس باطل نظریہ کی مکمل نفی کر دی۔خدائے
واحد پر ایمان اسلام کی روح ہے اور اس کی ساری تعلیمات اسی کے گرد گھومتی
ہیں ۔ ارشادِ خدا وندی ہے (خدا حی القیوم ہے اور اسے کبھی اونگھ نہیں آتی )
۔خیرو شر کی اس رزمگاہ کے اندر انسان بے شمار مسائل ، مشکلات،مصائب اور
آزمائشوں کا شکار ہے۔وہ شر کا نہیں خیر کا طلبگار ہے ۔وہ دل بیتاب کو خوش و
خرم رکھنے کیلئے محبت کی دنیا آباد کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خیرو شر کی جنگ
کو جذبہِ محبت کے بغیر جیتنا ناممکن ہے ۔مرد اور عورت کی فطری محبت ، کشش
اور مقناطیسیت اس کائنات کی نہ صرف بنیاد ہے بلکہ اس کائنات کی دلکشی اور
جاذبیت کا محور بھی ہے۔انسان کی ساری دلچسپیاں اسی محبت کی مرہونِ منت ہیں
۔انسان کی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے پنجابی شاعر بابا غلام فرید ؔ محبوب
کی بے رخی کو دوزخ سے تشبیہ دیتے ہیں ۔(غلام فریدا میں تاں دوزخ سڑساں۔،۔جے
میں مکھ ماہی ولوں موڑاں) ۔ مرزا غالبؔ نے اپنے محبوب کی خوشنودی اور دیدار
کیلئے ہر در پر سرِ تسلیم خم کرنے کا اعلان کررکھا تھا (مدت ہوئی ہے یار کو
مہمان کئے ہوئے۔،۔جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے)۔،۔(پھر جی میں ہے کہ در
پر کسی کے پڑے رہیں۔،۔ سر زیر بار منتِ درباں کئے ہوئے ) ۔ فیض احمد فیضؔ
شبِ انتظار کے کرب سے گزرے تو ایک ہوک ان کے دل سے نکلی ۔(تم آئے ہو نہ شبِ
انتظار گزری ہے۔،۔ تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے ) غالب ؔ شب انتظار کی
جگہ شبِ غم کی اصطلاع استعمال کرتے ہیں(کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم
بری بلا ہے ۔،۔ مجھے کیا براتھا مرنا اگر ایک بار ہوتا)ڈاکٹر مقصود جعفریؔ
نے تو ایک ہی شعر میں کمال ِ فن کا مظاہرہ کیا اور محبوب کے دیدار کو عبادت
سے تشبیہ ہ دے ڈالی ۔( تم جو آئے ہو میرے پاس تو یوں لگتا ہے ۔،۔ مدتوں بعد
نگاہوں نے عبادت کی ہے) ۔ ،۔
دنیاوی محبوب کی محبت کے ساتھ ساتھ مالکِ کائنات نے اس کرہِ ارض کو جاذیت
عطا کرنے کیلئے انسان کیلئے اولاد، والدین،بہن بھائی اور دوستی کے رشتوں
کوتخلیق کیا تا کہ انسان کی زندگی محبت کی بدورلت آسانیوں کی آماجگاہ بنی
رہے۔ ا نسان اپنے والدین اور اساتذہ سے سیکھتا ہے ۔ میرے لئے میرے والدِ
محترم ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔میرے وہ تمام محسن، مہربان اور خیر
خواہ جھنیں میرے والدِ محترم کو دیکھنے کا اعزاز حاصل ہے انھیں علم ہے کہ
میرے والدِ محترم کا رنگ سرخ و سفید تھا اور ان کی شخصیت میں خاص قسم کا
وقار جھلکتا تھا ۔دوسروں کا احترام ان کی گھٹی میں شامل تھا ۔ ان کی نظر
میں چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں تھی بلکہ وہ سب کیلئے شجرِ سایہ دار تھے
۔امانت و دیانت، صداقت،صلہ رحمی،وعدہ کی پاسداری،اورضرورتمندوں کی حاجت
روائی ان کی ذات کا جزوِ لا ینفک تھا۔ انھیں آہِ سحرگاہی کی عادت تھی جو
سالہا سال ان کی ذات کا حصہ رہی ۔ والدِ محترم کی آواز میں سوز و گداز تھا
لہذا گھر میں جب بھی علم و ادب کی محفل جمتی تو والدِ محترم سے یوسف زلیخا
کا قصہ سنانے کی فرمائش کی جاتی ۔میرے اندر لفظ کی عظمت اور ادب سے محبت
اسی ماحول کا عطا کردہ تحفہ ہے ۔بچپن میں لفظ نے میرے اندر جس طرح گھر کیا
اس میں والدِ محترم کی سجائی گئی محافل کا بڑا عمل دخل ہے۔ صبح صادق بآوازِ
بلند تلاوتِ قرانِ پاک ان کی زندگی کا معمول تھا۔اپنے سارے عزیز و اقار ب
اور دوست احباب جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کیلئے دعائے مغرفت ان کا
معمول تھا جس کا میں نے سال ہا سال مشاہدہ کیا۔یہ ایک طویل سفر ہوتا ہے جسے
خشیتِ الہی کی صفت سے ہی جاری و ساری رکھا جا سکتا ہے۔ایک آدھ دن کی بات ہو
تو ہر کوئی آہِ ِ سحر گاہی کو اپنی ذات کا حصہ بنالے لیکن یہ تو زندگی کی
آخری سانسوں تک کا سودا ہو تا ہے جسے صرف دل والے ہی جاری رکھ سکتے
ہیں۔گرمی ، سردی اور یخ بستہ راتوں میں یادِ خدا کیلئے نرم و گرم بستر کو
خیر باد کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا ہے لیکن جن کے دل نورِ الہی سے
منور ہوتے ہیں وہ اسے نعمتِ خدا وندی سمجھ کر اس کی ادائیگی میں جٹ جاتے
ہیں ۔ دنیا دار جس چیز کی ادائیگی سے ڈرتے ہیں دل والوں کو اسی کی ادائیگی
میں سرور آتا ہے۔ ان کیلئے آہِ سحر گاہی میں سوزو گداز کا ایک ایسا جہاں
آباد ہوتا ہے جس کا نشہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلاجا تا ہے ۔ وہ تو
اس بات کے منٹظر ہوتے ہیں کہ سحر گاہی کی نعمت ان کی ذات کا حصہ بنے کیونکہ
یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب وہ اپنے رب سے بلا واسطہ ہم کلامی کے شرف ے فیضیاب
ہوتے ہیں۔ ان کا ہدف دیدارِ الہی ہوتا ہے اس لئے ان کی تڑپ کم ہونے کی
بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ علامہ اقبالؔ کا دلنشین انداز دیکھئے (کبھی اے
حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں۔،۔ کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری
جبینِ نیاز میں ) د ل کے تار مالکِ کائنات سے جڑ جائیں تو پھر کششِ دنیا
ماند پڑ جاتی ہے حالانکہ دنیا داری سے دامن بچانا انتہائی کٹھن ہو تا ہے ۔
اہلِ دل کا یہی تو کمال ہوتا ہے کہ وہ اہلِ جہاں سے بالکل علیھدہ اپنی دنیا
آباد کرتے ہیں۔ایک ایسی دنیا جو محبتوں کی آماجگاہ ہوتی ہے اور جس میں حسد
،کینہ،کدورت اور حرص و طمع کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔،۔
ِآہِ سحر گاہی کے حا ملین کا صلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی ذات میں منکسر
المزاجی،حلاوت،حلیمی اور نرمی کا اجالا بھر دیا جاتا ہے۔دوسروں کے لئے
آسانیاں ان کی پہچان بنتی ہے۔ لہذا جو بھی ایسے افراد سے شرفِ ملاقات کے
اعزاز سے ہمکنار ہوتاہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے ۔ آہِ سحر گاہی کا راگ
الاپنے والوں کا مقام تو رفعتوں کا نشان ہو تا ہے ۔علامہ اقبالؔ انھیں بلند
و بالا مسند سے سرفراز کرتے ہیں۔(عطار ہو رومی ہو، رازی ہو غزالی ہو۔،۔ کچھ
ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی)۔ تحریکِ پاکستان میں والدِ محترم کی خدمات
سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔۱۹۴۴ میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کو
سیالکوٹ میں دیکھے اور سننے کا انھیں اعزاز حاصل تھا ۔ چٹی شیخاں کے نامور
سپوت محمد شعفیع بٹ کی معیت میں جس دستہ کو قائدِ اعظم کی سیکورٹی کے فرائض
سر انجام دینے کا فریضہ سونپا گیا تھا اس کا تعلق ہمارے خاندان سے
تھا۔والدِ محترم نے اسی جلسہ میں قائدِ اعظم کو دیکھنے کی سعادت حا صل کی
تھی جس کا ذکر وہ اکثرو بیشتر کرتے رہتے تھے ۔اسی جلسہ میں ملک کے نامور
شاعر پروفیسر اصغر سودائی ؔنے اپنی شہرہ آفاق نظم۔ (پاکستان کا مطلب کیا لا
الہ اﷲ) پڑھی تھی ۔ محبت ایک دفعہ جنم لے لے تو پھر اسے مٹایا نہیں جا
سکتا۔ یہ والدِ محترم کی تربیت کا کمال ہے کہ میں نے پورے عالم میں دو قومی
نظریہ کا علم بلند کر رکھا ہے ۔ پاکستان سے میرے خاندان کی محبت دوسروں
کیلئے باعثِ تقلید ہے۔ایک ایسی کھری اورسچی محبت جس کے بیان سے دانشوروں کے
د لوں کی دھڑ کنیں تیز ہو جاتی ہیں ۔وطن کی محبت میں لپٹے ہوئے میرے دو
اشعار ۔( یہ جو پاک وطن ہے میرا تعبیر ہے اس کے خوابوں کی ۔،۔اس کی مٹی میں
ہے خوشبولہو رنگ گلابوں کی) ۔،۔ (اس میں میرے جانبازوں کی تکبیریں اور
اذانیں ہیں۔،۔سایہ فگن ہے چاندنی ان پہ روشن روشن مہتابوں کی ) ۔(جاری ہے
)۔،۔
|