قومی اسمبلی نے کراچی اورکوئٹہ
میں امن وامان کی صورتحال اورحالات کاجائزہ لینے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں
کے نمائندوں پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی قرارداد منظور
کرلی ہے۔ کمیٹی پہلے کراچی اور پھرکوئٹہ جاکرحقائق معلوم کرے گی اور 2 ماہ
کے اندر اپنی رپورٹ دے گی۔ بلوچستان میں تخریب کاری کی شدت میں اضافہ ہوتا
چلا جارہا ہے۔ ایک منظم طریقے سے وہاں علیحدگی کی تحریک کو پروان چڑھایا
جارہا ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں میں بلوچستان میں گیس کی تنصیبات ، ریل گاڑیوں
اورپٹریوں کو نشانہ بنانے کے 107واقعات پیش آئے۔ راکٹ حملوں کے 43، ٹارگٹ
کلنگ کے 64 اور اغوا کے 142 واقعات ہوئے۔ فرنٹیر فورس کے دستوں کو خاص طور
پر نشانہ بنایا گیا جن میں دو ہزار کے قریب افسراور جوان شہید ہوچکے ہیں۔
حالیہ واقعات میں ضلع جعفر آباد کے صدر مقام ڈیرہ اللہ یار میں ایک ہوٹل
میں بم دھماکے کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔بلوچ
لبریشن ٹائیگر کے ترجمان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اسی طرح خضدار
میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے مقامی سینئر صحافی منیر احمد شاکر کو
ہلاک کر دیا۔اس تناظر میں قومی اسمبل کی کمیٹی کی تشکیل انتہائی اہم قدم ہے
جسے فوری طور پر اپنا کام شروع کردینا چاہئے۔ تاکہ بیماری کی صحیح تشخیص
کرکے اس کا علاج کیا جاسکے۔
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ بلوچستان کے حالات میں ابتری اس وقت کبھی بھی
نہیں دیکھی گئی جب اس صوبے پر ان بلوچ سرداروں کی حکومت تھی جو اب باغیانہ
رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس وقت تو وہاں کے عوام کے حالات آج سے زیادہ
دگرگوں تھے۔ آج جبکہ وہاں ترقی کے لئے خصوصی اقدامات کئے جارہے ہیں، مزاحمت
اور بدامنی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی
طرف سے اس وقت بلوچستان کے عوام کا احساسِ محرومی دور کرنے کے لئے اہم
اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ حقائق اور اعدادوشمار کے تناظر میں دیکھاجائے تو
یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ شدید مالی بحران کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے
صوبے کے فنڈز میں کوئی کمی نہیں لائی گئی۔ مالی سال 2010-11 ءمیں صوبے کو
152بلین روپے فراہم کئے گئے جو کہ مالی سال 2004-05ء کی نسبت 100 بلین روپے
زیادہ تھے۔ مزید براں ڈویثرنل پول کے حصے میں سے بلوچستان کے حصہ میں 4
فیصد اضافہ این ایف سی ایوارڈ کا ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ اسی طرح 12سال تک
کے گیس کی ترقی کی مد میں 120بلین روپے کی قسطیں بھی شامل ہیں ۔ 2009ءمیں
دس بلین ڈالر کی اضافی گرانٹ بھی وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی۔ جی
ایس ٹی(جنرل سیلز ٹیکس) بھی صوبے کو منتقل کردیا گیا۔ جو صوبے کی آمدنی میں
اضافے کا ایک اور بڑا ذریعہ ہے۔گزشتہ دوسال میں جتنا ترقیاتی کام بلوچستان
میں کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے
بلوچستان کی محرومیوں کو دور کر نے اور گلے شکوے ختم کرنے کی کافی حد تک
کوشش کی ہے۔ جو قابل تحسین ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اتنے وسائل اور فنڈز کے باوجود صوبے کو بحران زدہ کیوں کہا
جاتا ہے اور بلوچ عوام کی محرومیوں کی پرانی کہانیاں سنا کر بین کیوں ڈالے
جارہے ہیں ؟ باغی اور غیرملکی عناصر آئے روز وہاں اپنی مذموم سرگرمیوں میں
اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ صوبے کو ان کی ان مذموم کاروائیوں سے صرف اسی صورت
میں بچایا جاسکتا ہے جب تمام ریاستی ادارے جن میں سیاسی، انتظامی ، سیکورٹی،
انٹیلی جنس اور سول سوسائٹی کے اراکین مل کر کام کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو
یہ مقولہ سچ ثابت ہوگا کہ پاکستانی قوم اپنی کارکردگی سے معجزے دکھا سکتی
ہے۔ لیکن جہاں تک بلوچستان کا سوال ہے تو معجزے دکھانے کی یہ صلاحیت کم از
کم اس وقت تک عملی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک یہاں کے عوام پر سردار
غالب ہیں۔ سرداروں کا طرز عمل اور رویہ بھکاری مافیا سے کم نہیں جواپنے ہی
لوگوں کی بدحالی، پسماندگی اور محرومیوں کے نام پر وفاقی وصوبائی حکومتوں
اور بیرونی عناصر سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ اس تناظر میں یہاں کوئی
بھی ترقیاتی منصوبہ ان کے اس منافع بخش کارروبار کی راہ میں رکاوٹ ثابت
ہوسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کے ذاتی مفادات کو کوئی خطرہ ہوتا ہے تو وہ
شورش برپا کردیتے ہیں۔ حتیٰ کہ علیحدگی کی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ ان سے
بغاوت کی بُو آنے لگتی ہے۔ وہ علی الاعلان پاکستان کے دشمنوں سے براہِ راست
مداخلت کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ اطلاع یہ ہے کہ
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے گروپس جو کہ لندن میں خود ساختہ
جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،لندن میں بھارتی سفارتکاروں کیساتھ پر
اسرار ملاقاتوں میں مصروف پائے گئے ہیں۔ان نوجوانوں کو بھارتی سفارتکار
لندن میں باقاعدہ علیحدگی پر ابھار رہے ہیں۔ ملکی سالمیت کیخلاف زہر آلودہ
مواد پر مبنی لٹریچر شائع کر کے بلوچستان میں تقسیم کیا جا رہاہے۔ بھارتی
خفیہ ایجنسی ”را“ بلوچستان میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کر رہی ہے جبکہ ہماری
حکومت حقائق کا علم ہونے کے باوجود خاموش ہے۔
اس وقت فرنٹیر کور سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صوبے کی سلامتی اور حفاظت
اور تمام ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی بھی مامور ہے۔ ایف سی کی طرف سے فراہم
کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چھ ماہ میں میں تقریبا سولہ سو غیرملکی
تارکین وطن کو پوچھ گچھ کے لئے پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ان میں 14 کا تعلق
ایران، 15کا تعلق بنگلہ دیش اور باقی افغان شہری شامل ہیں جو بلوچستان کے
غیر قانونی طور پر داخل ہوئے۔سوال یہ ہے کہ ان غیرملکی عناصر کی بلوچستان
میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ کیا یہ لوگ صوبے میں بدامنی پھیلا کے ذمہ دار تو
نہیں۔ صوبے میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے یہ افراد مقامی افراد کو
اسلحہ اور گولہ بارود تو فراہم نہیں کرتے۔ مقامی شورش میں ان کا کس حد تک
ہاتھ ہے؟ قومی سطح پر بلوچستان کے حوالے سے خطرے کی شدت کو نہ بھانپنا بھی
ایک خطرناک ترین غلطی ہے۔ شاید ہمیں احساس نہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں ۔
جہاں ہمیں ایک سے زائد دشمنوں کا سامنا ہے جو کسی بھی وقت اور کسی بھی سمت
سے ہم پر حملہ وار ہوسکتے ہیں۔ اس اذیت ناک دور سے نجات اور پاکستان کی
سالمیت برقرار رکھنے کے لئے معاشرے کے سب طبقوں کو ایک ساتھ برابر اور
تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا۔اس تناظر میں بلوچستان کی صورتحال کا جائزہ
لینے کے لئے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ایک خوش آئند قدم ہے۔ |