ہر قوم پر ایک ایسا وقت آتا ہے جب سالوں کے دھوکے اور
دھکے کھا کر ان کی شعوری نفرت عروج پکڑ لیتی ہے، پھر حالات کا جبر اس قوم
کی نبض کو ایک ایسی شخصیت کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو ان کی نفرت کو اپنے
دامن میں سمیٹ کر فولادی قوت میں ڈھال دیتا ہے۔ پھر اس شخصیت کی ہر بات کو
قوم بالخصوص Youth حکم کا درجہ دینے لگتی ہے۔ اب یہ اس شخصیت کی مرضی ہے کہ
وہ اس فولادی قوت کو تعمیری اپروچ دے کر قوم کو شاندار مستقبل کی نوید
سنائے یا پھر اپنی Ego اور انتقام کی خوفناک آگ میں جل کر قوم کے خوبصورت
خواب جلا کر راکھ کر دے۔
وطن عزیز پاکستان میں حالات کے جبر نے یہ تاج پاکستان تحریک انصاف کے
سربراہ محترم عمران خان صاحب کے سر سجایا ہے۔ آج پورا ملک بالخصوص نوجوان
عمران خان کی آواز پر یک زبان ہو کر نہ صرف ویلکم کر رہے ہیں بلکہ تبدیلی
کی خاطر ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ اگر ہم رشئین قوم Russian Nation کو
دیکھیں تو صدر ولادی میر پیوٹن نے جھنڈا اٹھایا ہوا ہے، ہمارے دوست چائنہ
میں یہ علم صدر شی چنگ پنگ نے بلند کر رکھا ہے جبکہ ترک قوم کی نبض محترم
طیب اردگان صاحب نے تھام رکھی ہے۔
وطن عزیز پاکستان کی جمہور کو جمہوریت کے نام پر نعروں اور وعدوں پر سالوں
سے ٹرخایا گیا ہے۔ جتنے بھی جمہوری و غیر جمہوری عناصر آئے اکثریت کا
گورننس کا انداز ایک جیسا رہا، سب کا مطمع نظر اپنی ذات کو اقتدار کے
ایوانوں میں relevant رکھنا رہا۔ افسوس ان کی ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگوں،
Blame game اور حریفوں کے خلاف مقدمات کے الجھاؤ نے قوم کا نصیب سلجھنے ہی
نہیں دیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج ساری لیگیں، عناصر اور پارٹیاں آج کی Youth کی نظر میں
بےوقعت ہو چکی ہیں، آج ان تمام کا سچ بھی حریفِ کے جھوٹ کے مقابلے میں
بےاثر ہو چکا ہے۔ یہ سب ان کے ماضی میں بنائے گئے خود غرضانہ پروفائل کی
نظر ہو چکا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سالوں کا پھل ہے جو ان سب کو کاٹنا پڑ رہا
ہے۔ آج یہ سارے مل کر بھی اپنے حریف سے مسلسل شکست کھا رہے ہیں، بنیادی طور
پر ان کو درپیش تمام بحرانوں کی ماں Crises of Credibility درپیش ہے۔
میرے خیال میں عمران خان صاحب اگلے دس سال تک کیلئے ناقابل شکست بن چکے
ہیں، ان کے خلاف ہر ہونے والا اور ہر آنے والا پروپیگنڈہ بے اثر رہے گا۔
عمران خان صاحب کے تمام سیاسی حریف بشمول اندورنی و بیرونی ہر قسم کے وسائل
ہونے اور استعمال کرنے کے باوجود اس کا مقام عوام کے دل سے نہیں نکال سکے۔
عمران خان کے حریفوں کو اس کے اقتدار کے چار سال جو ڈیلیوری کے لحاظ سے
Poor Governance سے بھرپور تھے بھی کوئی خاص فائدہ نہ دے سکے۔
اس کے خلاف چلنے والی عدم اعتماد کی تحریک نے عوام میں اس کی مقبولیت کو
چار چاند لگا دئیے۔ اس کے مخالفین اپنی miscalculation پر اپنے ہاتھ چبا
رہے ہیں۔ انہیں اب اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ ان کے
تمام قسم کے ہتھکنڈے اور اتحاد قصہ پارینہ بن چکا ہے، عمران خان اب اپنے
سیاسی مخالفین کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ پاکستانی قوم بالخصوص نوجوان
نسل اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ اب عمران خان کو سوائے خود
عمران خان کے غلط فیصلوں کے کوئی بھی چیز Minus مائنس نہیں کر سکتی۔
بطور اسٹوڈنٹ آف لیڈر شپ میرا یقین ہے کہ اگر عمران خان کو راستہ نہ دیا
گیا تو Youth کا خوفناک غصہ تمام اسٹیک ہولڈرز all Stakeholders کو face
کرنا پڑے گا۔ ان تمام کے پاس بس one & only ایک ہی راستہ ہے کہ عمران خان
کو راستہ دیا جائے۔ اگر اس نے Good Governance کے ذریعے Rule of Law کو
ensure کر دیا تو وطن عزیز عروج پا لے گا، بصورتِ دیگر اس کی ناقص
کارکردگی، بیڈگورننس اور فیوڈل مائنڈ سیٹ بیسڈ کابینہ اسے خود ہی زوال کے
پاتال میں پہنچا دے گی۔
میں پھر عرض کر رہا ہوں کہ عمران خان صاحب کا راستہ روکنے کی ہر جمہوری و
غیر جمہوری کوشش اسے پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دے گی۔ وہ آج کے لمحے میں
ایسی حقیقت بن کر ابھر چکا ہے جسے نہ ماننا سسٹم کے لئے خطرناک ترین ثابت
ہو سکتا ہے۔ نوجوان اس کے دیوانے اور اس کی ہر بات کو سچ سمجھتے ہیں، ان کی
اکثریت تحقیق و تصدیق کی زحمت گوارہ نہیں کرتی۔ اس کا کہا ان کیلئے
Quotation اور حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔
عمران خان آج کے لمحے میں پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت بن کر ابھر چکے
ہیں۔ وہ آج کی سب سے بڑی پہیلی بن کر ابھرے ہیں جسے بوجنے کیلئے شعوری
ارتقاء درکار ہوگا جسے Compound effect کی طاقت جوڑے گی یا توڑے گی۔ اب یہ
کشتی محترم عمران خان صاحب کے حوالے ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ انشاءاللہ
آنے والی حکومت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر عظیم
الشان وژن Vision کو ضرور transform کریں گے۔
|