ترکیہ کا قیامت خیز زلزلہ اور اقوام عالم

ترکیہ میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ قیامت خیز زلزلے کے بدترین اثرات نظر آرہے ہیں اور اموات کے اعداد و شمار خوفناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہر گزرتے روز کے ساتھ اموات میں کبھی سیکڑوں تو کبھی ہزاروں کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اب تک 15 ہزار سے زائد انسانوں کی اموات ایک دل دہلادینے والی حقیقت ہے۔

اس قسم کی آسمانی آفات، بالخصوص زلزلوں میں جس قسم کے ابتدائی اعدادوشمار نظرآتے ہیں، اگر تین گنا نہ ہوجائیں تو دو گنا تک ضرور آگے چلے جاتے ہیں، راقم الحروف کی دعا ہے کہ ترکیہ میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد یہیں تھم جائے، جہاں ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں لیکن سائنس اس کے برعکس اموات کی غمازی کرتی ہے۔

ملبے تلے دبے ہوئے افراد کو نکالنے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے اور آج بھی ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کی کارروائی جاری ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ، ویسے ویسے منوں ملبے کے نیچے دبے انسانوں کی زندگیوں کی امید دم توڑتی جارہی ہے، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی درست تعداد ترکیہ کی جانب سے بھی جاری نہیں کی جاسکی۔

عموماً ایسے زلزلوں میں ہلاکتوں کے علاوہ زخمیوں کی تعداد میں بھی 3 گنا تک اضافے کا خدشہ ہوتا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ 30 ہزار یا 40 ہزار سے بھی زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہماری دعا اور تمنا یہی ہے کہ زخمیوں کی تعداد بھی وہیں رک جائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ا س تعداد میں اضافہ نہ ہو۔ مگر اے کاش۔۔۔

زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث اموات بڑھ جایا کرتی ہیں۔ صرف 2 روز میں سیکڑوں افراد کو ملبے تلے سے ریسکیو کر لیا گیا۔ پاکستان سے بھی ریسکیو ٹیم ترکی پہنچی ہوئی ہے اور ریسکیو کارروائیوں کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ ائیر فورس کا سی 130 طیارہ بمعہ امدادی ٹیموں اور زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے ترکیہ پہنچ چکا ہے۔ دنیا کے 60 سے زائد ممالک سے ریسکیو عملہ ترکی میں زلزلہ زدگان کیلئے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ترکیہ اور شام نے مجموعی طور پر بھاری جانی نقصان اٹھایا ہے ۔

ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ترکیہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والا ملک ہے۔ پاکستان میں بھی عوام کے اندر ترکیہ کیلئے بھائی چارہ، محبت، یگانگت، یکجہتی اور مدد کیلئے جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان سے قبل بھی برصغیر کے اس حصے میں جہاں پاکستان قائم ہوا وہاں سے ترکیہ کی جنگ آزادی کے وقت بڑی تعداد میں عوام ترکیہ پہنچے تھے جسے آج بھی ترکیہ کے عوام دل کی گہرائیوں سے سراہتے ہیں ۔

پاکستان کے عوام یہ قطعی نہیں بھولا کہ 2005 میں جب پاکستان میں تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا جس میں ہم نے ہزاروں جانیں گنوائیں تو ترکیہ نے ہماری مدد کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

ترکیہ زلزلے کیلئے ریسکیو کارروائیوں کی ابتدا ہی سے پاکستان کی مدد کرنے والا بڑا ملک بن گیا جس نے ہماری امداد کیلئے کم از کم 30 امدادی جہاز روانہ کیے جس میں ادویات، اشیائے ضروریہ، کمبل اور دیگر سازوسامان موجود تھا۔ پاکستان کی 150 ملین ڈالرز تک کی امداد بھی کی۔

پاکستان کو 1 ملین بلینکٹس دیں جبکہ ترکی کے ریسکیو ورکرز پاکستانیوں کو بچانے کیلئے اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھے تاہم پاکستان کی امداد سے دریغ نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی جس طرح سے مدد کی گئی، پاکستان کے عوام آج تک اسے بھول نہیں سکے ہیں۔ ہمیں ترکیہ کے عوام اور حکومت کے احسانات حرف بہ حرف یاد ہیں۔ زلزلے کی کیا بات کیجئے، پاکستان میں تو سیلاب بھی آیا تو سیلاب زدگان کی امداد کیلئے بھی ترکیہ پیش پیش رہا۔

زلزلے کے بعد ترکیہ میں 3 ماہ کی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس قسم کا عظیم نقصان اس زلزلے نے ترکیہ کو پہنچایا ہے، زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے تو شاید اتنا وقت نہ لگے لیکن بحالی کے کاموں کیلئے ترکیہ کو بھی سالہا سال لگ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے ایمرجنسی نافذ کی اور عالمی برادری سے امداد کی اپیل بھی کی، پاکستان میں 2005 میں جو زلزلہ آیا تھا اس کی شدت 7 اعشاریہ 6 جبکہ ترکیہ میں پیر کے روز آنے والے زلزلے کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی تھی۔

ایک زلزلے کے 2 گھنٹے بعد دوسرا زلزلہ بھی آیا، اس وقت 70 سے زائد ممالک امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ 2 روز میں 30 ریسکیو ٹیموں نے زلزلہ زدگان کو ابتدائی امداد فراہم کی۔ اقوامِ متحدہ نے بھی ترکیہ کیلئے امداد کی اپیل کی ہے۔ عالمی برادری بھی امداد کیلئے سنجیدہ نظر آتی ہے اور امدادی ٹیموں کو روانہ کیا جارہا ہے۔ شام کے کم و بیش 40 لاکھ مصیبت کے ستائے مہاجرین زلزلے کی زد میں آگئے ہیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ شام میں مزید کوئی زلزلہ نہ آئے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ترکیہ اور شام کیلئے عالمی برادری سے امداد کی غرض سے مزید اقدامات کی توقع کی جارہی ہے۔

شام ہو یا ترکیہ دونوں ہی مسلمان ممالک ہیں اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی ان کیلئے امداد کی اپیل کی جاسکتی ہے تاکہ مسلم ممالک یکجا ہو کر بھی ان دونوں ممالک کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ اگر او آئی سی کی جانب سے زلزلے کے موضوع پر سربراہانِ مملکت کا اجلاس نہیں بلایا جاتا تو کم از کم وزرائے خارجہ کی سطح پر کانفرنس بلائی جاسکتی ہے۔ ترکیہ کے لوگ مستحق بھی ہیں تو ایسے میں او آئی سی کو ان کی مدد کیلئے پیش پیش ہونا چاہیے، اس میں فلسطین اور کشمیر جیسے بین الاقوامی سیاسی مسائل بھی درپیش نہیں جس کی وجہ سے کچھ ممالک فلسطینیوں اور کشمیریوں کی مدد میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔

پاکستان کی جانب سے بھی اقوامِ متحدہ کو ہنگامی اجلاس بلائے جانے کی درخواست کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کا طریقہ کا ریہی ہے کہ کوئی بھی ممبر ملک ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کرے اور دیگر ممالک سادہ اکثریت کے ساتھ اس کا ساتھ دیں تو ہنگامی اجلاس بلانا ضروری ہوجاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کا دفترِ خارجہ ترکیہ کی امداد کیلئے یہ قدم ضرور اٹھائے گا۔ شام میں بھی ہلالِ احمر نے اپیل کی ہے کہ عالمی برادری شام کے زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے آگے آئیں کیونکہ امدادی کارروائیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شام پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اس پر شامی حکومت نے امریکا سے اپیل کی ہے کہ پابندیوں کو زلزلے جیسی آفت کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الفور ختم کیا جائے ، راقم الحروف ذاتی طور پر چاہتا ہے کہ دیگر ممالک اور پاکستانی معاشرہ بھی شام کے زلزلہ زدگان کیلئے آواز اٹھائے تاکہ امریکا پر بھی دباؤ قائم ہو اور شام سے پابندیاں ہٹا دی جائیں، چاہے وہ پابندیاں صرف اور صرف ریلیف اور ریسکیو کی کارروائیوں کیلئے ہی کیوں نہ مددگار ثابت ہوں، تاکہ زلزلہ زدگان کی امداد ہوسکے۔

خطے کی کچھ اور عالمی تنظیمیں بشمول افریقن یونین اور یورپین یونین ، شنگھائی تعاون تنظیم، ای سی او اور دیگر کو بھی ہنگامی اجلاس بلا کر ترکیہ اور شام کی امداد کیلئے آگے آنا ہوگا اور دونوں ممالک میں جس بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، عالمی برادری کو اپنا دل اتنا ہی بڑا کرکے زلزلہ زدگان کی امداد کرناہوگی۔ آئندہ 24 سے 72 گھنٹوں تک ملبے کو ہٹانے کا بہت سا کام مکمل ہوجائے گا۔ عالمی اداروں کی پیشگوئی کے مطابق کم و بیش 23 کروڑ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں جو ایک عظیم ترین سانحہ ہے۔

پاکستان چونکہ 2005 کے زلزلے، 2010 اور 2022 کے سیلاب سے گزر چکا ہے اس لیے ہم قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی و بربادی کو سمجھتے ہیں اور ترکیہ اور شام کے عوام کے مسائل کا بہتر حل سوچ سکتے ہیں۔

راقم الحروف بھی ہلالِ احمر کا ایک رکن ہے جبکہ ہلالِ احمر پاکستان نے ریسکیو اور ریلیف کارروائیوں کیلئے اپنے آپ کو منظم کیا ہے۔ ہم ترکیہ کے ساتھ نہ صرف زلزلہ زدگان کی امداد بلکہ پاک ترکی تعلقات کے تناظر میں بھی برادرانہ مراسم رکھتے ہیں جن کی بنیاد مذہبی و ثقافتی بنیادوں پر بہت گہری ہے۔ نہ صرف پاکستانی عوام اور حکومت بلکہ یہاں کی فلاحی و سماجی تنظیمیں بھی ترکی کے عوام کی امداد کیلئے روانہ ہو رہی ہیں۔

آخر میں اس بات کا تذکرہ بھی یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پاکستان اور ترکی کے عوام ایک دوسرے کا دکھ درد نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کیلئے دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے ، جس سے جو بن پڑتا ہے ، اس حد تک کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت کی صورتحال اچھی نہیں، اگر ہم زرِ مبادلہ ذخائر یا دیگر معاملات کی بات کریں تاہم پاکستان کی جانب سے ترکیہ کو ٹنوں امداد کی روانگی ایک اچھا پیغام ہے جو ترک حکومت اور عوام تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی ترک عوام کی امداد کیلئے موجود ہے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38484 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More