اسلام ایک آفاقی دین ہے:
اسلام آفاقی دین ہے اس کی بنیادی تعلیمات آفاقی ہیں ۔ اس کی بنیادی تعلیمات
نہ کسی خاص علاقے سے متعلق ہیں نہ کسی خاص زمانے سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ یہ
ہر علاقے اورہر دورکے لیے عام ہیں۔اس کائنات کا ایک روحانی پہلو بھی ہے اس
کا خالق یکتا ہے ، اکیلا ہے اور احد ہے۔ اس نے انسان کو فاعل مختار بنایا
ہے اور انسانی تخلیق اسی کے گرد گھومتی ہے۔انسان فرشتوں اور دیگر اقوام سے
افضل ہے اسے عقل سے نوازا گیا، قوت اظہار و گویائی کی صفت عطا ہوئی اور اسے
سوچنے، سمجھنے اور تسخیر کرنے کی طرف بلایا گیا۔ انسان کی سرشت میں اچھائی
اور برائی دونوں کو رکھا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی بھلائی کے لیے نہ طرف
انبیاء بھیجے گئے بلکہ ان انبیاءپر کتابیں بھی نازل کی گئیں۔ یوں اللہ نے
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکو اپنا نائب اور جانشین بناکر انسانیت کی رشد
وہدایت کے لئے بھیجا ۔اسلام دین فطرت ہے اور مرسل اعظم نے دین اسلام کے
ذریعے ہی توحید کے بھولے ہوئے پیغامات کو دہرایا جس کی حضرت آدم علیہ
السلام سے لیکر خاتم النبیین مرسل اعظم تک تمام الہی نمائندوں نے تبلیغ و
ترویج کی ہے۔اچھائی کی نصیحت برائی کی ممانعت،خدا اور اس کے اولیا سے عقیدت
و محبت کے عنوانات سے ایک کامل منصوبہ اللہ کا ہی تیار کیا ہواہے۔اسلامی
اعتقادات ،عبادات اور معاملات سب انسانی فطرت پر مبنی ہیں۔ اسلام کی
تعلیمات آسان فہم ہیںوقت کے ساتھ ساتھ ان تعلیمات کی تعبیریں بدلتی ہیں
کیوں کہ ہر وقت کی اپنی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ اسلام روز ازل سے ہی آزادی
اظہار و رائے کا قائل ہے اور اسلام ببانگ دہل ”لا اکراہ فی الدین “ کا
اعلان کرتا ہے۔آنحضور نے بھی اتحادامت، وحدت انسانی اور مساوات پر بہت زور
دیا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، تمام ائمہ، شیعہ مراجع تقلید اور ممتاز
شیعہ قیادت نے بھی تفرقہ اندازی کی مذمت کی ہے۔
اسلام دیگر ادیان سے موفقت رکھتا ہے:
کیرن آر م سٹرانگ اپنی کتاب ”خدا کی تاریخ “میں بیان کرتی ہیں:
جب ایک عیسائی ورقہ بن نوفل نے حضرت محمد کو ایک سچّے رسول کی حیثیت سے
تسلیم کیا تو نہ اس نے اور نہ ہی حضرت محمد نے یہ توقع کی کہ وہ مذہبِ
اسلام قبول کر لے۔ حضرت محمد نے یہودیوں یا عیسائیوں سے کبھی یہ نہیں کہا
کہ وہ ان کے اللہ کے مذہب کو قبول کر لیں سوائے ان کے، جنھوں نے خود ان سے
درخواست کی، کیوں کہ ان کے پاس وحی الٰہی کے حامل اپنے پیغمبر تھے۔ قرآنِ
پاک میں بھی الہام کا مطلب پیش رو پیغمبروں پر ہونے والے الہام اور وحی کو
مسترد کرکے اپنا پیغام دینا نہیں، بلکہ اِس کے بجائے اِس بات پر زور دیا
گیا ہے کہ انسانوں کے مذہبی تجربات میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم
بات ہے کہ ہم اِس نقطے پر غور کریں کہ مغرب کے اکثر لوگ اِس بات پر یقین
رکھتے ہیں کہ اسلام دیگر ادیان سے موافقت نہیں کرتا اور ان سے بنا کر نہیں
رکھتا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے اور مسلمان ابتدا ہی سے یہودیوں اور عیسائیوں
کی بہ نسبت وحی کو صرف اپنے پیغمبر تک محدود نہیں سمجھتے تھے۔(۱)
تفرقہ بازی کی ممانعت حدیث نبوی کی روشنی میں:
اسلام امن و سلامتی اور بھائی چارے کا دین ہے ۔ یہ اپنے ماننے والوں کو
اخوت ،برابری، بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ نبی آخر الزمان نے بارہا
مسلمانوں کو پیار محبت اور امن و امان سے زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ ہمارے
اس بیان کی تائید یہ حدیث مبارکہ کرتی ہے:
اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمونَ مِن لِّسَانِہ وَ یَدِہ۔
مسلمان وہ ہے محفوظ رہیںتمام مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے۔(۲)
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں:
مدینہ میں رہنے والے قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے اختلاف و جھگڑا رکھتے
تھے اور یہودیوں نے ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر سیاسی غلبہ
و تسلط حاصل کر لیا تھا ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ
منورہ ہجرت کرنے اور لوگوں کی قیادت و رہبری قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان
اخوت و برادری کا معاہدہ قائم کیا۔ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ”
حیات پیغمبر “ میں لکھا ہے : یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی
زندگی کا نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کی نظیر گزشتہ انبیاءکے یہاں نظر نہیں
آتی۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور سب سے پہلا موضوع
جس پر آپ نے توجہ فرمائی یہ تھا کہ تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی
بنا دیا۔
حسین ہیکل مزید لکھتے ہیں :
” اگر ہم اس بات کو مد نظررکھیں کہ منافقوں نے قبائل اوس، خزرج اور مہاجر و
انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کس قدر کوششیں کیں تو ہمیں معلوم ہوگا
کہ پیغمبر اکرم نے اس سلسلہ میں کس قدر دقت نظر ، حسن ظن اور دور اندیشی سے
کام لیا تھا“۔ (۳)
قرآن مجیدمیں امت کو اتحاد کی تلقین:
وَ اعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوا وَ اذکُرُوا
نِعمَتَ اللّٰہِ عَلَیکُم اِذ کُنتُم اَعدَآئً فَاَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکُم
فَاَصبَحتُم بِنِعمَتِہٓ اِخوَانًا وَ کُنتُم عَلٰی شَفَا حُفرَةٍ مِّنَ
النَّارِ فَاَنقَذَکُم مِّنھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُم اٰیٰتِہ
لَعَلَّکُم تَھتَدُونَ ۔(۴)
”تم سب اللہ کی رسی ( قرآن و اسلام و تمام وسائل اتحاد ) مضبوطی سے پکڑے
رہو اور متفرق و پراگندہ نہ ہو اور خدا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ کس طرح تم
ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس
نعمت کی برکت سے تم ایک دوسرے کے بھائی ہو گئے۔ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر
تھے کہ خدا نے تمھیں اس سے نجات عطا کر دی“۔(عمران: ۳۰۱)
قُل اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنزِلَ عَلَینَا وَ مَآ اُنزِلَ عَلٰٓی
اِبرٰھِیمَ وَ اِسمٰعِیلَ وَ اِسحٰقَ وَ یَعقُوبَ وَ الاَسبَاطِ وَ مَآ
اُوتِیَ مُوسٰی وَ عِیسٰی وَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّھِم لَا نُفَرِّقُ
بَینَ اَحَدٍ مِّنھُم وَ نَحنُ لَہ مُسلِمُونَ ۔(۵)
کہو ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ
ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد
پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیا (علیہم السلام)
کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم اِن میں
سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے لیے اسلام لائے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کاوحدت انسانی سے متعلق فرمان:
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
گزشتہ امتیں جب تک باہم اور متحد تھیں پیہم ترقی کی راہ پر گامزن تھیں اور
عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ہمکنار رہیں اور دنیا والوں کی
رہبر اور ان پر حاکم رہیں۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ، مادیات
کی طرف مائل ہوئے ، احساس برتری ، قومی و فرقہ وارانہ انتشار وپراگندگی کا
شکار ہو گئے ، آپس میں لڑنے لگے تو خدا وند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت
کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا ۔خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب
کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا۔ مثال کے طور پر کسریٰ و
قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ہو گئے۔ انھیں اپنا غلام
بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال
کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں دھکیل دیا اور انھیں ذلت و فقر
جہالت و انتشار سے دو چار کر دیا۔خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم اور اسلام جیسی نعمتوں کے ذریعہ اولاد اسماعیلؑ اور تمام
مسلمانوں کو متحد اور بھائی بھائی بنا دیا ، انھیں بزرگی عطا فرمائی اپنی
عطاؤں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں۔ انھیں نعمت طاقت ، عزت و عظمت عطا
فرمائی ایسی پایدار حکومت انھیں نصیب کی کہ کسی کو اسے شکست دینے کی طاقت
نہ تھی۔ افسوس ایسی با شکوہ ہجرت کے بعد مسلمان مختلف گروہوں اور فرقوں میں
تقسیم ہو گئے ۔
وحدت اسلامی اور علما و مشائخ کا کردار:
اتحاد بین المسلمین کے لیے آیت اللہ سید حسین بروجردی اور دیگر اکابر علما
نے ادارہ تقریب بین المذاہب الاسلامیہ بنایا اور امت کے اتحاد کے لیے گراں
قدر کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ اس ادارے نے تمام مسالک کو باہم قریب لانے
کے لیے” الرسالہ“ کے نام سے ایک مجلہ کا اجرا کیا۔آیت اللہ سید حسین
بروجردی نے اتحاد بین المسلمین کے لیے بہت مفید عملی اقدامات کیے۔ اسی طرح
جامعہ ازہر کے سابق سربراہ مفتی اعظم شیخ محمد شلتوت نے جودنیائے اہل سنت
کے سب سے بڑے مرکز ِعلم کے سربراہ تھے، شیعہ مذہب کودنیائے اسلام کے تمام
مکاتب فقہ میں سے ایک فقہی مکتب کے عنوان سے تسلیم کیا۔ جامعہ ازہر میں فقہ
جعفریہ کی تدریس شیخ شلتوت ہی کے دور میں شروع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں پورے
عالم میں اس کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے۔ اتحاد بین المسلمین میں آیت
اللہ شیخ جعفر کاشف الغطاءکی خدمات بھی لائق تحسین ہیں۔ امت کے اتحاد و
یگانگت کے لیے سید جمال الدین افغانی کا کردار بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے ۔
جمال الدین افغانی کے شاگرد محمد عبدہ اور برصغیر کی دو ممتاز شخصیات امت
کے اتحاد و بھائی چارے کے لیے ہمہ تن مصروف عمل رہیں ۔ علامہ محمد اقبال کا
یہ شعر ان کی امت مسلمہ کے اتحاد کی نیک تمناؤں کی بجا تصویر پیش کرتا ہے۔
ایک ہوں مسلم ہرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اسی طرح علامہ محمد اقبال امت کو اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہوئے کہتے
ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے شیعہ فقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام
مسلمان قوم کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور اسے سچ کر دکھایا۔ تحریک
پاکستان کے دوران ایک موقع پر تاج برطانیہ نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا
آغاز کروانا چاہا اس سازش کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی فراست و دور
اندیشی کی بنا پر مکمل نہ ہونے دیا اور قائد اعظم کی دعوت پر آیت اللہ
زنجانی نے برصغیر کا دورہ کیا اور امت کو باہم متحد رہنے کی تلقین کی۔
ایران کا انقلاب اسلامی اور امت مسلمہ:
امام خمینی ؒکی قیادت میں ۰۲ ویں صدی کا عظیم الشان معجزہ ایران کا انقلاب
اسلامی ۱۱ فروری ۹۷۹۱ءکورونما ہوا جسے” انفجار نور “قرار دیا گیا۔ اس
اسلامی انقلاب کی لیبیا کے صدر معمر قذافی نے تائید کی جو اس بات کا منہ
بولتا ثبوت تھا کہ امت مسلمہ دراصل ایک اکائی ہے تھوڑے بہت اختلافات کو
بنیاد بنا کر انتشار اور منافرت پھیلانا قطعی درست اقدام نہیں ہے۔ پاکستان
اور ایران کے تعلقات برادرانہ تعلقات قیام پاکستان کے بعد سے ہی استوار ہیں
اگرچہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ان تعلقات میں مغرب کی وجہ سے رخنہ
ڈالا گیا مگر دونوں اطراف کی عوام ، علما اور سیاست دان ہر مشکل گھڑی میں
یک جان دو قالب نظر آتے ہیں۔ ایران کے انقلاب اسلامی کے سپریم لیڈر امام
خمینی ؒ امت مسلمہ کی حالت زار میں بہتری لانے کے لیے شبانہ روز مصروف رہے
جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایک خاص مکتب فکر کے لیڈر نہیں تھے بلکہ ان
کی سوچ اور فکرکا تعلق تما م امت سے ہے اور وہ عالمی سیاست پر بھی کڑی نگاہ
رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوںنے امت کو جوڑنے کے لیے ہفتہ وحدت کی بنیاد
رکھی۔ شیعہ مکتبہ فکر آنحضور کا روز ولادت ۷۱ ربیع الاول کو مناتے ہیں جبکہ
سنی مکتبہ فکر کے ہاں آنحضرت کا جشن ولادت ۲۱ ربیع الاول کو منایا جاتا ہے
اسی وساطت سے امام خمینیؒ نے تمام مسلمانوں کو نبی آخرالزمان کا امتی ہونے
کے ناتے ہفتہ وحدت منانے کی دعوت دی۔ امام خمینیؒ امت کو بیداری اور اتحاد
و یگانگت کی ترویج کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تمام اسلامی حکومتیں اس پر توجہ
رکھیں کہ جو اختلافات عراق میں ایران میں اور دوسرے ممالک میں کئے جا رہے
ہیں ، یہ وہ اختلافات ہیں جو ان کی ہستی کو تباہ کر دیں گے۔آج آپ ملاحظہ
کیجئے استکبار کی پالیسی فلسطینی کو فلسطینی سے لڑانا ہے، عراقی کوعراقی سے
لڑانا ہے، شیعہ مسلمان اورسنی مسلمان کو لڑانا ہے، عرب سماج اورغیرعرب سماج
کولڑانا ہے۔ یہ واضح پالیسیاں ہیں سب سے پہلے ہم سب ان چیزوں کا خاتمہ کریں
ہم اپنے لحاظ سے امت مسلمہ کے اتحاد کوایک ضرورت سمجھتے ہیں۔ پورے عالم
اسلام کے مد نظرکہا گیا ہے سارے مسلمان متحدرہنے چاہئیں، ایک دوسرے کے ساتھ
تعاون کرنا چاہئے، یہ اسلامی حکومتوں کا فرض بھی ہے اورمسلم عوام کا بھی
،نیز یہ کہ اسلامی حکومتیں اس بڑے اتحاد کی ایجاد کے لئے مسلم اقوام کی
توانا ئیوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔کچھ چیزیں اتحاد کی راہ میں رکاوٹ
بنتی ہیں ان میں سب سے بنیادی چیز کج فہمیاں اورایک دوسرے کی نسبت عدم
اطلاعات ہیں دوسرے کا حال تک پتہ نہیں لیکن ایک دوسرے سے بدگمانی کرتے ہیں
ایک دوسرے کے عقائد وافکار کے سلسلہ میں غلط فہمی پیداکرتے ہیں شیعہ سنی کے
سلسلہ میں ، سنی شیعہ کے سلسلہ میں، ایک مسلم قوم دوسری مسلم قوم کے سلسلہ
میں ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے سلسلہ میں غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے دشمن
ان غلط فہمیوں کا بہت زیادہ سہارا لیتے ہیں افسوس کہ کچھ لوگ اسی غلط فہمی
اوردشمن کی عمومی پالیسی کونظرانداز کرنےکے نتیجہ میں دشمن کے ہاتھ کا
کھلونہ بن جاتے ہیں اوردشمن ان کا استعمال کرتا ہے بعض دفعہ کوئی چھوٹا سا
جذبہ انسان کو کوئی بات کہنے یا کوئی موقف اختیار کرنے پراکساتا ہے اوردشمن
اپنی جامع پالیسی میں اسی بات کا فائدہ اٹھا کربھائیوں کے درمیان خلیج بڑھا
دیتا ہے۔(۶)
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا نظریہ وحدت:
دنیا میں کئی ایسے انقلاب آئے جو اپنے لیڈر کی وفات کے ساتھ ہی تنزل کا
شکار ہوگئے مگر انقلا ب اسلامی گزشتہ تین دہائیوں سے پوری آب و تاب سے چمک
رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام خمینی ؒ کے جانشین آیت اللہ خامنہ ای نے
اپنے پیش رو کے مقاصد و اہداف کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ آنے والا ہر دن
ایران کی ترقی و ترویج میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے
اتحاد بین المسلمین کے لیے کئی اہم اقدامات کیے اور فتاویٰ صادر کیے تاکہ
امت کو فروعی مسائل میں الجھنے سے بچایا جا سکے اور استعمار کے خلاف صحیح
طور متحد ہو کر کام کیا جا سکے۔
اہل سنت کے مقدسات کے حوالے سے تاریخ ساز فتویٰ:
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے وحدت اسلامی
کی حفاظت کے لیے ایک ایسا تاریخی فتویٰ جاری فرمایا۔ جس نے عالمی شہرت اور
پذیرائی حاصل کی ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے ایک استفتاءکے جواب میں
فرمایا:برادران اہل سنت کی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے چہ جائیکہ بالخصوص
زوجہ رسول پر تہمت لگائی جائے جس سے ان کے شرف وعزت پر حرف آتا ہو بلکہ
تمام انبیاءکی اورخصوصاً سید الانبیائ کی ازواج کی توہین ممنوع ہے۔(۷)
اس فتویٰ کی بازگشت تمام عالم میں سنی گئی اور تمام مکاتب فکر کی جانب سے
اس کی توثیق کی گئی۔ جن جید علمائ، فقہاءاور رہنماؤں نے آیت اللہ سید علی
خامنہ ای کے فتویٰ کا پر جوش خیر مقدم و استقبال کیا ان میں مصر کی جامعہ
الازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب، آیت اللہ نمازی، محمد رفاعہ طہطاوی جو
تقریب بین المذاہب کے محقق ہیں، لبنان کی جماعت علمائے مسلمین کے ترجمان
محمد عمرو ، لبنان کے شیخ ماہر مزہر، لبنان کے رہنما مصطفی علی حسین ،
لبنان کے امل محاذ، اخوان المسلمین اردن ، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی ،
حوزہ علمیہ قم کے مدرسین کی تنظیم اور آیت اللہ سیستانی کے دفتر نجف اشرف
کی توثیقات شامل ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای کا وحدت کانفرنس کے شرکاءسے خطاب:
آیت اللہ خامنہ ای کا وحدت کانفرنس کے شرکاءاور حکومتی عہدیداروں سے خطاب
کے دوران رہبر نے امت مسلمہ کو درپیش خطرات کا حل امت کے باہم اتحاد کو
قرار دیا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا:اس وقت عالم اسلام کا اصل علاج اوراصل
دوا اتحاد ہے آپسی اتحاد ہونا چاہئے مسلم علماودانشوربیٹھ کراتحاد اسلامی
کا منشورتیار کریں ایک منشورتیار کریں تاکہ کوئی کج فہم اورادھر ادھر سے
وابستہ متعصب شخص یا کوئی اسلامی فرقہ پوری آزادی سے مسلمانوں کی ایک بڑی
جماعت کواسلام سے خارج نہ کرسکے ان کی تکفیر نہ کرسکے موجودہ دورمسلم علما
اوردانشوروں سے اس منشورکی فراہمی کا تقاضا کر رہا ہے اگر آپ یہ کام نہیں
کریں گے توآنے والی نسلیں آپ سے مواخذہ کریں گی دشمنوں کی دشمنی آپ دیکھ
رہے ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تشخص کے خاتمہ اورامت مسلمہ کے درمیان
شگاف پیدا کرنے کے لئے وہ کتنی کوششیں کررہے ہیں بیٹھ کے اس کا راہ حل
نکالئے اصول کو فروع پر ترجیح دیجئے فروع میں ممکن ہے ایک مسلک کے
پیروکاروں کا بھی نظریہ ایک جیسانہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں، مشترک باتیں
کافی ہیں اس مرکزیعنی مشترکات کے مرکز کے گرد سب متحد ہوجائیں، دشمن کی
چالوں اوراس کی سازشوں سے ہوشیار رہیں خواص اپنے درمیان مسلکی بحثیں کریں
لیکن ان بحثوں کو عوام تک نہ لے جائیں دلوں کوایک دوسرے سے متنفر نہ کریں
عداوتوں میں اضافہ نہ کریں نہ اسلامی فرقوں کے درمیان، نہ مسلم اقوام کے
درمیان اورنہ یہ ایک قوم کے اندر کے مختلف اسلامی گروہوں کے درمیان۔(۸)
مغربی استعمار کے خلاف امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت:
آخر میں ہم اپنے موضوع کا اختتام آیة اللہ خامنہ ای کے اس بیان پر کرتے ہیں
جس میں دور حاضر میں امت کو مغربی استعماری طاقتوں کے خلاف متحد ہو کر کام
کرنے پر زور دیا گیا ہے:اس وقت عالم اسلام کو اپنی عزت، استقلال اورعلمی
وروحانی ترقی کے لئے کوشاں رہنا چاہئے روحانی ترقی کا مطلب دین سے تمسک،
خداپرتوکل اوراس کی مدد پر یقین ہے اور”عداتک لعبادک منجز“ یہ خدا کا وعدہ
ہے جو پورا ہوکر رہے گا کہ ”ولینصرن اللہ من ینصرہ “ اس وعدہ الہی پر یقین
کے ساتھ عملی میدان میں قدم رکھا جائے عملی میدان میں قدم رکھنے کا مطلب
خالی بندوق اٹھا لینا نہیں بلکہ فکری عمل، عقلی عمل، علمی عمل، سماجی عمل
اورسیاسی عمل ہے سب خدا کے لئے عالم اسلام کے اتحاد کے لئے کام کریں اس کا
مسلم اقوام کو بھی فائدہ ہوگا اورمسلم حکومتوں کو بھی، اسلامی حکومتیں اگر
امت مسلمہ کے ٹھاٹھیں مارتے سمندرسے متصل ہوں توامریکی سفیر یا کسی امریکی
سیاستدان سے وابستگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوں گی امریکیوں سے وابستگی
سےانہیں طاقت نہیں ملے گی لیکن اگراسلامی حکومتیں امت مسلمہ اورعالم اسلام
کے بحربے کراں سے وابستہ رہیں گی تواس سے وہ مضبوط ہوں گی انہیں آپسی
قربتیں بڑھانا چاہئیں استکبارمیں اتنی سکت ہی کیوں آئے کہ وہ ایک اسلامی
حکومت پر حملہ کرکے اسے دوسروں سے الگ کرکے اس کے ساتھ اپنا حساب چکانے لگے
اورپھر دوسری حکومت کے پیچھے پڑ جائے اس مسئلہ پر سب کو غور کرنا چاہئے
اسلامی حکومتوں کومتحد ہونا چاہئے اوریہ جان لینا چاہئے کہ وہ ایسا کر سکتے
ہیں۔(۹)
حواشی
(۱) https://www.mto.org/islam/ur/unity_religion.html
(۲) بخاری حدیث نمبر7376
(۳) https://www.taghrib.ir/urdu/index.php
(۴) عمران:۳۰۱
(۵) عمران:۴۸
(۶) https://www.abp-sale.com/ur.php/page,1
(۷) www.taghrib.org, www.abna.ir
(۸) https://www.islamtimes.org/vdcce1qi.2bqso87ca2.html
(۹) https://www.islamtimes.org/vdcce1qi.2bqso87ca2.html |