راولپنڈی کے بلراج ساہنی صاحب

آج دل چاہ رہا تھا کہ سیاست سے ہٹ کر کچھ لکھا جائے ،اور کسی ایسی شخصیت کے بارے میں لکھا جائے جو بہت منفرد اور غیر معمولی ہو۔ یہ یکم مئی 1913کی بات ہے ، جب راولپنڈی کی مٹی نے اُس دھرتی کے لعل کو پیدا کیا، جسے دنیانے بلراج ساہنی کے نام سے جانا۔ عالم خان روڈ سے متصل کمیٹی چوک راولپنڈی میں بر صغیر کے نامور ترین عوامی اداکار بلراج ساہنی کا گھر آج بھی موجود ہے۔ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ڈی اے وی کالج سے بلراج نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر لاہور آکر گورنمنٹ کالج سے انگلش ادب میں ایم اے کیا ، مگر انگلش ادب میں ایم اے کرنے سے قبل بلراج پنجاب یونیورسٹی سے ہندی میں بیچلر پاس کر چکے تھے۔

1930کے لگ بھگ بلراج ساہنی اپنی بیوی کے ہمراہ شانتی نیکتن بنگا ل چلے آئے، جہاں انہوں نے ہندی اور انگلش کے استاد کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔زندگی بلراج ساہنی صاحب کو جس طرف لے جارہی تھی ۔ وہ اُس طرف چلے جا رہے تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ ایک آدرشی خاندان کے سپوت ہونے کی وجہ سے بلراج ساہنی کی شخصیت کمال کی کشش لیے ہوئے تھے۔غالباً ساہنی صاحب کی شخصیت اور کردار کے اسی انوکھے پن کی وجہ سے جب وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ کام کر رہے تھے تو مہاتما گاندھی نے اُنہیں انگلینڈ جانے کا مشورہ دیا، جہاں بلراج ساہنی صاحب نے بی بی سی انگلستان میں ہندی سروس کیلئے ریڈیو میں انائونسر سے ایک جادوئی نگری کی جانب قدم بڑھایا۔

ساہنی صاحب لندن سے لوٹے تو انہوں نے 1943میں راولپنڈی سے ممبئی کی جانب رخت سفر باندھا ۔ راولپنڈی کا یہ لعل جب ممبئی فلم نگری میں پہنچ کر اپنی پہلی فلم میں دھرتی کا لعل بنا تو اِس گوہر نایاب نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

ساہنی صاحب کی دوبیگھے زمین ، انصاف ، دور چلیں ، کابلی والا، وقت وہ بے مثال فلمیں ہیں ، جن میں اپنی لاجواب اداکاری سے بلراج ساہنی صاحب نے خودکو برصغیر کے پہلے عوامی اداکار کے طور پر منوایا۔ کہیں وہ غریب آدمی دکھائی دئیے تو کہیں انہوں نے مجبور کسان اور بے بس مزدور بن کر غضب کی اداکاری کی۔ بلراج ساہنی صاحب کی مشہور فلموں میں سٹہ بازار ، ہم لوگ ، کٹھ پتلی ، لاجونتی ، تلاش ، ہلچل اور ایک پھول دومالی شامل ہیں ۔ ان فلموں میں ساہنی صاحب نے اپنے کرداروں میں حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے ۔ بلراج صاحب جتنے عمدہ اداکار تھے ۔ اُتنے ہی کمال کے لکھاری بھی تھے ۔ ہندی ، اردو اور انگلش پر عبور ہونے کے باوجود یہ کس قدر دلچسپ بات ہے کہ ساہنی صاحب 1960میں جب پاکستان تشریف لائے تو ہندوستان واپس جا کر انہوں نے پنجابی میں اپنا سفر نامہ لکھا۔ جس کا نام انہوں نے میرا پاکستانی سفرنامہ رکھا۔ ساہنی صاحب نے میرا روسی سفر نامہ ، اک سفر اک داستان اور غیر جذباتی ڈائری سمیت کئی کتابیں پنجابی زبان میں لکھیں ۔
لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس کے داخلی دروازے پر ایک کہاوت درج ہے ۔
’’ایک اچھا اداکار ایک اچھا آدمی ہوتا ہے ‘‘۔
نیشنل کالج آف آرٹس کے داخلی دروازے پر فارسی کے ایک شعر کا مصرعہ درج ہے کہ آپ کسی بھی فن میں ایسا کمال حاصل کریں کہ دنیا آپ پر رشک کرے۔بلراج ساہنی صاحب کے فن میں یہ دونوں خوبیاں موجود تھیں۔ وہ اچھے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے اور اُنہیں اپنے فن میں وہ کمال حاصل تھا کہ دنیا آج بھی اُن پر رشک کرتی ہے ۔

شیلے نے کہا تھا کہ شاعر پر شاعری درخت کے پتوں کی طرح اُترتی ہے ۔چارلی چپلن جوہر دورکے عظیم ترین اداکاروں میں سے ایک ہے ، اُس کی اداکاری اُس کی زندگی کی تلخیوں کا نتیجہ تھی ۔ بلراج ساہنی کو بھی اداکاری قدرتی طور پر آتی تھی ۔ وہ کسی فلمی انسٹی ٹیوٹ میں کبھی نہیں گئے ۔

بلراج ساہنی صاحب کو اپنی بیٹی شبنم سے بے حد محبت تھی ۔بیٹی کی بے وقت موت سے وہ بہت افسردہ تھے۔ فلم ’’گرم ہوا‘‘ میں اُنہیں اپنی بیٹی کی موت کے بستر پر ہی ایک سین کرنا تھا۔ بلراج صاحب نے اپنی بیٹی کے دکھ کی وجہ سے اس سین کو بے حد حقیقت پسندانہ بنا دیا تھا۔

1960میں بلراج ساہنی صاحب جب پاکستان اپنا گھر دیکھنے آئے تو واپس جا کر اپنے سفر نامے میں کچھ یوں لکھا۔

’’میں چار برس کا تھا، جب چھاچھی محلے میں ہمارا گھر تعمیر ہوا۔ مستری کریم بخش اِس کے معمار تھے۔ ہم اُسے چاچا جی کہہ کر بلا یا کرتے تھے ۔ جنگ عظیم اول کے بعدچھاچھیوں کے کچے کوٹھے گرنے لگے اور ان کی جگہ پکے مکان بننا شروع ہو گئے ۔ پہلے محلے میں بمشکل ایک دو گھر ہندوئوں کے تھے، پھر بہت سارے ہندو آگئے ۔تقسیم کے کئی سالوں بعد جب اپنے گھر پہنچا تو ہمارے گھر کے نئے مکین جالندھر کی طرف سے تھے۔ بہت شریف ، ملنسار ، گھر کی عورتوں نے مجھ سے پردہ نہ کیا۔ بڑے احترام سے چائے پیش کی۔ ہمارا فرنیچر اسی ترتیب سے پڑا ہوا تھا۔ مکان سے محروم ہونے کا رنج بالکل محسوس نہ ہوا۔ لیکن جانے کیوں فرنیچر دیکھ کر خیال آیا کہ اسے اُٹھا کر لے جائوں ۔ یہاں ایک پرانے محلے دار کی بیٹی کا بیاہ تھا۔ بارات کو ہمارے گھر کے نچلے حصے میں کھانا کھلایا جا رہا تھا۔ برتانے والوں میں میں بھی شامل ہوں۔
 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23830 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.