بوٹ پالش

آج کل بوٹ پالش کا بہت تذکرہ ہے۔ 1954میں راج کپور صاحب نے ایک فلم بنائی تھی جس کا نام بھی بوٹ پالش تھا۔ اس فلم کے مین یعنی مرکزی کردار دوکم سن بچے تھے۔ بھولا اور بیلو، جب ان دونوں بچوں کی ماں مرجاتی ہے تو ان دونوں بچوں کی دیکھ بھال اِن کی بدکار چچی کملا کے سپر د ہو جاتی ہے۔ کملا اِن دونوں بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے۔ رات گئے بچے جب بھیک مانگ کر گھر لوٹتے ہیں تو وہ اُن سے سارے پیسے چھین لیتی ہے اور بے دردی سے مارتی پیٹتی ہے۔ ایک دن کملا کا پڑوسی جان اُن دونوں بچوں کو بھیک مانگنے کی بجائے عزت سے روزگار کمانے اور زندگی گزارنے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ مشورہ دونوں بچوں کو اچھا لگتا ہے اور یوں بھولا اور بیلو دونوں مل کر بھیک میں سے کچھ پیسے روز بچانے لگتے ہیں۔ وہ اِن پیسوں سے جوتوں کی پالش کی کٹ خریدنا چاہتے ہیں۔ دونوں غریب بہن بھائی چند ہی دنوں میں جوتوں کی پالش کی کٹ خریدنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،مگر اُن کی چچی کملا کو جب یہ پتہ چلتاہے کہ بھولا اور بیلو اب بھیک مانگنے کی بجائے جوتے پالش کر کے روزی روٹی کما رہے ہیں، تو وہ دونوں کو دھکے مار کر اپنے گھر سے نکال دیتی ہے۔

بھولا اور بیلو سڑک پر آجاتے ہیں۔ جان جب دونوں کو بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھتا ہے تو وہ بیلو کیلئے نیا فراک اور بھولا کیلئے نئی قمیض خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے مگر وہ شراب فروخت کرنے کا لائسنس نہ ہونے کے باوجود چوری چھپے شراب بیچتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بھولا اور بیلو ایک ہمدرد اور مخلص منہ بولے چچا سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بے رحم اور سخت گیر دنیا میں بچوں کو اب اپنا پیٹ خود بھرنا تھا۔

بارشوں کا موسم شروع ہوتا ہے۔ لوگ جوتوں کو پالش کروانا چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں بچوں کے بھوکے مرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ اتنی مصیبت، تکلیف اور بھوک میں بھی بھولا بھیک مانگنا نہیں چاہتا۔ بہن کو بھوک میں تڑپتے دیکھ کر بھولا بہن کو لے کر ریلو ے اسٹیشن آپہنچتا ہے۔ یہاں بھی بدقسمتی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ دونوں بہن بھائی پولیس سے چھپتے ہوئے جدا ہو جاتے ہیں۔ بیلو کو ٹرین میں اکیلا پا کر ایک رحم دل جوڑا اُسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ فلم بوٹ پالش کی کہانی رولاتی، دل ہلاتی آگے بڑھتی ہے۔ بیلو کو ایک امیر خاندان گود لے کر اپنے ساتھ رکھ لیتا ہے۔ ایک اچھے کھاتے پیتے گھر میں آجانے کے باوجود بیلو اپنے بھائی بھولا کیلئے غمزدہ رہتی ہے۔

دوسری جانب پولیس بھولا کو گرفتار کر کے اُسے ایک یتیم خانے میں بھیج دیتی ہے۔ بھولا خیراتی ادارے کے بچوں کے ساتھ بھیک مانگنے اور چندہ اکٹھاکرنے کیلئے سڑک پر نکلتا ہے، اُس کا ضمیر اُسے بھیک مانگنے پر ملامت کرتا ہے اور وہ خیراتی ادارے کے بچوں کو بھی چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔

فلم کے اختتام پر قسمت بھولا اور اُس کی بہن بیلو کو ایک بار پھر ملاتی ہے جب بھولا بھوک سے مجبور ہو کر بھیک مانگنے اور ہاتھ پھیلاتے ہوئے حادثاتی طور پر بہن ہی کے آگے آکھڑا ہوتا ہے۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ فلم کے اختتام پر امیر خاندا ن بھولا کو بھی گود لے لیتا ہے اور دونوں بہن بھائی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

بوٹ پالش راج کپور صاحب کی ایک یادگار فلم ہے۔ اس فلم کو یاد گار بنانے میں رتن کما ر کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ 1941میں اجمیر میں پیدا ہونے والے سید نذیر علی رضوی کا فلمی نام رتن کمار تھا۔ چہرے کی معصومیت اور خوبصورت آواز رکھنے والا نذیر علی رضوی ممبئی فلم نگری کا مشہور ترین چائلڈ اسٹار تھا۔ رتن کمار نے بیجو باورا، جاگرتی، انگارے، بہت دن ہوئے، دو بیگھ زمین اور بوٹ پالش جیسی شہکار فلموں میں بے مثال اداکاری کی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد رتن کمار ہندوستان میں ہی رہے۔ تاہم 1956میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے۔ ہندوستان میں اُن کے کروڑوں مداح اُن کے پاکستان آنے پر بے حد رنجیدہ اور دکھی تھے۔

رتن کمار کے بھائی وزیر علی مشہور ہدایت کار اور پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے پاکستان آکر انڈین مشہور فلم جاگرتی کا ریمیک بیداری کے نام سے بنایا۔ اس فلم میں نذیر رضوی یعنی رتن کمار صاحب کے علاوہ راگنی، سنتوش کمار اور مینا شوری نے بھی اداکاری کی۔ اس فلم کے مشہور و معروف نغمے ہم لائیں ہیں طوفان سے کشتی نکال کر، آؤ بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی، انڈین فلم جاگرتی کی خوبخوکاپی تھے۔ جبکہ اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان جیسا شہرہ آفاق نغمہ بھی اسی فلم کا ہے۔

رتن کمار یعنی نذیر رضوی صاحب کی 1977میں چار سالہ بیٹی ایک کار حادثے میں فوت ہو گئی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کے مرنے پر بہت رنجیدہ اور افسردہ تھے۔ یہاں تک کہ 1979میں وہ پاکستان فلم انڈسٹری چھوڑ کر امریکہ شفٹ ہو گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔اگر نذیر رضوی صاحب پاکستان نہ آتے اور ہندوستان میں ہی رہتے تو بھارتی حکومت اور بھارتی فلم انڈسٹری اُن کے پاؤں دھو دھو کر پیتی۔ بیجو باورا، دو بیگھ، زمین، انگارے، بہت دن ہوئے، سرگم، جاگرتی اور بوٹ پالش اتنی بڑی فلمیں ہیں کہ رتن کمار صاحب کو (اگر وہ بھارت میں ہی رہتے) ہندوستانی حکومت کی جانب سے بھارت رتن اور پدم بھوشن جیسے بڑے اعزازات سے نوازا جاتا، لیکن نذیر رضوی صاحب پاکستان آگئے اور افسوس کہ ہماری فلم انڈسٹری اُن کی گوناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکی۔

آج بہت سوں کو بہت کچھ کئے بغیرہماری حکومت پر ائیڈ آف پرفارمنس جیسے اعزازات سے نوازرہی ہے۔ ہمیں نذیر رضوی صاحب جیسے ہیرے تلاش کرنا ہونگے اور اُن کی خدمات کر سراہنا ہوگا۔
مجھے تراش کے رکھ لو کہ آنے والا وقت
خزف دکھا کے گہر کی مثال پوچھے گا


 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23835 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.