ارشادِ ربانی ہے :’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک
جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد
و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۰۰۰‘‘۔ اس آیت کریمہ تخلیق بنی آدم کے حوالے
مساوات انسانی کی تعلیم دی گئی ہے ۔ ایک جان اور اس کے جوڑے سے پیدا کیے
جانے والوں کے درمیان تفریق و امتیاز کی گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا :’’ کہ پروردگار بھی ایک ہے اور سب کے باپ بھی ایک ہیں‘‘۔ قومی فرق
کی بابت فرمان قرآنی ہے:’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا
کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو
پہچانو ‘‘۔یہاں نسلی و ظاہری فرق کو اونچ نیچ کی بنیاد نہیں بلکہ شناخت کی
ضرورت بتایا گیا ۔
اس آیت میں آگے فرمایا:’’ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت
والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ
جاننے والا اور باخبر ہے ‘‘۔ یعنی عزت و تکریم کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز
گاری ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین مرتبہ فرمایا کہ تقویٰ
یہاں ہے۔ ‘‘ تقویٰ کو مسکن چونکہ قلب انسانی ہے تو دل کا حال رب کائنات ہی
جانتا ہے اور وہی حتمی فیصلہ کرے گا کہ کون عزت والا ہے اور کس کے لیے ذلت
و رسوا ئی ہے۔ ایک اور حدیث میں نبیٔ پاک ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نہ
تمہارے اجسام اور نہ ہی تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں کو
دیکھتا ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور
ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں
پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے
پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیا‘‘۔ رب کائنات کی جانب سے عطاکردہ یہ
انسانی فضیلت بھی بلا تفریق تمام لوگوں کے لیے ہے اور جو فرمایا کہ :’’ ہم
نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا ہے۔ “تو اس کااطلاق بھی سارے انسانوں پر
یکساں ہوتا ہے۔
دین اسلام کے اندر توحید کی بنیاد پر مساواتِ انسانی کا پہلو اس قدرنمایاں
ہے کہ جب کوہِ صفا سے نبیٔ کریم ﷺ نے پکارا :’’ اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ
کہو کامیاب رہوگے‘‘۔ تو اس دعوت پر معاشرے کے سبھی طبقات نے لبیک کہا۔ دعوتِ
اسلامی کو قبول کرنے والے ہر اول دستے میں حضرت ابوبکر صدیق اگر آزاد
وسردار ، تو حضرت زید بن حارثہ غلام تھے۔ حضرت خدیجہ خاتون تو حضرت علی
بچے تھے۔آگے چل کر اس قافلہ میں حضرت یاسروسمیہ ، حضرت عمار وخباب اور
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہم جیسے نادار کمزور وغلام افراد شامل ہوئے۔ ان
کے ساتھ حضرت طلحہ بن عبیداللہ، عثمان بن عفان، ابوعبیدہ بن الجراح،
عبدالرحمن بن عوف، حمزہ بن عبدالمطلب، زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے آزاد
اصحابِ ثروت اور خوش حال تجار بھی موجود تھے۔ فتح مکہ کے بعد حضرت بلال
حبشی ؓ کو اذان دینے کی سعادت عطا فرماکر نبیٔ کریم ﷺ نے رنگ و نسل، آزادو
غلام اور عربی و عجمی کے سارے بتوں کو توڑ دیا ۔ رسول مکرم ﷺ کا ارشاد
ہے:’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے کسی عربی کو کسی
عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی
کالے کو گورے پر کوئی برتری وفضیلت حاصل نہیں اگر فضیلت ہے تو تقویٰ
وپرہیزگاری سے‘‘۔
وطن عزیز میں فی الحال سنگھ کے سربراہ کا یہ بیان ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہے
کہ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں ۔ پنڈتوں نے ذات پات کا نظام بنایا
اور عصرِ حاضر میں اس کی معنویت نہیں رہی اس لیے اسے ختم ہوجانا چاہیے۔
مساوات کی بات اگر کوئی عالم دین کہے تو لاکھ اختلاف کے باوجود کوئی مسلمان
اس کی مخالفت نہیں کرسکتا کیونکہ قرآن و حدیث میں اس واضح تعلیمات ہیں مگر
موہن بھاگوت کےاس بیان پر کی ہندو سماج میں زبردست مخالفت ہورہی۔پہلے تو
برہمنوں نے اسے اپنی توہین قرار دے کر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ مقدمہ تک
کردیا۔ اس پر صفائی دی گئی کہ پنڈت سے مراد کوئی خاص طبقہ نہیں بلکہ علماء
و دانشور ہیں لیکن جس دور میں یہ نظام بنا علم کا ٹھیکہ برہمنوں مخصوص تھا
۔ اس لیے الزام گھوم کر وہیں آگیا۔ اس کے بعد بڑے بڑے شنکر اچاریہ نے یہ
کہنا شروع کردیا کہ برہما پہلے برہمن تھے انہوں نے ہی یہ نظام رائج کیا ہے
اس لیے یہ انسانی نہیں الہامی ہے۔ ان لوگوں نے سرسنگھ چالک کو مذہبی کتب کا
ٹھیک سے مطالعہ کرنے کی تلقین کرڈالی۔ موہن بھاگوت نےاگر ہندو مذہبی صحیفوں
کا ذکر کیے بغیر مساواتِ انسانی کی بات کی ہوتی تو کام چل جاتا لیکن جن
کتابوں میں اونچ نیچ کی واضح تعلیمات موجود ہیں ان کا حوالہ دے کر الٹا
مطلب نکالنا مصیبت کو دعوت دینا ہے۔ موہن بھاگوت نے یہی کیا انہوں نے
اقتدار کے نشے میں ببول کے پیڑ سے آم توڑ کر کھانے کی کوشش کی اور اس سے
منہ کا مزہ کرلیا ۔ توحید خالص اور قرآن و سنت کی ہدایت کے بغیر مساوات و
برابری کا قیام ناممکن ہے۔
|