ہم اپنے ارد گرد بہت سے افراد کو اپنے شعبہ جات میں بہت
کامیاب دیکھتے ہیں ،چاہے وہ تعلیمی میدان میں کامیابی ہو ،پروفیشنل ترقی یا
کوئی بھی خوشی ۔بعض اوقات دنیا انھیں کوئ مافوق الفطرت شخصیات سمجھتی ہے
اور کچھ لوگ تو باقاعدہ حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس کے پاس یہ سب کچھ
آخر ہے کیوں ؟ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے ؟ (بزبان_دیگر ،اس کو کون سے سرخاب
کے پر لگے ہوئے ہیں ؟).
میرے نزدیک کامیابی کے کچھ ضروری عناصر ہیں۔ کامیابی کے درجات ہیں۔ کچھ
اصول ہیں جن پر عمل کرکے ہم میں سے ہر ایک کامیابی کا کچھ حصہ یا درجہ حاصل
کرسکتا ہے۔
کامیابی کا پہلا درجہ "خود شناسی " ہے۔ اپنے آپ کو ،اپنی صلاحیتوں ،اپنے
مقام کو پہچاننا۔ بہت سی خداداد صلاحیتیں ہم سب میں موجود ہیں جن کا ادراک
کرکے ہم انھیں مذید نکھار سکتے ہیں۔وہ جو شاعر نے کہا تھا:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن ،اپنا تو بن !
یہ ایسی بات ہے کہ انسان اپنی دریافت کرلے ،خود سے مخلص ہوجاۓ اور پھر اپنی
صلاحیتوں کو اپنی کامیابی کے حصول میں صرف کرے۔ جہاں خود میں کمی ،کمزوری ،خامی
دکھائی دے ،اسے بہتر کرنے کی کوشش کرے ۔
دوسرا عنصر "محنت " ہے ۔ ایک مسافر جسے اپنی منزل تک پہنچنا ہو ،وہ ہاتھ پہ
ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا ،منزل اسے بلاتی ہے ،آمادہء جدوجہد کرتی ہے ،حرکت
میں برکت ہے بھئ ،کامیابی کبھی پکی پکائی کھیر نہیں ہوتی ۔کام کرنے سے ہوتے
ہیں۔
تیسرا عنصر " قربانی " ہے ۔ کامیاب لوگوں کی داستانیں سنیں تو ان کے پیچھے
کچھ ناکامیوں کی دکھی کہانیاں موجود ہوتی ہیں ،کچھ تکالیف ،کچھ درد_دل جو
انھوں نے سہے لیکن منزل کی راہ کھوٹی نہیں کی ۔کامیابی کی قیمت درد (pain)
ہے ،انھوں نے وقت قربان کیا ،نیندیں قربان کیں،جائز تمناؤں کو پورا کرنے
میں بھی صبر کیا ، دل توڑنے والے روئیے برداشت کئے ،کئ بار دنیا نے انھیں
زمین پر پٹخ دیا ،وہ آبگینہ ذات کی کرچیاں سمیٹ کر پھر اٹھ کھڑے ہوئے کہ
دنیا کہتی رہے تم کچھ نہیں ہو لیکن مجھے تو پتہ ہے کہ "میں کچھ ہوں " اس
لئے کہ میں "خالق_ کائنات کی تخلیق ہوں جو کچھ بھی عبث نہیں بناتا " اور
جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا،وہیں سے کام دوبارہ شروع کردیا اور مسقل مزاجی کے
ساتھ اپنی دھن میں مگن رہے۔
کامیابی ،خطرات کے وقت ، "توکل علی اللہ" کا نام ہے ۔ جب ہم اپنے حصے کا
کام کر رہے ہیں،جب ہم درست راستے پر چل رہے ہیں ،ہم کسی کی خاطر نہیں بلکہ
رب العالمین کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق کام کر رہے ہیں تو وہ ذات_باری
تعالیٰ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔ وہ رب ،اپنی راہ کے مسافروں کے اشک
چن لیا کرتا ہے ،وہ اپنے مخلص بندوں کے زخم بھر دیا کرتا ہے ،وہ زخمی دلوں
کو اپنی رحمت کی پھواروں سے سیراب کردیا کرتا ہے ،وہ کسی کا قرض باقی نہیں
رکھتا !
اس یقین کے ساتھ جب مسلسل کام کیا جاۓ تو پھر کامیابی مقدر بن جاتی ہے ۔یہ
دنیا کی کامیابیاں چند روزہ ہیں مگر آخرت کی کامیابی کی کیفیت کی ایک جھلک
ضرور ہیں کہ جب دنیاوی کامیابیوں پر اتنی خوشی ملتی ہے تو آخرت کی کامیابی
پر مسرت کا کیا عالم ہوگا ! جب ہم اپنی آنکھوں سے اعمال نامہ پڑھیں گے اور
جانیں گے کہ ہمارا صبر رائیگاں نہیں گیا ،جو آنسو ہم نے مصلے پر بہاۓ تھے
وہ بارگاہِ الٰہی میں پہنچ رہے تھے ،جب اپنی خطاؤں،غفلتوں پر استغفار کرکے
اس کی رحمت کا دامن تھاما تھا تو رب_ کریم نے اپنا دامن چھڑایا نہیں تھا۔جب
کسی کے برے روئیے کا جواب ہم برائی سے دیتے ہوئے خود پر قابو پاگئے تھے اور
غصے کا کڑوا گھونٹ پی لیا تھا تو وہ کڑواہٹ ،ایمان کی مٹھاس میں بدل دی گئ
تھی ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا و آخرت کے امتحانوں میں کامیاب کردے ،آمین۔ |