تاج المحدّثین امام مسلم قشیریؒ:
امام مسلمؒ اور ان کی کتاب ”صحیح مسلم“ کے تعارف سے پہلے مناسب یوں ہے کہ
علم حدیث کے طالب کے لئے چند اہم آداب ذکر کر دیئے جائیں کیوں کہ علم حدیث
کی برکات و فضائل کے حصول میں ان آداب کی رعایت کا بڑا عمل دخل ہے اور یہ
آداب صرف ان لوگوں کے لئے ہی نہیں ہیں جو باقاعدہ کورس اورنصاب کی شکل میں
یہ علم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہر مسلمان جو علم حدیث کی کسی کتاب کا ذاتی
مطالعہ ہی کیوں نہ کرتا ہو اسے بھی ان آداب کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور علم
حدیث کے مطالعہ کے وقت یوں استحضار رکھنا چاہئے گویا نبی کریم ﷺ سے براہ
راست ان کے یہ ارشادات سن رہا ہوں۔چند آداب درج ذیل ہیں:
(۱)علم حدیث ، صحیح اور خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ تعالٰی کی رضا کیلئے
حاصل کریں ۔
(۲)یہ عظیم علم شہرت ، دکھلاوے اور دنیاوی مقاصد کے لئے ہرگز حاصل نہ کریں
۔
(۳)اللہ تعالٰی سے دعا کرتے رہیں کہ اس مبارک علم کے حصول میں اللہ تعالی
کی توفیق شامل حال رہے اور کوئی رکاوٹ آڑے نہ آجائے ۔
(۴)روزانہ کچھ نہ کچھ وقت علم حدیث کو حاصل کرنے کے لئے ضرور دیں اور کسی
ماہر،مستند ومتقی عالم دین کی شاگردی بھی اختیار کرلیں۔
(۵)استاذکی خوب عزت کریں ۔
(۶)اس علم زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور جو بات معلوم نہ ہو وہ اپنی رائے سے
ہرگز نہ بتائیں بلکہ صاف کہہ دیں کہ میں نہیں جانتا۔
(۷)حصول علم میں شرم نہ کریں ۔جب کوئی بات سمجھ نہ آئے تو اپنے استاذ یا
کسی صاحب علم سے پوچھ لیں ۔
(۸)علم حدیث حاصل کرنے کے لئے اس علم کی مایہ ناز کتابیں ”بخاری ومسلم“ کو
ترجیح دیں یا آپ کے استاذ آپ کی استعداد دیکھ کر جو کتاب تجویز کریں اسے
دلجمعی کے ساتھ حاصل کریں۔
کتب حدیث میں ”صحیح بخاری“ کے بعد جو کتاب سب سے زیادہ مستند شمار کی جاتی
ہے اور جسے وقت تصنیف سے لے کر آج تک عرب وعجم کے اہل علم میں یکساں شہرت
وقبولیت عامہ نصیب ہوئی ہے وہ امام مسلم بن حجاج کی کتاب ”صحیح مسلم“ ہے ۔اور
عام طور پر امام بخاری اور امام مسلم کی ان دونوں کتابوں کو ”صحیحین“ کہا
جاتا ہے۔ ان کتابوں کو ”صحیح“ اس لیے کہا جاتا ہے ان کے مصنفین نے باقاعدہ
اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اپنی کتاب میں ”صحیح حدیث“ کے علاوہ کوئی حدیث
مستقل نہیں لائیں گے۔اس لیے ان دونوں کتابوں میں صحیح احادیث کا ایک وسیع
ذخیرہ جمع ہوگیا ہے اور ان کا یہی وصف و امتیاز ان کی مقبولیت کاسبب ہے ۔آج
کوئی علمی ادارہ ،علمی تحقیق اور علمی اکیڈمی ا یسی نہیں جو ان سے خالی ہو
اور وہاںان سے استفادہ نہ کیا جاتا ہو۔
”صحیح مسلم“ کے مصنف کا نام مسلم ،لقب عساکرالدین ، کنیت ابوالحسن اور
سلسلہ نسب یہ ہے:مسلم بن حجاج بن داود بن کوشاد۔علامہ ذہبی کی تحقیق میں
امام مسلم ۴۰۲ھ میں خراسان کے مشہور شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے ۔لیکن ان کے
سن پیدائش میں قدرے اختلاف بھی ہے ۲۰۲ ھ،۴۰۲ھ،۶۰۲ھ مختلف اقوال ہیں اور اس
آخری قول کومورخ ابن الاثیر نے جامع الاصول کے مقدمہ میں راجح قرار دیا ہے
اور ابن خلکان کی بھی یہی تحقیق ہے۔امام موصوف کی جائے پیدائش میں اگرچہ
عجمی عنصر شامل ہے لیکن آپ کی اصل عرب کے قبیلے بنو قشیر سے ملتی ہے اس لیے
آپ” قُشیری“ کہلاتے ہیں۔امام مسلمؒ نے جب شعو ر کی آنکھیں کھولیں تو ہر
جانب علم حدیث کا غلغلہ تھا۔ عالم اسلام میں طلبہ علم کے قافلوں کی چہل پہل
تھی ۔مکہ ومدینہ کے علاوہ بصرہ ،کوفہ ،شام ،نیشاپور ،سمرقند وبخارا علمی
مراکز تھے ،عالم اسلام کے کونے کونے سے طلبہ علم کھچ کھچ کر علم حدیث کی
طلب کے لئے ان شہروں کی خاک چھانتے تھے ۔خوش قسمتی سے امام مسلم نیشاپور
جیسے شہر میں پیدا ہوئے جسے اس زمانہ میں علمی مرکزیت حاصل تھی ،علامہ تاج
الدین سبکی فرماتے ہیں:قد کانت نیسا بورمن اجلّ البلاد واعظمہالم یکن بعد
بغداد مثلھا(نیشا پور اس قدر بڑے اور عظیم الشان شہروں میں سے تھا کہ بغداد
کے بعد اس کی نظیر نہ تھی)علامہ ذہبی نے امام موصوف کے سماع حدیث کی
ابتداء۸۱۲ھ کو قرار دیا ہے ،اس لئے اس حساب سے گویا چودہ برس کی عمر سے
سماعت حدیث کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے۔
امام موصوف کے ابتدائی حالات بہت کم معلوم ہو سکے، لیکن خراسان ونیشا پور
میںامام اسحق بن راہو یہ اور امام ذہلی جیسے امام فن موجود تھے، امام موصوف
نے ان کے علاوہ مختلف مقامات کی خاک چھانی ۔عراق،حجاز،شام ومصران مقامات پر
بکثرت تشریف لے گئے۔ بغداد متعدد بارجانا ہوا اور بغداد میں آپ نے درس بھی
دیا ہے ۔بغداد کا آخری سفر۹۵۲ھ میں ہوا ۔وہاں کے محدثین میں سے محمد بن
مہران اور ابوغسان وغیرہ سے سماعت کی ۔عراق، میںا مام احمد بن حنبل ؒ اور
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی سے استفادہ کیا ،حجاز میں سعید بن منصور اور ابو
مصعب سے روایتیں حاصل کیں ،مصر میں عمر و بن سواد، حرملہ بن یحییٰ کے خرمن
فیض سے خوشہ چینی کی اوراحمد بن مسلمہ کی رفاقت میں بصرہ وبلخ کا بھی سفر
کیا ، امام بخاری سے نیشا پور میں بہت کچھ استفادہ کیا ،ان بزرگوں کے علاوہ
احمد بن یونس یربوعی واسماعیل بن ابی اویس،عون بن سلام وغیرہ سے بہت کچھ
حاصل کیا ،امام بخاریؒ کے بہت سے شیوخ میں شریک ہیں ۔آپ کے تلامذہ میں
ابوعیسیٰ ترمذی صاحب السنن،ابو حاتم رازی،ابوبکربن خزیمہ اور ابوعوانہ جیسے
ائمہ فن اور محدثین کبارداخل ہیں۔
امام صاحب کو اللہ تعالٰی نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت سے بھی خوب نوازا
تھا آپ سرخ وسفید رنگ ،بلند قامت اور باوقار وباوجاہت شخصیت کے مالک تھے۔
سر پر عموماً عمامہ باندھتے تھے اور چادر کندہوں کے درمیان لٹکایا کرتے تھے
۔علم حدیث کے بحربیکراں ہونے کے باوجود کبھی اس علم کو حصول معاش کا ذریعہ
نہیں بنایا بلکہ کپڑوں کی تجارت کرکے اپنی نجی ضروریات پوری کیا کرتے تھے ۔زندگی
اکثر حصہ علم حدیث کے حصول اور پھر اس کی درس وتدریس میں گزارا ۔
امام موصوفؒ کے زمانہ میں سینکڑوں ائمہ فن ومحدثین پیدا ہو چکے تھے جس میں
بہت سے شیوخ کو امام موصوف کی استاذی کا شرف بھی حاصل تھا تاہم امام صاحب
کی فطری قابلیت اور قوت حافظہ کی وجہ سے اس قدر گرویدہ بنالیا تھا کہ اسحاق
بن راہویہ جیسے امام فن نے پیشن گوئی فرمائی:ای رجل یکون ہذا(خداجانے کس
پائے کا یہ شخص ہوگا)۔ابو سلمہ جو امام صاحب کے رفیق درس تھے وہ آپ کے اس
قدر گرویدہ تھے کہ پندرہ سال مسلسل آپ کے ساتھ صحیح مسلم کی ترتیب میں شریک
رہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ امام مسلم کے عجائب روزگار حالات
میں یہ امتیازی وصف موجود ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں نہ کسی کی غیبت کی
،نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کیا اور نہ کسی کو گالم گلوچ دی۔ امام صاحبؒ اپنے
اساتذہ وشیوخ کا بیحد احترام فرماتے تھے۔ نیشا پور کے سفر میں امام بخاریؒ
کی خدمت میں بکثرت حاضر ہوتے تھے ،ایک مرتبہ ان کے تبحرعلمی اور زہد وتقویٰ
سے متاثر ہو کر بے ساختہ امام بخاریؒ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور بے خودی
میں پکاراٹھے:اقبل رجلیک یااستاذ الاستاذین وسید المحدثین وطبیب الحدیث فی
عللہ۔
اخلاص اور بے نفسی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اپنی کتاب کو لکھ کرمحدث ابوزرعہؒ کے سامنے پیش کیا
کرتے تھے،پھر جن روایات کو وہ صحیح بتاتے ان کو کتاب میںباقی رکھتے اور جن
پر وہ نکتہ چینی کرتے اس کو ترک فرما دیتے تھے۔
امام صاحب کی زندگی میں ان کی وفات کا واقعہ نہایت منفرد ، حیرت انگیز اور
عبرت خیز ہے خصوصاً اس سے امام صاحب کی علمی شیفتگی وانہماک کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ایک مرتبہ مجلس درس میں ایک حدیث کے متعلق آپ سے دریافت
کیا گیا اور سوءاتفاق سے امام صاحبؒ کووہ حدیث یاد نہ آئی،آپ اس حدیث کی
تلاش کے لئے گھر واپس آئے اور کتابوں میں وہ حدیث تلاش کرنے لگے اسی دوران
گھر والوں نے انہیں کھجور کی ایک تھیلی پیش کی ،آپ حدیث کی تلاش وجستجو میں
اس قدر محو ہوئے کہ چھوہارے آہستہ آہستہ سب کھا گئے اور حدیث بھی مل گئی
لیکن اس انہماک میں اتنی زیادہ کھجوریں کھالیں تھیں کہ انہیں احساس ہی نہ
ہوا اور پھر یہی امام صاحب کی موت کا سبب ہوا۔آپ کی وفات کا دن ۵۲ رجب ۱۶۲ھ
بروز ہفتہ ہے ۔اتوار کے دن جنازہ اٹھایا گیا اور نیشا پور کے باہر نصیر
آباد میں دفن کیے گئے ۔
”صحیح مسلم“ کے علاوہ بھی امام صاحب نے بکثرت تصانیف کی ہیں ، جن کی اجمالی
فہرست پیش ہے :مسند کبیر،کتاب الاسماءوالکنی ،جامع کبیر ،کتاب العلل ،کتاب
التمییز ،کتاب الوحدان ،کتاب الاقران ،کتاب سوالات لاحمد ،کتاب حدیث عمرو
بن شعیب ،کتاب الانتفاع باہب السباع ،کتاب مشائخ مالک ،کتاب الثوری ،کتاب
المخضرمین ،کتاب اولاد الصحابہ ،کتاب اوہام المحدثین ،کتاب الطبقات ،کتاب
افراد الشامیین ،کتاب رواة الاعتبار۔
امام مسلم نے یہ کتاب ”صحیح مسلم“ تالیف کیوں کی ؟ اس کی وجہ خود امام
موصوف یوں بیان کرتے ہیں:مجھ سے میرے بعض شاگردوں نے درخواست کی کہ میں
احادیث صحیحہ کا ایک ایسا مجموعہ تیار کروں جس میں بلاتکرار احادیث کو جمع
کیا گیا ہو ۔ چنانچہ ان کی درخواست پر میں نے ”صحیح مسلم“ تالیف کی ۔آپ نے
تین لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے اپنی کتاب مرتب فرمائی پھر اس کتاب کی
تالیف میں صرف اپنی ذاتی تحقیق پر بس نہیں کی بلکہ مزید تحقیق کے لئے اس
وقت کے معروف محدث امام ابو زرعہ کی خدمت میں اسے پیش کرتے تھے اور جس
روایت کے بارے میں وہ کسی علت کی نشاندہی کرتے اسے کتاب سے نکال دیتے تھے ۔
اس طرح کم وبیش سولہ سال کی لگاتار جد وجہد اور بے پناہ جانفشانی کے بعد
”صحیح مسلم“ کی صورت میں یہ عظیم مجموعہ حدیث تیار ہواجس کے بارے میں خود
امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ” محدثین اگر دو سوسال بھی حدیثیں لکھتے رہیں ،
جب بھی ان کادار ومدار میری اس کتاب پر رہے گا ۔اس کتاب میں مکرر احادیث کو
چھوڑ کر باقی کل چار ہزار احادیث ہیں ۔اس کتاب کی مقبولیت کے سلسلے میں یہ
واقعہ قابل ذکر ہے جسے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب ”بستان
المحدثین“ میں درج کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :ابو علی زعفرانی کو کسی شخص نے
وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ تمہاری بخشش کس سبب سے ہوئی
ہے ؟تو انہوں نے جواب دیا کہ صحیح مسلم کے چند اجزاء(پڑھنے ،پڑھانے) کی
برکت سے اللہ تعالی نے مجھے بخش دیا ہے ۔سبحان اللہ ! اس سے صاف معلوم ہوتا
ہے کہ اللہ تعالٰی کے ہاں اس کتاب کی خاص قدر ومنزلت ہے ۔ |