امجد اسلام امجد پاکستان کی پہچان

 ایک انسان ہے زندگی جیسا
اور وہ میری زندگی میں نہیں
معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس اور استاد امجد اسلام امجد دل کا دورہ پڑنے سے لاہور میں 78سال کی عمر میں انتقال کر گئے امجد اسلام امجد کا انتقال رات سوتے ہوئے ہوا ہے امجد اسلام امجد 4اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے انہوں نے 1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)کیا 1968 تا 1975 ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں استاد رہے اگست 1975 میں پنجاب آرٹس کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر ہوئے 90 کی دہائی میں امجد اسلام امجد کی خدمات دوبارہ محکمہ تعلیم کے سپرد کی گئیں اور وہ دوبارہ ایم اے او کالج میں ہی شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے امجد اسلام امجد نے بطور ڈائریکٹر چلڈرن کمپلیکس بھی ذمے داری بھی نبھائی امجد اسلام امجد نے شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کی 1975 سے لے کر 1979 تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے امجد اسلام امجد کو 1975 میں ٹی وی ڈرامہ ’’خواب جاگتے ہیں ‘‘پر گریجویٹ ایوارڈ ملا ریڈیو پاکستان سے بطور ڈراما نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وڑن)کے لیے کئی سیریلز لکھیں جن میں دہلیز، سمندر، رات، وقت اور اپنے لوگ بھی شامل ہیں امجد اسلام امجد 1980 کے وارث جیسے شہرہ آفاق ڈرامے کے خالق بھی ہیں جسے دیکھے بغیرسکون نہیں ملتا تھا ان کے دیگر مشہور ڈراموں میں دن اور فشار شامل ہیں امجد اسلام امجد کا شعری مجموعہ برزخ اور جدید عربی نظموں کے تراجم عکس کے نام سے شائع ہوئے ان کا افریقی شعرا کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہوا تنقیدی مضامین کی کتاب تاثرات بہت مشہور ہوئی امجد اسلام امجد کے کام کی وجہ سے انہیں بے شمار ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ سے نوازا گیا۔امجد اسلام امجد کو23دسمبر 2019ء کو ترکی کے اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹرنیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا 1976 میں انہیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ، 1987 میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس)اور 1998 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اس کے علاوہ پی ٹی ایوارڈ اور نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا بیسٹ فلم رائٹر کا نگار ایوارڈ انہیں دو مرتبہ ملا امجد اسلام امجد 50 سال پر محیط کیرئیر میں 40 سے زائد کتابوں کے مصنف،بہت سے کالم، ترجمہ، تنقید اور مضامین لکھے ہیں جون 2008 میں انہوں نے اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس میں شمولیت اختیار کی اور ''چشم تماشا'' کے عنوان سے کالم بھی لکھاانہیں بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا جن میں سے چند ایک یہ ہیں صدر پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) ایوارڈ (1998)،صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ (1987)،قومی حجرہ اقبال ایوارڈ (شاعری کی بہترین کتاب مچھلی) (1982)،رائٹرز گلڈ ایوارڈ (بہترین ترجمہ کام اکس) (1976)،بہترین ڈرامہ نگار پی ٹی وی ایوارڈز (1980، 1984، 1998، 1999 اور 2001) ،کراچی آرٹس کونسل ایوارڈ (نثر کی بہترین کتاب نئی پرانے) (1991)،خصوصی صدر ایوارڈ (ٹی وی سیریل وارث) (1980)،سال کا بہترین نظم نگار ''بیاض'' ایوارڈ (2005)،بہترین فلم رائٹر نگار ایوارڈ 2 بار) (1982–1987)، اگفا ایوارڈ (1987) اور بولان ایوارڈ 2 بار (1987–1995) سمیت بے شمار اعزازات حاصل کیے انکا ٹی وی سیریل وارث چینی زبان میں ڈؓ کیا گیا جو 1988 کو چینی ٹی وی نیشنل نیٹ ورک پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا فلموں، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے ان کے 150 سے زائد گانے گلوکاروں نصرت فتح علی خان، استاد حامد علی خان، لوک اور صوفی گلوکارہ عابدہ پروین، غزل گلوکار غلام علی، اقبال بانو، جگجیت سنگھ، نور جہاں اور بہت سے لوگوں نے ریکارڈ کروائے امجد اسلام امجد کے لکھے ہوئے طویل دورانیے کے کھیل جتنے پسند کیے جاتے تھے اس سے بڑھ کر انکے مختصر 25منٹ دورانیے کے کھیل پسند کیے جاتے رہے جن میں سے کچھ مشہور ڈرامے یہ ہیں جو یون ہوتا تو کیا ہوتا،آپ کل آئے،دیوار کے اس پار،مکن کی تلاش میں،شوق بوہت ہے،شیشہ او سانگ امجد اسلام امجد کے 50 منٹ دورانیے والے کھیل بھی جب پی ٹی وی پر لگتے تو ختم ہونے تک وقت کا احساس ہی نہ رہتا ان ڈراموں میں آخری خواب (1973)،برزخ (1974)،موم کی گوریا (1974)،خواب جاگتے ہیں (1975)،یا نصیب کلینک،بلقانی،سودا،اہل نظر،شبزاد،روبارو،سورگ ای سحر،پچلی رات کا چاند،سوال،میرے بھی ہیں کچھ خواب،گارڈیش،جراس،بچوں کا باغ،احساس اے زیان،اپنا گھر،زندگی کے میلے میں،الٹی چوری،سورج بھی تماشائی،پارس پتھر،دوسرا قدم،اپنی بے بسی کا بوجھ، اسی کا نام دنیا ہے،غیروں سے کہا تم نے،ایدھر اودھر سے ،زیرو پوائنٹ،ابھی نہیں کبھی نہیں،تسلسل،گرتی ہوئی دیوار،قطب ستارہ،گھر،پیوستہ رہ شجر سے ، پھر یوں ہوا،اپنی خودی پہچان،میرے خواب ریزہ ریزہ ،بکری کی شادی،بشارت،زیرو پوائنٹ 2،باہر اندھیرا ہے،ایثار اورعید کا تحفہ جیسے لازوال بے شمار ڈرامے ہیں جو دیکھنا شروع کریں تو پھر دیکھتے ہیں رہتے ہیں ان کی وفات سے پاکستانی ادب ایک عظیم مصنف اور شاعر سے محروم ہو گیا بلاشبہ امجد اسلام امجد پاکستان کے صف اول کے ڈرامہ نویس اور اپنی منفرد شاعری کے باعث اپنی پہچان آپ تھے ان جیسے شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس عشروں بعد پیدا ہوتے ہیں امجد اسلام امجد اپنے فن میں یکتا تھے جنہوں نے ڈرامہ نویسی کو نئی جہت سے روشناس کرا یا وہ اپنی منفرد شاعری کے باعث پاکستان کی پہچان تھے جنکا شمار تاریخ ساز ادبی شخصیات میں ہوتا ہے اﷲ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین آخر میں انہی کا ایک اور شعر
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں آڑا گئے ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 614395 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.