ترکی اور شام کے حالیہ زلزلہ نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کے
رکھ دیا ہے۔ پاکستان سے صدر الخدمت فاؤنڈیشن ،جناب عبدالشکور صاحب نے ترکی
کی حیرات فاؤنڈیشن کے تعاون سے وہاں امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے
،بقول ان کے شام کے مسلمان فوری توجہ چاہتے ہیں اس لئے کہ وہاں کوئی سینٹرل
حکومت نہیں ہے ،نہ سماجی ڈھانچہ اور نہ ادارے۔ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے
،اللہ کو پیارے ہوگئے ،جب کہ کچھ حیرت انگیز طور پر ہفتے عشرے بعد بھی زندہ
نکل آۓ۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ سوشل میڈیا پر دو مکانوں کے درمیان
ایک بچے کی ویڈیو ،جسے نشیبی جگہ سے اس کا والد پکار کے کہہ رہا ہے 'قل لا
الہ الا اللہ "۔اسی طرح کئ زخمیوں کا حالت_ نزع میں تلاوتِ قرآن پاک کرنا
،ایک چھوٹی بچی بے ہوشی میں کہہ رہی ہے کہ میری نماز قضا ہوگئ ہے ،میرا کیا
بنے گا ؟ ،انتہائ ایمان افروز ہے۔اتنا مضبوط اور تروتازہ ایمان جو بچوں میں
بھی واضح نظر آرہا ہے ،شاید دنیا کے کسی اور خطے میں موجود نہیں۔ان مقدس
مناظر نے مجھے مجبور کیا کہ شام کے بارے میں سوچوں۔قرآن پاک میں سرزمین_
شام کی فضیلت بیان کی گئ ہے :
ترجمہ: گو ،انھوں نے ابرہیم کے ساتھ مکر کا ارادہ کیا لیکن ہم نے انھیں
ناکام بنادیا اور ہم نے ابرہیم اور لوط کو نجات دے کر اس سرزمین پر
پہنچادیا جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔(سورۃ
الانبیاء۔70,71)
امام ابنِ جریر طبری ،اس بابرکت سرزمین کے بارے میں فرماتے ہیں :
"اس بابرکت سرزمین سے مراد شام کی سرزمین ہے اور تمام اہلِ علم کا اس پر
اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،عراق سے شام ہی کی طرف گئے تھے۔
اس زمانے میں شام دراصل بہت وسیع سرزمین تھی جس میں اردن ،لبنان اور فلسطین
بھی شامل تھے۔
علامہ عبد الرحمٰن السعدی کہتے ہیں :
"بابرکت سرزمین سے مراد شام کی سرزمین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے اسی سرزمین پر بہت سارے انبیاء کو مبعوث فرمایا تھا ،دوسری یہ کہ
اسی سرزمین کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جاۓ ہجرت کے طور پر منتخب
فرمایا اور تیسری یہ کہ اسی سرزمین پر اللہ کے تین گھروں میں سے ایک گھر
واقع ہے اور وہ ' بیت المقدس' ہے ۔
نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
عنقریب ،ایک ہجرت کے بعد دوسری ہجرت ہوگی تو روۓ زمین پر بسنے والے لوگوں
میں سب سے اچھے لوگ وہ ہوں گے جو حضرت ابراہیم کی جاۓ ہجرت (شام ) میں
مستقل رہائش اختیار کریں گے "-(الحاکم عن ابی عبداللہ ) .
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ترجمہ : عنقریب تم کئ فوجوں میں تقسیم ہو جاؤ گے ،ایک فوج شام میں ہوگی
،دوسری عراق میں اور تیسری یمن میں۔
حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے گذارش کی کہ ان تینوں فوجوں میں سے ایک فوج میرے لئے منتخب کردیجیے ،تو
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علیک بالشام ،تم لازمی طور پر شام کی فوج میں رہنا،پھر آپ نے فرمایا:
اس لئے کہ شام اللہ کی پسندیدہ سرزمین ہے،اسی زمین کی طرف ،اللہ کے بندوں
کے گروہ کو اکٹھا کیا جائے گا اور جس شخص کو شام کی فوج میں شمولیت سے
انکار ہو وہ یمن چلا جائے اور اس کے پانیوں سے سیراب ہو اور یاد رہے کہ
اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اہل_شام کی ضمانت دی ہے "(ابو داؤد)
ایک حدیث میں ہے کہ :
" مسیح دجال مشرق سے آۓ گا پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگادیں گے اور وہ
مدینہ کی طرف پیش قدمی کرے گا یہاں تک کہ وہ احد کے پہاڑوں کے پیچھے تک
پہنچ جائے گا پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگادیں گے اور پھر اسے ہلاک کردیا
جاۓ گا " ترمذی ،صحیح البانی )
گزشتہ کئ دہائیوں سے شام کے مسلمان المناک زندگی گزار رہے ہیں،امت_مسلمہ کا
فرض بنتا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں شام کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کریں۔
|