|
|
کہا یہ جاتا ہے کہ کوئی بھی بچہ ماں کے پیٹ سے مجرم پیدا
نہیں ہوتا ہے یہ معاشرہ اور حالات ہوتے ہیں جو اس انسان کو مجرم بنا دیتے
ہیں۔ جرم بڑا ہو یا چھوٹا ہر معاشرے میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو کہ
اس جرم کی سزا سناتے ہیں تاکہ اس سزا کے خوف سے جرم کے راستے کو روکا جا
سکے- عام طور پر ہر معاشرے میں سب سے بڑا جرم کسی دوسرے انسان کی جان لینا
سمجھا جاتا ہے اور اس جرم کے ثابت ہونے پر اس کی سزا بھی سخت ترین ہوتی ہے
جو کہ سزائے موت یا پھر عمر قید ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کی جان لینے کے بعد جب
مجرم کو خود ایسی سزا سننی پڑتی ہے تو ایسے حالات میں اس کا ردعمل بھی بہت
اہم ہوتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مجرم کو اپنے جرم پر شرمندگی ہے یا وہ
اب بھی اس جرم پر فخر کر رہا ہے- |
|
عمر قید کی سزا پر کچھ
مجرمان کا ردعمل |
آج ہم کچھ ایسے ہی افراد کے بارے میں بتائيں گے جن کو جب
ان کے جرم کی سزا کے طور پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تو ان کا ردعمل کیا
تھا جانیں- |
|
1: چھ بار عمر قید کی
سزا |
اس پر تقریبا 76 جرائم کا مقدمہ چلایا گیا مگر اس جوالے
سے ڈیرل کا رویہ معذرت خوانہ نہ تھا بلکہ اس کے بجائے اس نے ان لوگوں پر ہی
الزامات کیا کہ انہوں نے اس کو آتے ہوئے دیکھا کیوں نہیں اس کے علاوہ اس نے
سرکاری وکیل اور عدالت کے ساتھ بھی کافی برا رویہ رکھا- جس کے بعد اس کو چھ
بار عمر قید کی سزا سنائی جس کے ساتھ ساتھ اس پر لگائے گئے 76 جرائم کی سزا
بھی سنائی گئی جو کہ تقریبا 800 سال کی سزا بنتی تھی- جس کے بعد اس نے
ردعمل کے طور پر ایک طویل تقریر کی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
کہ قصور اس کا نہیں تھا- |
|
|
2: ساٹھ سال کی سزا
|
رونی او نیل پر اپنی گرل فرینڈ اور اس کی بیٹی کو قتل کا
الزام تھا جس کے بعد سال 2021 میں اس کو تین بار عمر قید کی سزا سنائی گئی
جو کہ تقریبا 60 سال کے برابر تھی- رونی نے سزا سننے کے بعد یکدم عدالت میں
ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا اور اس کا کہنا تھا کہ اس دنیا میں کوئی بھی اس
سے پیار نہیں کرتا ہے اور ہر کوئی ہی اس کا دشمن ہے اس نے اپنے جرائم پر
کسی قسم کی معافی مانگنے سے بھی انکار کر دیا- |
|
|
3: حیرت سے منہ ہی کھلا
رہ گیا |
سیتھ ویلچ اور ان کی بیوی ٹیٹیانا فساری پر ان کے دس ماہ
کے بچے کو بھوکا رکھ کر مارنے کا الزام تھا۔ اس جوڑے کو جب جج نے عمر قید
کی سزا سنائی تو ان کا ردعمل بہت ہی حیرت انگیز تھا کیونکہ سیتھ ویلچ کا
منہ یہ سزا سن کر کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ اس کو امید نہ تھی کہ اس کا
جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کو عمر قید کی سزا ملے گی- جبکہ دوسری جانب اس کی
بیوی نے سزا سننے کے بعد رونا شروع کر دیا مگر اب اس کے اس طرح رونے کا
کوئی فائدہ نہ تھا- |
|
|
4: سزائے موت سن کر ہنسی کا دورہ |
لیوئیس براکمونٹس پر دو پولیس والوں کو مارنے کا الزام تھا عدالتی کاروائی
کے بعد جرم ثابت ہونے کے بعد جب اس کو سزائے موت سنائی گئی تو اس موقع پر
اس کا ردعمل عدالتی تاریخ کا منفرد ترین رد عمل تھا اور اس نے سزا سننے کے
بعد افسردہ ہونے کے بجائے اونچی آواز میں ہنسنا شروع کر دیا اور قہقہہ
لگانے شروع کر دیے- |
|
|
5: مقتول کے باپ کو گلے لگا لیا |
ٹرۓ ریلفورڈ ایک سیاہ فام انسان تھا جس پر ایک 22 سالہ نوجوان صلاح الدین
کو قتل کرنے کا الزام تھا جو کہ ایک پیزا اسٹور میں کام کرتا تھا جس کو ٹرے
نے ڈکیتی کے دوران مار دیا تھا- جس کی وجہ سے اس کو عمر قید کی سزا سنائی
گئی تھی- مگر اس وقت میں صلاح الدین کے والد نے اس کو معاف کر دیا تھا ان
کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت صلاح الدین زندہ ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا اس وجہ
سے وہ صلاح الدین کی والدہ کی جانب سے ان کو معاف کرتے ہیں- سزا سن کر ٹرئے
اٹھ کر صلاح الدین کے والد کے گلے لگ گیا اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ ان سے
معذرت کا طلب گار ہوا- |
|
|
یہ مختلف ردعمل اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی انسان دوسرے جیسا
نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور مختلف ردعمل ظاہر
کرتا ہے اس وجہ سے انسانی نفسیات کے حوالے سے کچھ بھی پیشن گوئی کرنا ایک
ناممکن عمل ہے- |