گزشتہ اکتوبر کی ایک شام اکیڈی ادبیات لاہور میں میرے
سفرنامہ ـ’’ ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘‘ کی تقریب رُونمائی میں متعدد ادبی
شخصیات نے اظہار خیال کیا جس میں محترمہ سلمیٰ اعوان، حسین شیرازی، ڈاکٹر
نجیب جمال، پروفیسر علی محمد خان، پروفیسرغفور قاسم، ڈاکٹر اشفاق ورک،
ڈاکٹر محمد کامران، گل نوخیز اختر اور ثمینہ سیّد شامل تھیں۔ اس موقع پر
ثمینہ سید نے مجھے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’ کہانی سفر میں ہے‘‘ عنایت کیا
جسے اب چند ماہ بعد پڑھنے کا موقع ملا۔ مگر ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو
جیسے اس کتاب نے جکڑ سا لیا ۔ کہانیوں کے منفرد اور مختلف موضوعات ، عمدہ
کردار نگاری، سلاست او رسادہ طرزتحریر نے توجہ ہٹنے نہیں دی اور ایک دو دن
میں کتاب ختم کر لی ۔پڑھنے سے قبل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے مردانہ
معاشرے میں جہاں خواتین کو عموماً بیرونِ خانہ اُمور کا تجربہ نہیں ہوتا
اور ان کے ناول ، ڈرامے او رکہانیاں صرف اندرونِ خانہ مسائل سے متعلق ہوتے
ہیں وہاں ثمینہ سید جیسی خواتین بھی ہیں جو معاشرے کی ہر دکھتی رگ پر انگلی
رکھنے اور اسے زیر موضوع لانے کا حوصلہ اور ہنر رکھتی ہیں ۔ان کا معاشرتی
علم ، ان کی جرأت او ران کی بے باکی ان کی کہانیوں کا خاصہ ہے ۔ پٹھانوں کی
بیٹھک، انتہا پسند تخریب کاروں کے اڈوں، اسپتالوں، ہوٹلوں بسوں، ٹیکسیوں
اور پسِ دیوار ناگفتنی کہانیوں کو ثمینہ سید نے اپنے نوکِ قلم سے ایسے
سجایا ہے کہ یہ رستے ہوئے زخم نہ صرف ہر زاویے سے نظر آتے ہیں بلکہ درِ دل
پر دستک بھی دیتے ہیں ۔ان کہانیوں میں سوز محبت بھی ہے نفرت کے رنگ بھی ہیں
اور ان جذبوں کی آمیزش بھی ہے۔ سماجی اُونچ نیچ، معاشرتی اُتار چڑھاؤ اور
مردو زن کے نازک رشتوں میں کشمکش اور ان کے نتیجے سے پنپنے والے حالات و
واقعات انتہائی مہارت اور چابک دستی سے صفحہ قرطاس پربکھیرے گئے ہیں، یو ں
جیسے انسان ڈرامائی فلم دیکھ رہاہو یا یہ واقعات اس کے سامنے ظہور پذیر ہو
رہے ہوں ۔ثمینہ سید کے افسانوں کا بہاؤ قاری کو اپنے جلو میں لے کر رواں
دواں رہتا ہے اس دوران قاری کبھی مسکرا دیتا ہے او رکبھی اس کی آنکھیں نم
ہو جاتی ہیں ۔ان تمام کہانیوں میں مصنفہ کا دردِ دل ، ان کی حساسیت، ان کا
معاشرتی احتجاج اور ان کی انسان نوازی واضح جھلکتی ہے ۔ لگتا ہے کہ انھیں
اپنے ارد گرد موجود یہ رنگا رنگ معاشرتی کردار اور ان کے حالات و واقعات نہ
صرف ہانٹ کرتے ہیں بلکہ انھیں قلم اُٹھانے پر اُکساتے ہیں او رجب وہ قلم
اٹھا لیتی ہیں تو پھر بلا خوف و خطرلکھتی چلی جاتی ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان
کی تحریروں سے کئی ماتھوں پر بل پڑیں گے ،کئی نظریں خشمگیں ہوں گی اور کئی
فتوے سر اٹھائیں گے۔ اس عمر میں اتنے پختہ افسانے ثمینہ سید کے قلم کے روشن
مستقبل کی گواہی دیتے ہیں ۔ان کی زبان اگرچہ سادہ ہے مگر الفاظ کا چناؤ خوب
اور ڈرامائی عنصر اسے مزید دلچسپ بنا دیتا ہے ۔ کہانیاں نہ صرف اثر انگیز
ہیں بلکہ لمحہ فکریہ عطا کرتی ہیں او ریہی افسانے کی خوبی ہوتی ہے ۔
ثمینہ کے قلم کی طاقت کی سب سے بڑی گواہی تو بانو آپا نے یہ لکھ کر دے دی
’’کہ نثر لکھنے والی عورتوں میں یہ نام ثمینہ سید پوری نسائیت اور زمانہ
سازی لیے ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔ ثمینہ سید کا سفر تسلسل لیے ہوئے ہے ۔
موضوعات میں تنوع ہے، ارتقا ہے، صد شکر جمود نہیں۔ میں نے ثمینہ کا ہاتھ
پکڑ کر دل کی پوری سچائی سے کہا، یہ سفر رکنا نہیں چائیے۔ میں تمھارا نام
ادب کے چند نمایاں ناموں میں دیکھتی ہو ں‘‘ اس سے بڑی گواہی کیاہو گی ۔ویسے
بھی ان کی کہانیوں کا تسلسل سے چھپنا ، ان کے قارئین کا سراہنا اور ان کی
کتابوں کی طلب ان کی مقبولیت کی غماز ہے ۔ثمینہ سید کی تحریر میں جہاں
سادگی ہے وہاں اس میں گہرائی او رفکری غذا بھی ہے جو انسان کے باطن کو
جھنجوڑتی ہے ۔ثمینہ سید کی کہانیوں کے ایسے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں ۔’’
زندگی تنگ و تاریک راستوں اور اندھیری پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی روشنی کی طرف
آتی ہے ۔ زندگی میں خوشی کا عنصراتنا ہے جتنا ایک ہال میں زیرو پاور کا
بلب۔ لیکن پھر بھی یہ قیمتی ہے۔‘‘ ایک او رجگہ لکھتی ہیں ’’ تمھارے دماغ
میں غرور سماتا جا رہا ہے جو کہ بہت مہلک مرض ہے۔ اسے ناخن برابر بھی جگہ
مل جائے تو پورے بدن میں سرایت کر جاتا ہے پھر کوئی دوا دارو کام نہیں آتا
‘‘ ایک اور مقام پر زندگی اور رشتوں کی کم مائیگی پر یوں رقم طراز ہیں ’’
ہم انسان تو درختوں پر لگے بُور جیسے ہیں جی۔ بُور لگا ، پھل پھول آئے،
رونقیں لگیں ، سب اپنے حصے کا کھا پی کر اُڑ جاتے ہیں وقت پورا ہوتا جاتا
ہے ۔ خزائیں آتی ہیں درخت سڑ سوکھ جاتے ہیں ‘‘ایک اورجملہ ہے ’’ مجھے سمجھ
آگئی تھی کہ خوابوں میں اتنی شدت رکھنا ٹھیک نہیں ہوتا ، نہیں تو بندہ خود
بھی خوابوں کے ساتھ مر جاتا ہے ۔ خوبصورتی اسی میں ہے کہ اپنے خواب دوسروں
کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کر دیے جائیں ‘‘ ایسے بے شمار جملے
او رباتیں ثمینہ سید کے افسانوں کا حصہ ہیں جو قاری کے ذہن کی گرہیں کھولتے
ہیں ۔
ثمینہ سید کی نثر کی ایک اور خاص بات ان کے اندر موجود شعریت ہے۔ بعض جملے
تو لگتا ہے ڈھلے ڈھلائے شعر ہیں ۔ او ربعض جگہ انھوں نے اشعار کا اتنا
برمحل استعمال کیا ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ یہ شعر اسی بات کو بیان کرنے کے
لیے لکھا گیا ہے ۔یوں ان کے اندر کی شاعرہ افسانوں میں شعروں کے رنگ گھولتی
ہے تو نثر بھی شاعری لگنے لگتی ہے ۔’’ کہانی سفر میں ہے ‘‘ ثمینہ سید کی
افسانوں کی دوسری کتاب ہے جس طرح ان کے قلم سے متنوع موضوع پر ایسی چونکا
دینے والی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں ان کا فن بام عروج کی جانب محو سفر
ہے۔بس انھیں یہ سلسلہ روکنا نہیں چائیے ۔ مجھے اُمید کہ جلد ہی ان کی تیسری
کتاب منصہ شہود پر آئے گی کیونکہ کے ان کا اظہار ِ فن اپنے راستے خود
تراشتا رہے گا ۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
|