ارشادِ ربانی ہے:’’ جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ
دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں‘‘۔ گردشِ زمانہ سے
متاثر نہ ہونا بے حسی یا کم از کم غیر فطری عمل ہے ۔ اللہ کی کتاب اپنے
مومن بندوں کو خبردار کرتی ہے کہ ان کا کفر کی عارضی کامیابی سے غمزدہ ہو
کر بیٹھ رہنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کہ محض ظاہر ی سرگرمی پر ساری توجہات
کا مرکوز ہوجانا ایمان و عمل کی کجی کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس کیفیت سے
نکلنے کے لیے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ :’’ یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ
سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور
بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے ‘‘۔ یہ وسیع تناظر اکثر نظروں سے اوجھل
ہوجاتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ:’’ جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے
خریدار بنے ہیں وہ یقیناً اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں، اُن کے لیے
درد ناک عذاب تیار ہے ‘‘۔
اس آفاقی حقیقت کو بیان کردینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ مشیت الٰہی کی
ایک حکمت بیان فرماتے ہیں:’’ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیئے جاتے ہیں اس کو یہ
کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ
یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے ‘‘۔
پچھلے الیکشن میں مودی سرکار کو ملنے والی ڈھیل نے بہت سارے اہل ایمان کو
بددل کردیا لیکن اگر وہ نہیں ہوا ہوتا یہ کیسے پتہ چلتا کہ ایل سرمایہ دار
کے ساتھ سانٹھ گانتح کرکے یہ کس بے حیائی کے ساتھ قومی مفادات کو پامال
کرسکتے ہیں۔ اس بے نقابی کی خاطر مہلت عمل میں یہ توسیع ضروری تھی۔ اہل
ایمان انہیں دی جانے والی ڈھیل کی وجہ فراموش کردیتے ہیں ؟ اور اس کا انجام
بھول جاتے ہیں تو یہ ہوتا ؟؟ سچ تو یہ ہے کہ رب کائنات کی ڈھیل تو ا نسان
کو سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا نادر موقع عطا فرماتی ہے لیکن بہت سارے
لوگ اسے ضائع کردیتے ہیں ۔ ایسے غافل لوگوں کی بابت فرمانِ ربانی ہے’’ اچھا،
تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اگلی ہی آیت میں اس طرح خوابِ غفلت کی استفہامیہ
انداز میں وجہ بیان فرماتے ہیں کہ:’’ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال
و اولاد سے مدد دیئے جا رہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟
نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے ‘‘۔ اس دنیا کی زندگی میں اس بے
شعوری سے نجات حاصل کرنے والے تو یقیناً خوش بخت ہیں لیکن اس میں پڑے رہنے
سے زیادہ کوئی رسوائی نہیں ۔ آج کی درگت کا جائزہ لینے کے بعد وزیر اعظم
کے دل میں یہ خیال تو آتا ہی ہوگا کہ اگر پچھلا انتخاب ہار جاتے تو اچھا
تھا۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے باغی و طاغی بندوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر
مومن بندہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اس لیے ان کی یاددہانی فرمائی گئی:’’
ان کی مالداری اور ان کی کثرت اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے‘‘۔ مال و
اولاد کی کثرت خوشحالی کا قوت و اقتدارکی تمثیل ہے۔ آج بھی جب کسی ظالم و
جابر سیاسی جماعت کو افرادی قوت کے لحاظ دنیا کی سب بڑی اور مالدار ترین
جمیعت ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تو ایسا ہونا ہمیں بے چین کردیتا ہے۔
ارشادِ قرآنی ہے:’’ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اِس مال و اولاد کے
ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ
وہ کافر ہوں ‘‘۔ مال و اولاد کی کثرت خوش بختی ضرور ہے لیکن اگر وہ دنیا و
آخرت کی رسوائی کا سبب بن جائے تو اس سے بڑی بدبختی کوئی اور نہیں ہے۔ یہ
کوئی ماضی کی داستان یا وعدۂ فردا نہیں ہے بلکہ آج ساری دنیا ایک بہت بڑے
معاشی سامراج کا دھڑن تختہ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ایک ہفتہ میں لاکھوں
کروڈ کا فضا میں تحلیل ہوکر غائب ہو جانا دنیا کی بے ثباتی کا بین ثبوت ہے
۔ ایک بے نام تفتیشی ادارہ کی رپورٹ سے اقتدار کی چولیں ہل جانا اور ایک
خبررساں ایجنسی کا نیند اڑ دینا بتاتا ہے کہ اس کی بنیاد کس قدر ناپائیدار
ہے۔
آزمائشی حالات کی شدت کئی مرتبہ اہل ایمان کو اپنے فرضِ منصبی سے غافل
کردیتی ہے۔ وہ اپنے مقصد حیات سے برگشتہ ہوکر قرآن و سنتﷺ سے متصادم
سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یاد رہےحالات سے نبرد آزما ہونا اور
مخالفین سے مرعوب ہوکر صراطِ مستقیم سے منحرف ہو جانا دو متضاد باتیں ہیں۔
ایسی صورتحال میں ڈھارس بندھائی گئی ہے:’’ تم اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا
معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے
جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی ‘‘۔ وطن عزیز میں اس کا مشاہدہ آئے دن
ہورہا ہے۔ کون جانتا تھا کہ ایک معمولی یاترا باطل کے ایوانوں میں لرزہ
پیدا کرے گی اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے طاقتور سمجھنے والا رہنما ایوان
میں پانی پی پی کر بولے گا لیکن ایک لفظ سنائی نہیں دے سکے گا یعنی اس کی
آواز کو دبا دیا جائے گا۔ یہ کسی انسانوں کے تصور خیال سے پرے تھا لیکن
مشیر ایزدی نے کردکھایا۔ آیت کے آخر میں فرمانِ سلطانی ہے: ’’میں اِن کی
رسی دراز کر رہا ہوں، میری چال بڑی زبردست ہے ‘‘۔دنیا کی رسی کا دراز ہونا
اور کھینچا جانا ہے اس ذات والا صفات کے قبضہ ٔ قدرت میں جو دنیا و آخرت
کی ابدی فلاح و کامرانی کا سرچشمہ ہے ۔ |