دل دریا سمندراورواصف علی واصفؒ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر: ذوالفقار علی بخاری۔پاکستان برقی پتہ:[email protected] واصف علی واصف ؒ کاشمار اُن ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہمیشہ بھلائی کا سوچا اور اپنی ذات سے دوسروں کو نفع دیا۔ایسے لوگ دنیا میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں جو دوسروں کو اُس مقام تک لے جائیں جو کسی کے اپنے وہم و گمان میں نہ ہو۔انھوں نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو عملی طور پرجہاں بدلنے میں اہم کردار اداکیا وہیں ان کے افکار نے بھی لاکھوں افراد کو زندگی بہتر انداز میں جینے کا حوصلہ دیا۔انھی میں سے ایک راقم السطور بھی ہے۔ ان کے افکار زندگی بدل رہے ہیں، ان کی زندگی کے واقعات یقینی طور پر کسی بے راہ کو راہ ہدایت پر لا سکتے ہیں۔ واصف علی واصفؒ نے انگریزی میں ماسٹرز کیاہوا تھا اورانگریزی زبان پر مہارت بھی خوب تھی۔آپ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔پھرسکھانے کا یہ عمل درس گاہوں سے مکین گاہوں میں منتقل ہوگیااور خیالات قلم بند ہونے لگے۔ان کی چار کتابیں اردو نثر،جب کہ دو اردو شاعری اورایک پنجابی شاعری کی کتاب ہے۔ان کے علاوہ دوکتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ان9 کتابوں کی تفصیل یہ ہے: کرن کرن سورج،دل دریا سمندر، قطرہ قطرہ قلزم،حرف حرف حقیقت،شب چراغ، شب راز،بھرے بھڑولے،دی بیمنگ سول، اوشین اِن ڈراپ۔ ان کی ریکارڈ شدہ گفتگو پر مرتب شدہ کتابوں کی تعداد28ہے۔ان کی شخصیت پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ مجھے اشفاق احمد کی باتیں سننے کا شوق تب ہوا۔ جب ان کے ٹیلی ویژن پر چلنے والے ”زاویہ“پروگرام کو ایک بار سنا تھا۔ پھر جب موقع ملا انھیں سنتا رہا۔ ”زاویہ“ کے کتابی صورت میں آنے کے بعدہر اُس لمحے پڑھا،جب میں ذہنی طور پر الجھا ہوا ہوتا تھا،یقین مان لیجیے کہ مجھے ہمیشہ پڑھ کر کچھ نیا سمجھنے کو ملا ہے۔ کچھ ایسا ہی ”دل دریا سمندر“ کے حوالے سے بھی کہوں گا کہ مجھے پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کہیں اندر کچھ بدل رہا ہے۔ واصف علی واصف ؒکی کتب ہمارے لیے وہ خوشبو ہیں جن کی مہک سے ہم تا قیامت لطف و اندوز ہوتے رہیں گے۔ ”دل دریا سمندر“ نے راقم الحروف کو بے پناہ متاثرکیا ہے۔میری خواہش ہے کہ اس کتاب کو ہر گھر میں رکھا جائے اور نوجوان اس کو پڑھیں کیوں کہ اس سے زندگی بہترین انداز میں گزاری جا سکتی ہے۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اچھی کتاب سے بہترین اورکوئی دوست نہیں ہے اس لیے اچھی کتب ہر کتب خانے کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم اچھی کتب کو محفوظ کرلیتے ہیں لیکن ان کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج معاشرہ اتنا خراب نہ دکھائی دیتا۔ ”دل دریا سمندر“ کے پیش لفظ میں واصف علی واصف ؒ اس مجموعے میں شامل مضامین کو پرانے چراغ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاید ان میں نئی روشنی ہو۔ راقم الحروف کی نظر میں اس میں اتنی تیز روشنی ہے جو دل کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کی کہی گئی باتوں کی تاثیر کا اپنا ایک لطف ہے۔ ان کو علم وحکمت سے اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کا شجرہ نصب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے جن کو باب العلم(علم کادروازہ) کہا جاتا ہے۔واصف علی واصف ؒ کی باتیں ایسی ہیں جو سنی یا پڑھی جائیں تو بہت کچھ خود بخود واضح ہو جاتا ہے اورعمل کرلیا جائے تو پھر زندگی سنور جاتی ہے۔ اس مجموعے میں جن موضوعات پر بات ہوئی ہے ان میں محبت، خوف، صاحب حال، یہ کائنات، اے اہمدم دیرینہ، صداقت، وعدہ، اسلام+فرقہ=صفر، رفاقت، تقدیر بدل جائے تو، تلاش، دعا، چہرہ، علم، اضطراب، سکون قلب، تضاد و اضداد، خوشی اور غم، میں اورمیں، آرزو، فیصلہ، رات، تنہائی، ہرشے مسافر، انتظار، کامیابی، عمل، ابتلا، بڑھاپا، گمنام ادیبوں کے نام، نیند، وقت، یاد، آرزو اورحاصل آرزو، مقابلہ، زمین و آسماں، طاقت، پردیسی، ٹھہرتا نہیں کارواں وجود،، عبادت، خوش نصیب، اختلاف، السلام علیکم، رزق، پیلُوپکیاں اورصبر شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تیزی سے جھوٹ کی لعنت پھیل رہی ہے۔ ہمارے ہاں سچائی کو بہت کم تسلیم کیا جاتا ہے۔ سچ بولنے اورسچائی کے حوالے سے چند خوب صورت پیغامات”دل دریا سمندر“ میں شامل ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ واصف علی واصف ؒ نے کس انداز میں تربیت فرمائی ہے۔ ”کاذب ماحول میں صادق کی زندگی ایک کربلا سے کم نہیں۔“ ”صداقت آفتاب کی طر ح ہے، جسے کسی کاذب اندھیرے کا ڈر نہیں ہوتا۔“ ””کوئی جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ سچ خطرے میں ہے۔ سچ وہی ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔“ ہم اکثر وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کو کئی رنگ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے قول آپ کی نظر ہے۔ ”اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے لوگ عظیم ہوتے ہیں۔“ دوست بنانا اور دوستی رکھنا سب کے لیے اہمیت رکھتاہے لیکن ہم اس رشتے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ اور بات ہے لیکن ہم اس تعلق کو قائم رکھنے کے بعد کیا منفی تاثر دوسرے فریق کے بارے میں رکھتے ہیں۔وہ کس قدر سنگین ہے اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل قول کو پڑھیں اور سمجھیں کہ کس قدر گہری بات ایک جملے میں کہہ دی گئی ہے۔اگرہم اس پیغام پر من و عن عمل کریں تو ہمارے تعلقات شان دار بن سکتے ہیں کہ بدگمانی ختم ہوتی ہے تو رشتے حسین ہو جاتے ہیں۔ ”انتخا ب رفیق سے پہلے تحقیق کر لینا جائز ہے، لیکن کسی کو دوست کہہ لینے کے بعد اسے کسی آزمائش سے گزارنا بددیانتی ہے۔“ ہم آج محبت کرنا چاہتے ہیں اور محبت کے بدلے محبت کے خواہاں ہیں لیکن اکثر لوگ محبت کو سمجھنا نہیں چاہتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ واصف علی واصف ؒ محبت کے حوالے سے فرماتے ہیں: ”محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی، یہ عطا ہے، یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔ محبت کی تعریف مشکل ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعراء نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیات کا ذکر ہوا، وضاحتیں ہوئیں، لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ واقعہ کچھ اور ہے، روایت کچھ اور۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہر ہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا نداز بدل جاتا ہے۔ کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔“ ہم اکثر کسی نہ کسی وجہ سے ڈرتے ہیں اور یہ ڈر ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتا ہے۔ خوف میں مبتلا افراد کے لیے بھی پیغام ”دل دریا سمندر“ میں موجود ہے۔ ”خوف پیدا ہونے کے لیے خطرے کا ہونا ضروری نہیں۔ خوف انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے، حالات سے بھی اورخیالات سے بھی۔جب انسان اپنی کسی خواہش کا جواز اپنے ضمیر میں نہیں پاتا، تو خوف زدہ ہونا لازمی ہے۔ خوف نارواخواہش کا اولیں سگنل ہے۔“ میں کتنی صدیوں سے اس انتظار میں گم ہوں الہٰی اب تو مسیحا کو آسمان سے اتار صاحب حال کے حوالے سے ایک واقعہ بھی اس مجموعے میں پڑھنے کو ملا ہے۔آپ کی نذر ہے۔ ایک صاحب حال مولانا روم ؒ سے ملا۔ بولا”مولانا!یہ علم کیا ہے؟“ مولانانے کہا”اسے آپ نہیں جانتے۔“ صاحب حال نے اپنا علم ظاہر کیا۔ مولانا بولے”یہ کیا علم ہے؟“ صاحب حال بولا”جسے تم نہیں جانتے۔“ اس کے بعد مولانا روم ؒ، غلام شمس تبریزؒ ہو کر رہ گئے۔مولانا بھی صاحب حال ہوگئے، صاحب مثنوی ہوگئے، ایسی مثنوی کہ قلوب کی خشک زمین پر عشق حقیقت کی نورانی برسات ہے۔مثنوی صاحب حال بناتی ہے۔ پیر رومیؒ کی محبت میں ”مرید ہندی“ صاحب حال ہو گیا، بلکہ صاحب اقبال باکمال ہوگیا۔ مجھے جن سطور نے اپنی گرفت میں کیا ہے۔ ان میں بہت کچھ ایسا ہے جو بہت خاص ہے۔مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والے بھی ان کا پیغام سمجھ جائیں گے۔ ”گمنام ادیبوں اور گمنام شعراء کی کاوشیں کسی نہ کسی نام سے شائع ہوتی رہیں، خوش بختی نے بدبختی سے اس کا فن خرید لیا۔ یہ کس کا حق تھا، دینے والے کا یا لینے والے کا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک گمنام ادیب کے مرنے سے کئی نامور ادیب مر جاتے ہیں۔ اس سماج میں کتنے ساغر صدیقی لٹتے رہے اور وہ اس لیے خاموش رہے کہ انہیں بولنے سے کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ صاحب تخلیق کوئی اور ہے صاحب دیوان کوئی اور گمنام ادیب غریب نہ ہوتا، تو گمنام کیوں ہوتا؟ ”زندگی میں جن ادیبوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا، مرنے کے بعد ان کے دن منائے جاتے ہیں، بڑی دھوم دھام سے لنگر تقسیم ہوتے ہیں۔مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے مزار پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ گمنامی میں مرنے والے ادیبوں کو مرنے کے بعد دانشکدے کا معزز رکن نامزد کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس ادیب کی عزت افزائی ہے یا توہین؟ ”کیا گمنام ادیب، ادیب نہیں؟ کیا بے دیوان شاعر، شاعر نہیں؟ کیا مشاعروں میں پہلے پڑھنے والے شعراء کے شعر کمزور ہوتے ہیں؟ ادیب کے وزن سے اس کا ادب تو وزنی نہیں ہو جاتا؟ کیا اد ب صرف ٹی ہاؤس میں پیدا ہوتا ہے؟ کیا ادیب صرف رسائل، اخباراورٹی وی تک ہی ہے، کیا شہروں سے باہر ادیب نہیں ہیں؟“ ”گمنام ادیبوں کو سرپرست چاہئیں، ان کا ہاتھ پکڑا جائے۔ ان کے پاس تازہ واردات کی تاثریں ہیں۔ انہیں پیرایہ اظہاردرکار ہے۔ آج کے نئے اور گمنام ادیب کو بڑے مسائل سے دو چار ہونا پڑرہا ہے۔“ ”آج کا المیہ یہ ہے کہ پرانا ادیب نہ بوڑھا ہوتا ہے، نہ ریٹائر ہوتا ہے۔ جب تک بزرگ ادیب بوڑھا نہ ہو، نیا ادیب جوان نہیں ہو سکتا۔ جب تک بزرگ ادیب ریٹائرنہ ہو، نیا ادیب فائز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پرانا خیال، جو اپنے زمانے میں نیا تھا، آج کے زمانے میں نیا پن اختیار کرنا چاہتا ہے اور یوں نامور ادیب صرف گمنام ادیب ہی پیدا کر تے رہیں گے اور نئے تخلیق کار شہر سے دور شہریار سے دوراپنے فن کی سسکیوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیں گے۔“ واصف علی واصف ؒ نے ”دل دریا سمندر“ میں جو لکھا وہ ایسا ہے جوہر دور کے انسان کے لیے کارآمد رہے گا۔ ان کی باتیں کسی خاص وقت کے لیے نہیں ہیں ان سے وہی فائدہ حاصل کرے گا جو اپنی زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔اگرآپ اپنی سوچ کے زاویے بدلنے کے خواہاں ہیں تو پھر آپ کے لیے اس کتاب سے بہترین اورکوئی چیز کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ |