آج کے دور کو سائنس و ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے اور
دنیا کے وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے ہیں ،وہ ہمیں معاشی سماجی
ترقی کے میدان میں بھی نمایاں مقام پر نظر آئیں گے۔ اس کی بہترین مثال چین
کی ہے جس نے ملک میں "سائنس دوست رویوں" کو پروان چڑھاتے ہوئے سائنس و
ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹی ہیں ۔ تازہ "گلوبل
انوویشن انڈیکس" کا جائزہ لیا جائے تو چین عالمی درجہ بندی میں گیارہویں
نمبر پر ہے جبکہ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین صف اول میں شامل پندرہ ممالک
میں متوسط آمدنی کا حامل واحد ملک ہے ، باقی فہرست میں دنیا کے بلند آمدنی
والے ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔
آج دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے جس بھی شعبے کا زکر کیا جائے ، چین آپ کو
نمایاں مقام پر نظر آئے گا۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کی اعلیٰ قیادت
سائنس و ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں میں خود ذاتی دلچسپی لے رہی ہے اور
چین کو ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک سرکردہ ملک بنانے اور سائنس ٹیکنالوجی
میں خود انحصاری کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے ۔ دیکھا جائے تو اس
وقت سائنس ٹیک انقلاب اور صنعتی تبدیلی کا ایک نیا دور تیزی سے آگے بڑھ رہا
ہے، بین الشعبہ انضمام بڑھ رہا ہے، سائنسی تحقیق کے پیراڈائم میں گہری
تبدیلیاں آ رہی ہیں، معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا
انضمام تیز ہو رہا ہےاور بنیادی تحقیق میں بین الاقوامی مسابقت کو نمایاں
فروغ مل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے عوام کے بہترین مفاد میں سائنس اور
ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس شعبے کو جدید کٹنگ
۔ایج ٹیکنالوجیز کی ترقی کو آگے بڑھانے، اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، ملک کی
اہم ضروریات کو پورا کرنے، اور عوام کی فلاح و بہبود میں احسن طور پر
استعمال کیا جائے۔ چین کو اہم شعبوں میں بنیادی ٹیکنالوجیز میں جدت اور
کامیابیاں حاصل کرنی چاہئیں، سائنسی اور تکنیکی اختراعات کو فوری نوعیت کے
اور اہم ترین مسائل سے نمٹنے کے لیےاستعمال کیا جائے۔چین کے نزدیک ملک کی
سٹریٹجک سائنسی اور تکنیکی صلاحیت کو بڑھانے اور انوویشن کے لیے ادارہ جاتی
تعاون کے تحت قومی لیبارٹریوں، تحقیقی اداروں، کالجوں اور معروف ٹیک فرموں
کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا ایسا بنیادی نظام
قائم کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے جو جدت کی حمایت کرتا ہو۔ ملک کو عالمی
نقطہ نظر کے تحت اپنی سائنسی اور تکنیکی اختراعات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے
آگے بڑھنا چاہیے اور عالمی سائنسی اور تکنیکی گورننس میں گہرائی سے حصہ
لینا چاہیے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی
میں ایک اجلاس کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی میں بنیادی تحقیق کو مضبوط بنانے
پر زور دیا۔انہوں نے سی پی سی کی 20 ویں سینٹرل کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے
تیسرے گروپ اسٹڈی سیشن کی صدارت کرتے ہوئے واضح کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی
میں زیادہ سے زیادہ خود انحصاری اور طاقت کے حصول کے لئے بنیادی تحقیق کو
مضبوط بنانا ایک فوری ضرورت ہے اور یہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک "گلوبل
لیڈر" کی تعمیر کا واحد راستہ ہے۔شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ ایک نئے
ترقیاتی نمونے کو فروغ دینے کے لئے، بنیادی تحقیق کی مضبوطی اور کلیدی
ٹیکنالوجیز کا حصول ناگزیر ہے ۔
بلاشبہ دور حاضر میں ٹیکنالوجی کے میدان میں خودانحصاری ہر ملک کی خواہش بن
چکی ہے اور اس حوالے سے چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک
مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت
2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔اس
دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی۔ دنیا
کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے
آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ،
برین سائنسز ، ائیرو اسپیس ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج
کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک منصوبوں کی تکمیل کرے گا۔چین کا یہ موقف ہے
کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو خریدا نہیں جا سکتا ہے
لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت ہے۔لیکن اس کا
ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی کی کوشش کی
جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ اہم
کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس طرح "چینی
دانش" کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار
ادا کیا جائے گا۔
|