ابھی چند روز قبل ہی چین کی وزارت صنعت و انفارمیشن
ٹیکنالوجی (ایم آئی آئی ٹی) سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کافی حیران کن
ہیں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تیزی سے پیش قدمی کا منہ بولتا ثبوت
ہیں۔وزارت کے مطابق چین بھر میں 5 جی بیس اسٹیشنوں کی تعداد 2.31 ملین سے
زائد ہو چکی ہے جو تمام پریفیکچر سطح کے شہروں، کاؤنٹیوں اور شہری علاقوں
کا احاطہ کرتے ہیں ،یوں چین نے دنیا کا سب سے بڑا 5 جی نیٹ ورک تعمیر کیا
ہے۔
حالیہ عرصے میں چین کی جانب سے مختلف صنعتوں میں 5 جی کے اطلاق کو فروغ
دینے اور 5 جی ٹیکنالوجیز اور صنعتی انٹرنیٹ کی مربوط ترقی کو فروغ دینے کا
سلسلہ رواں رکھا گیا ہے۔اسی کے ثمرات ہیں کہ ملک میں 5 جی پلس صنعتی
انٹرنیٹ سیکٹر کو نمایاں ترقی ملی ہے اور ایپلی کیشن منظرنامے کو وسعت دینے
میں ٹھوس پیش رفت دیکھی گئی ہے۔یہ کامیابی یقیناً ڈیجیٹلائزیشن اور انٹیلی
جنٹ تبدیلی کو بااختیار بنانے کے لئے ایک اہم محرک قوت ہے ۔اچھی بات یہ بھی
ہے کہ ساتھ ساتھ چین 6 جی پر بھی تحقیق کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس شعبے کی
صنعتی پیداوار، تعلیم، تحقیق اور ایپلی کیشن کے لیے آئی ایم ٹی 2030 (6 جی)
پروموشن گروپ بنایا گیا ہے۔ اس گروپ میں ملکی اور بین الاقوامی کمپنیاں،
یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے شامل ہیں۔اس حوالے سے جون 2019 کے اوائل میں
، گروپ کو وزارت صنعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی رہنمائی میں چین میں فلیگ
شپ پلیٹ فارم کے طور پر قائم کیا گیا تھا تاکہ 6 جی تحقیق اور ترقی کے ساتھ
ساتھ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔اس حوالے سے چین نے 6 جی پر
تکنیکی تجربات کے آغاز کے حوالے سے وائٹ پیپرز کا ایک سلسلہ بھی جاری کیا
ہے۔
دوسری جانب یہ امر بھی غورطلب ہے کہ چین نے گزشتہ 10 سالوں میں اپنے صنعتی
شعبے کی ترقی میں نمایاں پیش رفت کی ہے ، جس میں ایک بڑی مینوفیکچرنگ طاقت
اور وسیع پیمانے پر "سائبر موجودگی" والے ملک کے طور پر اس کی حیثیت کو
مزید مستحکم کیا گیا ہے۔ آج ملک کا صنعتی نظام مزید جامع ہو چکا ہے ، جس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت چین 41 بڑی صنعتی کیٹگریز کا
حامل ملک ہے جن میں سے 207 درمیانے درجے پر اور 666 نچلی سطح پر ہیں، چین
دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس اقوام متحدہ کی صنعتی درجہ بندی میں تمام
صنعتی کیٹگریز کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس دوران ملک کے صنعتی ڈھانچے میں مسلسل
بہتری آتی رہی ہے۔ ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ اور مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں
چین دنیا میں نمایاں ترین پوزیشن پر فائز ہے ۔ملک نے 24 قومی سطح کے
مینوفیکچرنگ انوویشن سینٹرز کے قیام کے ساتھ کلیدی شعبوں میں جدت طرازی کی
تاریخی کامیابیوں کا ایک سلسلہ بھی عمل میں لایا ہے ، جن کی بدولت لا تعداد
ثمرات بشمول انسان بردار خلائی مشن، چین کا اپنا مسافر بردار طیارہ سی 919
اور بڑی تعداد میں فائیو جی سے متعلق پیٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔یہ انوویشن کے
ثمرات ہی ہیں کہ آج ملک میں بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں چینی معاشرے کو تبدیل
کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ لوگوں کی نقل و حمل کے علاوہ ٹیک آؤٹ اور
پارسلز وغیرہ انہی بغیر پائلٹ والی گاڑیوں کے ذریعے پہنچائے جا رہے ہیں جو
چلتے ہوئے پوسٹ بکس کی مانند نظر آتی ہیں ، اس طرح سامان کی فراہمی سے
صارفین کے اخراجات کم ہو چکے ہیں۔ ترسیل کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے
کیونکہ خودکار گاڑیاں بہترین روٹ منتخب کر سکتی ہیں ،یوں جہاں توانائی کے
اخراجات میں بچت ممکن ہے ،وہاں ملک میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر بھی
نمایاں طور پر فروغ پا رہی ہے۔سو کہا جا سکتا ہے کہ وسیع ترین 5 جی نیٹ ورک
کی بدولت چین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور حقیقی معیشت کے گہرے انضمام کو فروغ دے
رہا ہے اور 5 جی ٹیکنالوجی صنعت کے ساتھ ساتھ زراعت، مینوفیکچرنگ، فنانس،
تعلیم، طبی خدمات، نقل و حمل اور توانائی کے شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے
اطلاق میں نمایاں حمایت کا موجب ہے.
|