شیخ عزیرشمس رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ کی وفات کے بعد
تحریروبیان کے ذریعہ ان کی سے زندگی سے وابستہ تمام علمی وتحقیقی پہلوؤں کو
اجاگرکیا گیا حتی کہ آپ کے عائلی اور وصفی گوشوں پربھی روشنی ڈالی گئی جن
کو پڑھ کر ایک انجان آدمی بھی آپ کے بارے میں بے جھجھک کہنے پر مجبور
ہوسکتا ہے کہ آپ کی شخصیت سراپا تواضع کا پیکر تھی ۔تواضع بھی عام نوعیت کا
نہیں بلکہ اعلی اقدار کاتواضع آپ میں پنپ رہاتھاجسے دوست واحباب ،
ہرملاقاتی اور جملہ تعلقاتیوں نے بخوبی محسوس کیا۔
آپ کے علمی پہلوؤں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور یہاں پر میرا جو موضوع
تحریرکا ہے اس پہلو کو بھی نہایت باریکی سے گھر سے لیکر معاشرتی تعلقات تک
ایک ایک بات قلمبند کی گئی ہے۔ان تحریروں کے ہوتے ہوئے میرا یہاں لکھنا
معلومات میں اضافہ کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ آپ کی متواضع شخصیت کا ذکرکرکے
خود کو اور شیخ کے بارے میں جاننے اور پڑھنے والے تمام حضرات کو اس خوبی کی
طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔
؎کیف پیداکرسمندرکی طرح -وسعتیں ، خاموشیاں،گہرائیاں
شیخ رحمہ اللہ خاموش سمندرکی طرح اپنے اندر وسعت وگہرائی کے ساتھ علم
وتحقیق کے کام میں مگن رہنے والے تھے ، آپ کو دنیاوی رکھ رکھاؤ، بناؤسنگار،
تکلفات، تصنع اورمادیت ونفس پرستی سے ذرہ برابر بھی لگاؤ نہ تھا۔بایں سبب
آپ اخلاق ومروت ، زہدوورع، سنجیدگی ومتانت، ایثار وقربانی، تواضع وانکساری
،نیک طینت ونرم طبیعت اور شیریں گفتار کے حامل تھے۔ان اوصاف حمیدہ نے آپ کو
عزت ووقار کے اوج ثریا پر فائزکردیا۔ سچ فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے :مَنْ
تواضعَ للهِ رفَعَهُ اللهُ(صحيح الجامع:6162)(جو اللہ کے لئے تواضع اختیار
کرتا ہے اللہ اس کو بلند کرتا ہے )
میری نظر میں شیخ رحمہ اللہ کاتواضع آپ کی زندگی کا ایک ایسا پہلوہے جسے
جتنا اجاگرکیاجائے کم ہے کیونکہ اس میں ہم سب کے لئے عبرت ونصیحت ہے۔آپ
جابجا علماء ، طلبہ اور سامعین کو اخلاق و تواضع کی نصیحت کرتےرہتے تھے ۔شیخ
مقصودالحسن فیضی حفظہ اللہ کے یہاں،سال 2019کو الغاط دعوہ سنٹر (سعودی عرب)
میں "فقہ اہل حدیث:مراجع ومصادر" کے عنوان سے آپ کا علمی محاضرہ تھا۔ اس
محاضرہ کا اختتام جن الفاظ پر فرماتے ہیں وہی آپ کی زندگی کا قیمتی سرمایہ
ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:"منہج سلف کے ہرباب میں ، عقیدہ کے با ب میں ہو ،
اخلاق کے باب میں ہو،ہمارے اندر کتنی کوتاہی ہے،ہم علم کی بات کرتے ہیں ،
عمل کی بات نہیں کرتے، اخلاق کی بات نہیں کرتے ، تطبیق کی بات نہیں کرتے۔
اصل چیز یہ ہے کہ آپ کسی عالم کو دیکھیں تواس سے تقوی ، پرہیزگاری ، دنیا
سے نفور ، ان چیزوں کا اظہار ہوتا ہو،نہ یہ کہ تکبر وغرور اور اپنی بات
منوانا اور زبردستی ۔ بڑے بڑے علماء ہمارےایسے تھے جن کو ہم لوگوں نے دیکھا
ہے پاکستان میں بھی ، ہندوستان میں بھی ،اتنے متواضع ، اتنے خلیق، اتنے خوش
اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے ۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی مرحوم ان کا جب
ذکر آتا ہے تو میں ضبط نہیں کرپاتا ہوں اپنے آپ پر۔(اس جگہ شیخ اپنے
اوپرواقعی ضبط نہیں کرپاتے اوررونے لگتے ہیں )۔
طلبا ء آتے تھے ان کے پاس، خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے ، ان کی رہنمائی
کرتے تھے ، ان کے پاس جو کتابیں ہوتی تھیں وہ بھی ان کو دے دیتے تھے ،کبھی
یہ پرواہ نہیں کرتے تھے کہ واپس کرکے لائے گا کہ نہیں ۔جب وہ کتاب بیچتے
تھے مکتبہ سلفیہ میں ، کتاب لوگ خریدکرلے جاتے تھے تو دے دیتے تھے۔مولانا
عبدالتواب ملتانی صاحب کے بارے میں بھی یہی ہے کہ لوگ آتے تھے ، کتاب لے
جاتے تھے ، کہتے پیسہ ہوگا تو دے دینا نہیں تو کوئی بات نہیں ۔تو ہمارے
علماء ایسے گزرے ہیں اور ہم کیا ہوگئے ؟۔اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی
توفیق دے ۔اور سب سے اہم چیز یہی ہے ، بغیر اخلاق کے ، بغیر عمل کے نہ ہم
اپنی دعوت پھیلاسکتے ہیں ، نہ کہیں کسی جگہ سرخروہوسکتے ہیں ، ہرجگہ ہمارے
اوپر صرف انگلیاں اٹھیں گی "۔شیخ کی بات ختم ہوئی۔
شیخ کے ان کلمات میں دردوکرب اور ہمارے حال پر افسوس دیکھیں ، حرف حرف
سچائی ہے ۔دن ورات ہم منہج سلف کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے سلف اخلاق میں
کیسے تھے اور ان کا عملی حال کیسا تھا اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔
ہماری دعوت کی رکاوٹوں میں اخلاقی گراوٹ ، کبروتعلی ، نخوت وغرور ، بغض
وحسد ، علمی رعب (اس میں ڈگری رعب، تصنیفی رعب،شہرتی رعب،منصبی رعب اور
ادارتی رعب سب شامل ہیں)، خودپسندی اور دوسروں کی تحقیرشامل ہیں جیساکہ شیخ
نے فرمایا کہ بغیراخلاق وعمل کے ہم دعوت نہیں پھیلاسکتے ہیں ۔ ایک ہندولڑکی
کی ایک ویڈیونظر سے گزری ، اس کا نام ندھی شرماہے وہ اسلامی ویڈیوزپرری
ایکشن کرتی ہے ، میرے سامنے اس کی جو ویڈیوآئی اس میں وہ تہجد کی نماز پر
ری ایکشن کررہی تھی ۔ جس لڑکی کو توحید سے کوئی مطلب نہیں وہ کافرہ
نمازتہجد پرری ایکشن دے رہی ہے یعنی اس کےپاس دنیاوی منفعت کے حصول کے لئے
مجرد کلام ہے ۔ آج یہی حال ہمارا ہے، ہمارے پاسعلم بہت ہے ، صلاحیت کا پہاڑ
ہے مگرعمل اور اخلاق نہیں ہے۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے ۔
اخلاق کے باب میں دیوبندی علماء بہت نمایاں نظر آتے ہیں ۔ یہاں مجھے دس
پندرہ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جب میں نے فراغت کے بعددہلی کے ایک
مدرسہ تحفیظ سے تدریس کا آغاز کیا۔ اس مدرسہ میں بچوں کو ناظرہ پڑھانے پر
مامور تھا، یہ مدرسہ دیوبندی مسلک کا تھا۔ ایک مدرس فجر کی نماز میں
پیردباکرروزانہ مجھے جگایا کرتے تھے ۔میں شرمندہ ہوجاتا تھا۔اس سے ایک بات
تو صاف ہے کہ علمائے احناف میں ادب واخلاق بہت بہتر ہے ۔ آج ہی کی بات ہے
،مفتی طارق مسعود حنفی صاحب(پاکستانی) سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ مولانا
طارق جمیل صاحب بہت سارے اکٹر سے ملتے رہتے ہیں ، آپ نہیں ملتے ہیں ؟ اس پر
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ "مولانا طارق جمیل صاحب نہیں ملتے ہیں بلکہ
اکٹرخود ان سے ملنے آتے ہیں ۔ اور وہ تو مجھ سے بہت بڑے ہیں، میں کہاں ان
کے سامنے، ان کی مجھ سے زیادہ خدمات ہیں"۔یہ واقعہ بطور نصیحت ذکرکیا ہوں ،
اس سے اندازہ لگائیں کہ مفتی طارق مسعود صاحب علمی اعتبار سے مولانا طارق
جمیل صاحب سے بڑے ہیں مگر کس طرح ادب واحترام سے ان کا ذکرکررہے ہیں ۔ اس
طرح کا سوال ہمارے یہاں ہوجائے تو عموما منفی جواب ملے گا کیونکہ ہم اپنے
سامنے کسی کو گوارہ نہیں کرتے الاماشاء اللہ ۔
شیخ عزیرشمس رحمہ اللہ کےاندر تواضع کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو شعبہائے
حیات کےہرمقام پر نظر آتا ہے ، جب آپ گھرمیں ہوتے ہیں تو اہل خانہ کے ساتھ
حسن سلوک اور جب باہرہوتے ہیں تو سب کے ساتھ یکساں الفت ومحبت ۔نہ کسی کوآپ
سے ملنے میں دقت، نہ کسی کوآپ سے بات کرنے میں خوف اور نہ ہی علمی رہنمائی
حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ ۔میں نےشیخ کی زندگی ، آپ کے حسن اخلاق اور اعلی
تواضع کے بارے میں کافی غورکیا کہ اس کے پیچھے کیاکیا محرکات کارفرما
ہوسکتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اللہ تعالی نے ذہانت کے ساتھ آپ کو بے
پناہ علم عطا کیا تھا، علم آپ کی غذا تھی۔ کثرت علم ومطالعہ کی وجہ سے اللہ
نے آپ کو علم سے محبت کے ساتھ علماء سے بے پناہ محبت کی توفیق دی اسی سبب
رجال وشخصیات آپ کا اہم میدان رہا۔آپ نے علماءکی کتب سے نہ صرف علم حاصل
کیا بلکہ ان کے زہدوورع کو بھی اپنایا ، اسی کا گہرااثرآپ کی زندگی پر پڑا۔
آپ نے کتنی بار علماء کے اخلاق وتواضع کو مثال کے طور پر بیان بھی کیا ہے ،
ایک بیان اوپر ذکربھی کرچکاہوں ۔
آپ نےجن دو شخصیات (میری مرادشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور آپ کے
شاگردرشیدعلامہ ابن القیم رحمہ اللہ) کے لئےاپنی زندگی وقف کردی ان بزرگوں
کی زندگی کے اثرات آپ پرکچھ زیادہ ہی مرتب ہوئے ۔ شیخ الاسلام امام ابن
تیمیہ رحمہ اللہ زہدو تواضع کی عمدہ مثال تھے ۔یہاں ان باتوں کے ذکر کا
مقام نہیں ہے ،بطور نمونہ آپ ہی کے شاگردعلامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا ایک
قول نقل کرتا ہوں ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ کے پاس گیا، انہوں نے فجر کی نماز پڑھی اور پھر ذکر الہی میں
مشغول ہو گئے۔ قریب قریب نصف النہار کے وقت میری طرف متوجہ ہوئے اورفرمانے
لگے کہ یہ میرا ناشتہ ہے،اگر میں یہ ناشتہ نہ کروں تو میری قوتیں جواب دے
جائیں۔(الوابل الصیب)
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی منازل السائرین کی شرح و تعلیق میں مدارج
السالکین اس باب میں اعلی نمونہ ہے جس میں زہدوورع اور تقرب الہی کے احوال
درج ہیں(اس کتاب کے متعددمحقق ہیں جن میں سے ایک شیخ بھی ہیں)۔
شیخ عزیرشمس رحمہ اللہ کے اندر تواضع کے مرکزی اسباب میں مذکورہ باتوں کا
زیادہ دخل ہے ۔ اس کے علاوہ مزید کئی اسباب پائے جاتے ہیں جو تواضع کے محرک
بنے جنہیں سطور ذیل میں اختصار کے ساتھ ذکر کرتا ہوں ۔
یہ بات واضح کرتاچلوں کہ تواضع کے لئے علم کا ہوناکافی ہے ، اس سے خشیت
الہی پیدا ہوتی ، عمل کا داعیہ پیداہوتا ہے اور انسان علم کی بدولت اخلاق
کے بلندمعیار پر فائزہوجاتا ہے مگر ہم اپنے سماج ومعاشرہ میں اہل علم کو
غیرمتواضع اور متکبر بھی پاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ علم ہوتے ہوئے بھی
تواضع نہیں پایا جاتا ؟ حالات، مسائل، مادیت ، شہرت ، منصب،تعصب ، حسد ،
دکھاوا، عداوت ، بےعملی ، فعل منکرات اور خودپسندی جیسے کرداروں سے تواضع
ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ مذموم صفات پیداہوجاتی ہیں۔
٭ شیخ رحمہ اللہ کا ماحول بہتر سے بہتر رہا خصوصا عرب میں تعلیم پھر یہیں
پر تحقیقی عمل -یہاں رہ کر اہل علم سے گہرے روابط ، ان سے کسب فیض اور جس
میں جو خوبی نظر آئی اپنالئے، خامیوں کا کوئی ذکر اور اس سےکوئی سروکار
نہیں ۔
٭مادیت کے دور میں علم بھی شہرت اور مادیت کی نذر ہوگیا ہے ، ہمارے شیخ اس
بلا سے محفوظ تھے ، نہ نفس پرستی، نہ کثرت معیشت کی بھوک ، نہ شہرت وناموری
کے حریص جیسے آج کل کے لوگوں میں نظر آتا ہے،ٹھیک اس کے برعکس آپ کی سادہ
زندگی، سادہ لباس، سادہ غذا ۔ وضع قطع سے ہی صاف صاف جھلتا ہے کہ آپ کو
ظاہری ٹیپ ٹاپ اور دکھاوا سے کوئی مطلب نہیں تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
مادیت سے مستغنی ہوکرقناعت پسندی اختیارکرنا تواضع کا سبب ہے۔
٭آپ کا تواضع ہی ہے کہ آپ کو کسی سے حسد نہیں تھا، نہ علماء سے اورنہ عوام
سے۔جو حسد کی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اس کے اندر تواضع پیداہونا مشکل
ہے بلکہ ایک حسد متعدد مذموم صفات لے کر آتاہے جیسے کبروغرور ، دشمنی، فخر،
خودنمائی ،دوسروں کو حقارت سے دیکھنا،حق کا انکارکرنااورباطل کی تائید
کرناوغیرہ۔ شیخ رحمہ اللہ دل وزبان کے امراض خبیثہ یعنی بغض وحسد، غیبت
وچغلی، کبروغروراور عدوات ودشمنی سے بچے ہوئے تھے۔
٭خشیت الہی تواضع کے لئے بڑا محرک ومعاون ہے ، بندہ جس قدر اللہ سے خوف
کھائے گااس قدر قرب الہی حاصل ہوگی اوراس میں زہدوورع کی خو پیدا ہوگی جس
کا پرتواس کی زندگی کے ہرپہلو میں نظر آئے گا۔گفتگو، معاملہ ، تعاون، نششت
وبرخاست ، لباس وپوشاک ، وضع قطع، کھان پان یعنی جملہ مشاغل حیات میں تواضع
کا عنصر جھلکے گا۔ آپ نے شیخ کے عربی پڑوسی کا بیان سنا ہوگا جو فجر کی
نماز میں برابر دیکھا کرتا تھا ، علیک سلیک بھی ہوتا مگر کبھی گمان نہیں
ہوا کہ آپ بڑے عالم دین ہیں، وفات کے بعد جب لوگوں کا جم غفیر دیکھا تب
معلوم ہوا۔ فجرکی پابندی اور تواضع یہ تقوی کے سبب رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ
دعوت میں سختی اور زبردستی کو بیحد ناپسند کرتے اورنرمی و اخلاق سے دعوت
دینے کی تلقین فرماتے۔
آج ہمیں اس بات کی اشدضرورت ہے کہ اپنے اندر خشیت الہی پیدا کریں، عمل
وتطبیق کا جذبہ بیدار کریں ، کبروغرور پیداکرنے والے امور سے بچیں اورتواضع
کے اسباب خصوصا خلقت انسانی پرغور، آخرت کی فکر اور خشیت الہی کے ساتھ
پروردگارسے تواضع کی دعا مانگیں ۔ تواضع کی برکت سے سیکڑوں اچھے اوصاف
پیداہوتے ہیں اور آدمی کاوقار دنیا میں بھی بلند ہوتا ہے اور اخروی انعام
اپنی جگہ پر۔ اپنی بات کو تواضع سے متعلق ایک اہم حدیث پر ختم کرتا ہوں جس
کی عملی تفسیر ہمارے شیخ رحمہ اللہ تھے اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہمیں
بھی شیخ کی طرح متواضع بننے اور مذکورہ حدیث کو عمل میں لانے کی توفیق دے ۔
نبی کریم ﷺکافرمان ہے :المؤمنُ غرٌّ كريمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئيمٌ(صحيح أبي
داود:4790)(مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ
ہوتا ہے)۔
|